مکہ سے مدینہ کا سفر بڑی آرزوئوں اور تمنائوں کا متلاشی ہے، جس میں انسان اپنے رب کو پانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے باطن کو پاک رکھتا ہے، اور پھر رسول اکرمؐ سے اپنی عقیدت کا اظہار بھی کرتا ہے جو دونوں لازم و ملزوم ہیں، اور پھر پاک صاف ہوجاتا ہے۔ مصنف کی کتاب ”اور میں نم دیدہ نم دیدہ“ بظاہر ایک سفرنامہ ہے مگر یہ ان کی یادداشتوں کا مجموعہ ہے، یہ اُن احساسات و جذبات کا ایک حسین اظہار ہے جو انہوں نے مکہ اور مدینہ میں محسوس کیے۔ یہ سفر آپ کو اُن کے ساتھ ہونے کا احساس دلائے گا۔ یہ مصنف کا محبت نامہ ہے کہ دل کی دھڑکن کیسے اپنی ترتیب کھوتی ہے، کیسے اپنے اندر جذبات کی لہریں بے قابو ہوکر کسی سر پھرے طوفان میں بدلتی ہیں، قدم کس قدر بھاری ہوتے ہیں، وجود کیسے گھسیٹا جارہا ہوتا ہے، دورانِ طواف اور دورانِ سعی تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کے ساتھ ساتھ مقدس ہستیوں کے ساتھ محبتیں، واقعات کا دل و دماغ میں روشن ہوجانا… یہ سارے احساسات مصنف کے قلم سے پڑھ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، اور مکہ کے اس سفر میں ماضی کی صعوبتیں جو اب راحتوں میں بدل گئیں، حجاز کی تاریخ، قافلوں کے احوال سمیت اور بھی بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے۔ حرم میں پہنچ کر نئے آنے والوں کی مشکلات اور بدلتے قوانین دیکھنے کو ملتےہیں۔
مکہ سے مدینہ کا سفر بھی تاریخ کے اوراق پلٹ پلٹ کر ہورہا ہے۔ ساڑھے چودہ سو سال پہلے کے راستے اور مسافر کے احوال ساتھ ساتھ چلتے ہیں، مدینہ پہنچتے پہنچتے قاری صرف مکہ سے مدینہ کا سفر طے نہیں کرتا، مصنف اس کے ساتھ کئی سفر اور بھی کروا دیتا ہے۔ مدینہ کا حال احوال بھی خوب لکھا ہے اور مدینہ کے گرد و نواح کا بھی۔
طائف کا سفر بھی اپنے آپ میں ایک الگ ہی پہلو سمیٹے ہوئے ہے جو بار بار پڑھنے کو دل کرتا ہے۔ طائف شہر کی دورِ نبویؐ میں اور اب جو صورتِ حال ہے ، اچھی تفصیل سے موجود ہے۔ اس کتاب میں ایک اور بات بالکل منفرد لگی، وہ مصنف کا شاعری سے لگائو ہے۔ برمحل اور بر موقع شاعری کا استعمال بہت خوب کیا۔
کتاب کا دلچسپ ترین پہلو یہ ہے کہ مختلف جگہوں سے جڑی یادیں اور مصنف کی اپنی یادیں، ان سے جڑی تاریخ اور اس تاریخ پر ان کا اپنا اندازِ بیاں بہت ہی حسین انداز میں روانی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جس کو پڑھنے کے بعد قاری اس کتاب کے عنوان کو سچ پائے گا۔ ”اور میں نم دیدہ نم دیدہ“ خوب صورت سرِورق اور اعلیٰ سفید کاغذ کے ساتھ اچھی شائع ہوئی ہے۔