تحریک انصاف، جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی سرگرمیاں
خیبرپختون خوا میں پچھلے کئی دنوں سے صوبے کی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنی سرگرمیوں کے ذریعے ہلچل نظر آرہی ہے۔ حیران کن طور پر صوبے میں پچھلے گیارہ سال سے برسراقتدار پی ٹی آئی بھی اپنے جلسے جلوسوں کے ذریعے حکمران جماعت کے بجائے اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے۔ پی ٹی آئی نے گزشتہ دنوں صوابی میں جو جلسہ منعقد کیا ہے وہ 8 فروری2024ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تھا۔ اصولاً یہ جلسہ اسلام آباد یا پھر پنجاب کے کسی شہر میں منعقد ہونا چاہیے تھا کیونکہ جس دھاندلی کے خلاف یہ احتجاج کیا جارہا تھا اُس کے تانے بانے خیبرپختون خوا کے بجائے اسلام آباد یا پھر پنجاب کے ساتھ ملتے ہیں، لیکن پی ٹی آئی نے نہ جانے اس احتجاج کے لیے خیبرپختون خوا کا انتخاب کیوں کیا!
صوابی انٹر چینج کے مقام پر 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات کے ایک سال پورا ہونے کے موقع پر یوم سیاہ کے طور پر احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ علی امین خان گنڈاپور نے اعلان کیا کہ ہم عمران خان کی قیادت میں ملک میں قانون کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی کے لیے آگے بڑھیں گے اور اس راستے میں ہمارے مقابلے میں جو بھی آئے گا ہم اُس سے لڑیں گے اور مریں گے۔ انہوں نے کہا کہ نظریہ مرتا، ختم ہوتا اور ڈرتا نہیں ہے، عمران خان جیل میں بیٹھ کر بھی جیتا ہے جبکہ مینڈیٹ چور ایوانوں میں بیٹھ کر بھی ہار گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے مینڈیٹ چھینا گیا تھا، ہم اپنا حق مانگتے ہیں۔ شہبازشریف فوج اور عوام کے مابین خلیج پیدا کررہے ہیں اور دونوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں، جو قوم کے لیے نقصان دہ بات ہے۔ میرا اداروں سے مطالبہ ہے کہ مینڈیٹ چور حکمرانوں کے بجائے قوم کی آواز بنیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لیڈر عمران خان کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے لیے بات چیت کو تیار ہیں اور ہم بھی تیار ہیں، اگر تم بات چیت کے لیے تیار نہیں ہو تو یاد رکھو ہمیں جواب دینا بھی آتا ہے۔ حکمران قوم کے پیسوں سے خریدے گئے ہتھیار اگر ہمارے اوپر استعمال کرتے ہیں تو ہمارے پاس بھی ہتھیار ہیں۔ پاکستان اور میرے صوبے میں دہشت گردی ہے، اور دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ عوام کی حمایت کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسے حکمرانوں پر تھوکتے ہیں جنہوں نے بے گناہ کارکنوں پر گولیاں چلا کر ان کو شہید کردیا۔ ہم ان شہداء اور غازیوں کو سلام پیش کرتے ہیں، انقلاب کا نعرہ لگا کر ہم آگے بڑھیں گے، قرآن مجید میں اللہ نے خون کا بدلہ خون کا حکم دیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر علی گوہر نے صوابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں سیاسی مسائل کا حل سیاسی سطح پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ مذاکرات ہونے چاہئیں، جس کے لیے پی ٹی آئی نے مختلف مراحل میں کمیٹیاں بھی بنائیں، مگر حکومت نے دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا، اس لیے اِس کے لیے نیک نیتی سے سوچنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان دوبارہ کال دیں گے جس پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں ورکرز کو نکلنا ہوگا، پاکستان قیدی نمبر 804 عمران خان کے بغیر ہرگز نہیں چل سکتا، اور وہ بہت جلد عوام کے درمیان ہوں گے۔ انتخابات کے ایک سال بعد عمران خان کی آواز پر صوابی کے جلسے نے تاریخ رقم کی، ہم مینڈیٹ کی یہ چوری کبھی نہیں بھولیں گے۔ گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی سے نشان چھینا گیا، اس کے باوجود عوام نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے دیگر نشانات ڈھونڈ کر پی ٹی آئی کو پورے ملک میں بھاری مینڈیٹ سے نوازا، لیکن رات کی تاریکی میں عوام کا مینڈیٹ چوری کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ صوابی کے جلسے میں عمران خان کا پیغام لے آکر آیا ہوں، پی ٹی آئی 8 فروری 2024ء کو جیتی تھی، آج بھی اور کل بھی جیتے گی۔ پی ٹی آئی ایک منظم جماعت ہے جس میں نفاق اور بدتمیزی نہیں ہے۔ مستقبل اور حال ہمارا مقدر ہے، پوری قوم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے۔
