دکان دار کے بغیر دکان؟ ہے نا انوکھی بات۔ سامان رکھا ہے، اپنی مرضی کے مطابق اٹھائیے اور پرچی کے مطابق قیمت ادا کرکے سودا مکمل کیجیے۔ یہ ہے دیانت کا منفرد اور کامیاب تجربہ
معیاری زندگی وہ ہے جس میں دیانت ہو۔ معاشرے اُسی وقت پروان چڑھتے ہیں، پھلتے پھولتے ہیں جب دیانت کو بنیادی چلن کا درجہ حاصل ہو۔ ترقی یافتہ معاشروں کا باریک بینی سے جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن کی کامیابی کا ایک بنیادی راز یہ بھی ہے کہ وہاں لوگ انتہائی دیانت کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ دیانت روزمرہ لین دین میں بھی نمایاں طور پر پائی جاتی ہے اور زندگی کے اعلیٰ و ارفع مقاصد کے حوالے سے بھی بہت حد تک چلن میں رہتی ہے۔
ترقی پزیر اور پس ماندہ معاشروں میں دیانت بنیادی چلن نہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو چھلنے میں لگے رہتے ہیں۔ انتہائی پس ماندہ ممالک کی خیر بات ہی کچھ اور ہے، حقیقت یہ ہے کہ ترقی پزیر معاشروں میں بھی ہر اعتبار سے بھرپور دیانت پر مبنی طرزِ فکر و عمل اب تک پروان نہیں چڑھ سکی۔ لین دین میں ایک دوسرے کو دھوکا دینا بالکل عمومی رویہ ہے۔ یہ سب کچھ حیرت انگیز اس لیے نہیں کہ جو معاشرے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں، کچھ زیادہ نہیں کرپاتے اُن میں عام آدمی اپنی پس ماندگی کو چھل کپٹ کے ذریعے دور کرنے کی سعی کرتا رہتا ہے، اور ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے ضمیر پر بالعموم کوئی خاص بوجھ بھی محسوس نہیں کرتا، کیونکہ اُسے اور کوئی راستہ یا طریقہ نہیں سُوجھتا، اور وہ عمومی طریقے سے چلتے رہنے کو کسی بھی اعتبار سے معقول تصور نہیں کرتا۔
بعض معاشروں میں دیانت کے حوالے سے تجربے بھی کیے جاتے ہیں۔ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ کس حد تک دیانت دار ہیں۔ دیانت کی سطح چیک کرنے کے لیے ایسی دکانیں کھولی جاتی ہیں جن میں کوئی دکان دار نہیں ہوتا۔ اِن دکانوں میں سامان قیمت کی پرچی کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ لوگ اپنی مرضی کی چیز اٹھاتے ہیں اور پرچی پر لکھی ہوئی قیمت ادا کرکے سامان لیتے ہیں۔ بھارت کی ریاست ناگالینڈ میں بھی ایسا ہی تجربہ ایک زمانے سے کیا جارہا ہے اور خاصا کامیاب رہا ہے۔ اس کاروبار میں دیانت اور اعتماد کو بنیادی کرنسی کا درجہ حاصل رہا ہے۔ ناگا لینڈ کے علاقے فٹسیرو (Pfutsero) میں بہت سی دکانیں اعتماد کی بنیاد پر چلائی جارہی ہیں۔ خواتین کسان کھیتوں کی پیداوار شاہراہوں پر بنی ہوئی اِن دکانوں میں رکھ دیتی ہیں۔ مختلف اجناس کے ڈھیر یا بنڈل قیمت کی پرچی کے ساتھ سجادیے جاتے ہیں۔ شاہراہ سے گزرنے والے ان دکانوں سے اپنی مرضی کی چیز اٹھاتے ہیں اور قیمت رکھ دیتے ہیں۔ کوئی بھی اجنبی کسی بھی چیز کو لے سکتا ہے اور لکھی ہوئی قیمت ادا کرکے جاسکتا ہے۔ کوئی دیکھنے والا ہوتا ہے نہ پوچھنے والا۔ بھارت کی جنوبی ریاست کیرالا کے 15 اسکولوں میں بھی ایسا ہی تجربہ کیا گیا جو کامیاب رہا۔ اس تجربے سے خاصے حوصلہ افزا نتائج حاصل ہوئے۔ جو کچھ ناگا لینڈ اور کیرالا میں ہوا وہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں خیر چاہنے والوں کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی ہے، اور اگر مواقع میسر ہوں تو لوگ بھرپور دیانت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، اور جس طور خرابیاں زور پکڑتی ہیں بالکل اُسی طور اچھائیاں بھی جڑ پکڑتی ہیں۔ خیر اور فلاح کا پیغام ذرا زیادہ زور سے پیش کرنا پڑتا ہے، بس۔ شر اگر چین ری ایکشن کا معاملہ ہے تو خیر بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
