”مسکرانا، اور خاص طور پر ایک قریہِ سفاک میں مسکراہٹیں بانٹنے والا اللہ کی طرف سے ایک بڑا انعام ہوتا ہے، اور جب اس تقسیم کار کا نام ڈاکٹر انعام الحق جاوید ہو تو یہ مسرت جاوداں ہوجاتی ہے، ایک دائمی مسکراہٹ تو اس بلند قامت کے ہونٹوں اور آنکھوں میں ہمیشہ نظر آتی ہے جس سے پوری محفل کی سنجیدگی ایک دل آویز خوشی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔“ درج بالا سطور محمود شام نے کلیات کے فلیپ پر لکھی ہیں، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ٹینشن کے اس دور میں مزاح بکھیرنے والا خوش نصیب ہے جو لوگوں کی خوشی کا باعث بنتا ہے۔ مزاح لطف اور آسودگی کے حصول کا ایک اہم حربہ ہے، اس سے آدمی لذت کشید کرتا ہے۔ مزاح ٹینشن اور ڈپریشن جیسی بیماریوں کا علاج ہے۔
کلیات میں ڈاکٹر صاحب کا مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلام بھی شامل ہے۔ قطعات کے ساتھ ساتھ مزاحیہ غزلیں اور ظریفانہ نظمیں بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ بہ طور مزاح نگار اور شاعر انہیں بے مثال کامیابیاں ملیں۔ ڈاکٹر صاحب صفِ اول کے شعرا میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ مزاح کے علاوہ پنجابی زبان کے محقق اور نقاد بھی ہیں۔
تھوڑی دیر کے لیے بڑے ناموں کے دبدبے کو ایک طرف رکھ کر صرف ان کے کلام کو ادب کی کسوٹی پر رکھا جائے تو انعام الحق جاوید کا نام بھی خوب سرسبز اور سدا بہار دکھائی دیتا ہے۔ یہ کلیات مزاحیہ ادب میں ایک نیا اور خوش گوار اضافہ ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