صوبائی صدر جنید اکبر نے کہا کہ عمران خان کی کال پر صوابی کے جلسے میں شرکت پر تمام صوبوں کے کارکنوں اور عوام کا مشکور اور احسان مند ہوں، عمران خان ایک دفعہ پھر دوبارہ کال دیں گے، آپ کو تیار رہنا ہے۔ حکمرانو! تم ڈاکٹر یاسمین راشد، عالیہ حمزہ، صنم جاوید، طیبہ راجا کو نہ توڑ سکے تو عمران خان کے کارکنوں کو کیسے توڑ سکو گے؟
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ صوابی کے جلسے نے ثابت کیا کہ عوام عمران خان کے ساتھ ہیں اور اُس کا مینڈیٹ چوری ہوا تھا۔ اس جلسے میں آمد پر سب کو خوش آمدید کہتے اور شکریہ ادا کرتے ہیں اور مینڈیٹ چوری کے خلاف جنگ میں عوام عمران خان کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔
جلسے سے سابق وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری، رانا عباس، وقاص شیخ اور شہرام خان ترکئی نے بھی خطاب کیا۔
دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف نے صوابی جلسے میں پارٹی رہنماؤں اور عوام کی شرکت کی رپورٹ مرتب کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ اس ضمن میں تمام پارٹی رہنماؤں کو اپنے قافلوں کے ہمراہ شرکت کی ہدایت کی گئی تھی۔ صوبائی صدر جنید اکبر نے پارٹی کے تمام رہنماؤں سے متعلق رپورٹ طلب کرلی ہے جو پارٹی قائد عمران خان کو پیش کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق جنید اکبر نے ریجنل صدور اور ضلعی صدور کو رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ضلعی سطح پر متعلقہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے منتخب ممبرز اور ٹکٹ ہولڈرز کی جلسے میں شرکت کے حوالے سے رپورٹ تیار کی جائے گی۔ رپورٹ میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ کس ممبر نے کتنے کارکنوں کو سہولیات فراہم کیں اور کس قافلے میں کتنے لوگ شامل تھے؟ اس حوالے سے ضلعی سطح پر رپورٹ تیار کی جائے گی جس کی ریجنل صدور تصدیق کریں گے اور صوبائی صدر کو پیش کریں گے۔ صوبائی صدر جنید اکبر مذکورہ رپورٹ عمران خان کو پیش کریں گے۔
صوبے میں جاری سیاسی ہلچل میں جمعیت علماء اسلام بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہے، اس ضمن میں مولانا فضل الرحمٰن نے پہلے مردان شیرگڑھ میں دستاربندی کی ایک بڑی تقریب سے خطاب کیا، اور اس سے اگلے روز نشتر ہال پشاور میں قبائلی اضلاع کے حوالے سے منعقدہ جرگے سے خطاب کیا۔ مولانا فضل الرحمٰن کا ان تقریبات سے خطاب میں کہنا تھا کہ امریکہ سمیت تمام دنیا مدارس ختم کرنے کی سازش کررہی ہے، 8 فروری کو ملک بھر میں بدترین دھاندلی کی گئی، موجودہ پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جعلی پارلیمنٹ دھاندلی کے ذریعے وجود میں آئی ہے، بھرے ہوئے عوام سڑکوں پر آئیں گے تو جعلی ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے رجسٹریشن کے نام پر بینک اکاؤنٹ بند کرنے کی سازش کی، میری پارلیمنٹ عوام ہیں، قادیانیت یہودیوں کے پیداوار ہے، جب تک میری طاقت زندہ ہے کسی کا باپ بھی قادیانیت نہیں لاسکتا۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ یہودی بستیاں ناجائز ہیں، ہم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، ہم نے اپنی جدوجہد نہیں چھوڑی، ہم سیاسی جہاد کے راستے پر قائم ہیں، میدان میں رہیں گے، سڑکوں پر رہیں گے اور تمھارے ایوانوں تک پہنچیں گے۔