ناگا لینڈ بنیادی طور پر پہاڑوں سے بھرا ہوا علاقہ ہے۔ اِس میں ہرے بھرے پہاڑوں کا علاقہ اور سرسبز وادیاں بھی ہیں۔ قدرتی حُسن اس علاقے میں چپے چپے پر بکھرا ہوا ہے۔ آلودگی کا گراف بھی بہت نیچے ہے۔ یہی حال لوگوں کا بھی ہے۔ اُن کے مزاج میں بھی آلودگی برائے نام پائی جاتی ہے۔ ناگا لینڈ کے لوگ سادہ طبیعت کے حامل ہیں اور خاصے بلند ضبطِ نفس کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ناگا لینڈ کی شاہراہوں پر سفر کرنے والے جب پہاڑوں اور وادیوں کا حُسن دیکھتے ہوئے گزرتے ہیں تو سڑک کے کنارے بنی ہوئی دکانیں اُنہیں حیرت زدہ کردیتی ہیں، کیونکہ وہاں اُنہیں کوئی دکان دار دکھائی نہیں دیتا۔ اِن دکانوں میں کھیتوں اور باغوں کی پیداوار سیلقے سے رکھی ہوتی ہیں اور ہر بنڈل پر قیمت بھی درج ہوتی ہے۔ لوگ گاڑیاں روک کر اِن دکانوں سے اپنی پسند اور مرضی کے مطابق خریداری کرتے ہیں اور قیمت رکھ کر سفر جاری رکھتے ہیں۔ اِس بازار میں سب سے بڑی کرنسی صرف اور صرف دیانت ہے۔ وہاں کوئی سی سی ٹی وی کیمرا نصب نہیں ہوتا۔ ریاست کے باشندے اور باہر سے آنے والے اِن دکانوں سے خریداری کرتے ہیں اور پوری قیمت چکاتے ہیں۔ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو قیمت سے زیادہ رقم بھی رکھ جاتے ہیں۔
معروف فلم میکر بھرت بالا کو بھی اِس بے مثال دیانت دارانہ تجربے نے بہت متاثر کیا۔ وہ ناگا لینڈ میں سڑک کے ذریعے سفر کے دوران ایسی کئی دکانوں پر رُکے، خریداری کی، قیمت ادا کی اور اپنا سامان لے کر روانہ ہوئے۔ ناگا لینڈ کے صدر مقام کوہیما کو ضلع پھیک اور ضلع کیفائر سے ملانے والی شاہراہ پر یہ دکانیں ہر اُس شخص کو حیران کردیتی ہیں جو ریاست میں پہلی بار آیا ہو اور ایسا تجربہ پہلے کبھی نہ دیکھا ہو۔
بھرت بالا کا کہنا ہے کہ ناگا لینڈ کے اس انتہائی منفرد تجربے سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خیر کے کسی بھی کام کو کیا بھی جاسکتا ہے اور کامیابی سے ہم کنار بھی کیا جاسکتا ہے۔ عام آدمی دیانت دار ہی ہوتا ہے۔ اُسے تھوڑی سی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے، بس۔ ذرا سوچیے، کوئی کیشئر ہے نہ سیکیورٹی۔ صرف اعتماد ہے جو دکان دار اپنے گاہکوں پر کررہا ہے، اور گاہک بھی اُس کی توقع پر پورے اتر رہے ہیں۔ یہ پیداوار اُن غریب کسانوں کی ہوتی ہے جو اپنی محنت کا صلہ چاہتے ہیں اور وہ بھی لوگوں پر پورا بھروسا کرتے ہوئے۔ یہ منفرد اور مثالی تجربہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم آج بھی، اِس گئی گزری دنیا میں خیر اور فلاح کے تجربے کرسکتے ہیں اور کامیابی سے ہم کنار بھی ہوسکتے ہیں۔
ناگا لینڈ کی اِن دیہی دکانوں میں موسم کے پھل اور سبزیوں کے علاوہ اچار، پھلوں کا رس، مکھن، دہی اور دیگر اشیا بھی فروخت ہوتی ہیں۔ کسان بالعموم صبح کے اوقات میں اپنے کھیتوں اور باغوں کی پیداوار اِن دکانوں میں رکھتے ہیں اور شام کو گھر جاتے ہوئے کیش بکس لے جاتے ہیں۔
نگراں کیمروں والی جدید دنیا میں دیانت کا ایسا تجربہ انتہائی کمیاب بھی ہے اور کامیاب بھی۔ یہ دوسروں کے لیے ایک روشن مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ شہری زندگی میں اس نوعیت کی دیانت مفقود ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی دیکھا گیا ہے کہ بظاہر مہنگائی نہ ہونے پر بھی لوگ سامان چراتے ہیں، اور اگر حساب کتاب میں گڑبڑ ہوجائے تو وہ رقم ادا کرنے سے گریز کرتے ہیں جو اُن کے ذمے رہ گئی ہو۔ شہری زندگی میں ایک دوسرے پر بھرپور اعتماد نہ کرنے کی روایت خاصی توانا ہے۔ شہروں میں رہنے والے معاشی مشکلات کے خوف میں اس قدر مبتلا ہوتے ہیں کہ دیانت کے حوالے سے کوئی بھی تجربہ کرنے سے ڈرتے ہیں، ہچکچاتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ شہروں میں بھی لوگ اِسی طور اپنا مال رکھ دیں اور قیمت کی پرچی بھی لگادیں تو ایسے تجربے پر آمادہ ہونے والوں کو انگلیوں پر گِنا جاسکے گا۔
جنوبی ریاست کیرالا کے 15 اسکولوں کے علاوہ بھارت کی شمال مشرقی ریاست میزورم میں بھی دکان داروں کے بغیر دکانیں چلانے کا ایک تجربہ کامیاب رہا ہے۔ ناگا لینڈ کے کسانوں کا کہنا ہے کہ جب کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا ہے توخدا دیکھ رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنے مال کو خدا کے بھروسے چھوڑتے ہیں۔ سول سوسائٹی ورکر اینگا ویکھوٹالو کا کہنا ہے کہ دکان داروں کے بغیر دو دکانیں پندرہ سال قبل کھولی گئی تھیں۔ 2015ء میں ایسی دکانوں کی ایک مارکیٹ قائم ہوئی۔
ناگا لینڈ کی سیر کو آئے ہوئے بھارتی اور غیر بھارتی سیاحوں کے لیے بھی یہ دکانیں بہت منفرد ہوتی ہیں، اس لیے وہ رُک کر خریداری کرتے ہیں۔ لوگ نقد بھی خریداری کرتے ہیں اور یو پی آئی اسکینرز کے ذریعے بھی۔
اس تجربے نے دیہی خواتین کی مشکلات دور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ وہ گھروں میں بہت سی چیزیں تیار کرکے اِن دکانوں میں رکھ دیتی ہیں اور یوں اُنہیں گزر بسر کے لیے اچھی خاصی رقم مل جاتی ہے۔ بہت سی خواتین اِن دکانوں سے یومیہ دو ہزار روپے تک کمالیتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ نقصان اگر ہوتا ہے تو موسم کے باعث، نہ کہ لوگوں کی بددیانتی سے۔ اگر کوئی چیز پڑے پڑے خراب ہوجائے تو لوگ نہیں لیتے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ ان دکانوں کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ لوگ اس منفرد تجربے کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں اور اُن کی طرزِ فکر و عمل سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی اچھا کام شروع کیا جائے تو لوگ رفتہ رفتہ ساتھ دینے لگتے ہیں۔ کہیں اور سے ناگالینڈ آنے والوں کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوتی ہے کہ دکانوں کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں اور جو چاہو اٹھاؤ اور قیمت رکھ کر لے جاؤ۔
فلم میکر بھرت بالا نے جب یہ منفرد تجربہ دیکھا تو بہت سے کسانوں سے بات کی اور پوچھا کہ اُنہیں کامیابی کس حد تک ملی ہے؟ کسانوں نے بتایا کہ یہ تجربہ مکمل طور پر کامیاب رہا ہے۔ ہم لوگوں پر اعتبار کرتے ہیں، لوگ ہم پر۔ یہ سراسر دو طرفہ معاملہ ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ ہماری محنت بہت سوں کے لیے ایک اچھی مثال بن گئی ہے۔ بات سیدھی سی ہے، ہم معاشرے پر بھروسا کرتے ہیں اور معاشرہ بھی ہمیں خلوص و اعتماد اور دیانت کی کرنسی ہی میں قیمت چکاتا ہے۔
دہلی کی معروف کنسلٹنٹ سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر سنیہا شرما کہتی ہیں کہ نفسیات کے مضامین میں اعتماد اور دیانت کے حوالے سے بہت کچھ پڑھایا جاتا ہے۔ اعتماد اور خلوص کا انسان کے مزاج پر غیر معمولی اثر مرتب ہوتا ہے۔ جس طور لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر بُرے کاموں کی طرف لپکتے ہیں بالکل اُسی طور اچھے کاموں کے معاملے میں بھی لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، سوال صرف اعتبار اور اعتماد کا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی کسی پر بھروسا کرتا ہے تو وہ بھی بھروسا کرتا ہے۔ حد یہ ہے کہ جو لوگ ناگا لینڈ کے لیے اجنبی ہوتے ہیں وہ بھی بھروسے کا جواب بھروسے ہی سے دیتے ہیں۔
ڈاکٹر سنیہا شرما نے بتایا کہ بہت سے چھوٹے بک اسٹال اور کیفے بھی ناگالینڈ کی بغیر دکان دار، دکانوں کے اصولوں پر کام کرتے ہیں اور کامیاب ہیں۔ میزورم میں کووڈ کی وبا کے دوران ایسی دکانیں قائم کی گئیں جن میں کوئی دکان دار نہ تھا۔ یوں بھرپور اعتماد پروان چڑھا اور یہ دکانیں بھی کامیابی سے ہم کنار ہوئیں۔ کیرالا کے علاقے کنور میں سیلف ہیلپ ہونیسٹی شاپس بھی کامیاب رہی ہیں۔ یہ دکانیں جن شکتی چیریٹیبل ٹرسٹ کے زیرِاہتمام چلائی جاتی ہیں۔ ضلع ارناکلم کے 15 اسکولوں میں بھی ایسی ہی دکانیں متعارف کرائی گئی تھیں۔