صوبے میں جاری سیاسی سرگرمیوں میں صوبے کی دو بڑی قوم پرست جماعتیں اے این پی اور قومی وطن پارٹی بھی اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے اپنے مرحوم پارٹی راہنمائوں خان عبدالغفار خان، عبدالولی خان اور حیات محمد خان شیرپائو کی برسیوں کے انعقاد کے ذریعے پیش پیش ہیں۔ اے این پی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان اور صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے کسی بڑے سیاسی شو کے بجائے اضلاع کی سطح پر جلسوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جن کے ذریعے سوشل میڈیا پر پارٹی کے حق میں فضا سازگار بنائی جارہی ہے۔ اس مہم کے دوران اے این پی کی توپوں کا زیادہ تر رخ پی ٹی آئی اور کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہے، جب کہ وفاق میں برسراقتدار مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے حوالے سے تاحال سیزفائر نظر آتا ہے جس کی وجہ ان دونوں جماعتوں کے ساتھ مستقبل کے کسی ممکنہ سیاسی سیٹ اپ میں اپنے لیے جگہ بنانا ہے۔
دوسری جانب سابق گورنر خیبر پختون خوا حیات محمد خان شیرپائو کی برسی کے موقع پر ختمِ قرآن پاک اور شہید کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت جیل سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلائی جارہی ہے، انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے خاتمے اور صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ عمران خان کا آرمی چیف کو خط لکھنا غیر جمہوری قدم ہے، امن و امان کی ابتر صورتِ حال کے باعث صوبے کے جنوبی اضلاع میں نقل و حرکت اور آمد و رفت مکمل طور پر بند ہوجاتی ہے، حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل کے بجائے احتجاجوں اور دھرنوں میں لگی ہوئی ہے۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ لینڈ مافیا ہے۔ آفتاب شیرپائو نے کہا کہ سابق گورنر حیات محمد خان شیرپائو دہشت گردی کا شکار پہلے سیاسی شہید تھے، وہ ایک عظیم لیڈر تھے اور ملک و قوم کے لیے عظیم قربانی دی۔ انہوں نے کہا کہ 11 فروری کو حیات محمد خان شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے شیرپائو میں ایک بڑے جلسے کا انعقاد کریں گے۔
اسی دوران جماعت اسلامی نے بھی صوبے میں اپنی صفوں کو ازسرنو منظم کرتے ہوئے صوبائی تنظیم کو تحلیل کرکے علاقائی بنیادوں پر اپنی چار الگ الگ حلقہ جاتی تنظیمیں قائم کرکے نچلی سطح پر تنظیم نو کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ یاد رہے کہ یہ علاقائی تنظیمیں ملاکنڈ کے 9 اضلاع پر مشتمل خیبرپختون خوا شمالی وسطی اضلاع، خیبرپختون خوا وسطی، ہزارہ ڈویژن کے اضلاع، صوبہ خیبرپختون خوا ہزارہ اور صوبے کے 11 جنوبی اضلاع پر مشتمل خیبرپختون خوا جنوبی کے تحت قائم کی گئی ہیں، جن کے لیے متعلقہ اراکین سے استصواب کے بعد امیر جماعت حافظ نعیم الرحمان کی منظوری سے بالترتیب عنایت اللہ خان، عبدالواسع، عبدالرزاق عباسی اور پروفیسر محمد ابراہیم خان کو امراء مقرر کیا گیاہے۔
پیپلز پارٹی جو کبھی صوبے میں خاصی متحرک تھی اور صوبے کی سیاست میں اس کا نمایاں مقام تھا پچھلے کچھ عرصے سے بیک فٹ پر کھیل رہی ہے، البتہ اس کمی کو پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی صدر اور موجودہ گورنر فیصل کریم کنڈی اپنی سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے پورا کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ وہ چونکہ صوبے میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ وفاق کے بھی نمائندے ہیں، اس لیے وہ اس حیثیت کو حتی الوسع اپنی پارٹی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرتے نظر آرہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے درمیان نوک جھونک بھی چلتی رہتی ہے۔
گورنر ہاؤس میں کاشت کار تنظیموں کے ایک نمائندہ جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے گورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم کنڈی نے واضح کیا ہے کہ کاشت کاروں کے مفادات اور حقوق کا تحفظ کریں گے، صوبائی حکومت کی جانب سے کسانوں پر عائد کردہ زرعی انکم ٹیکس بل نمبر 2025 کے حوالے سے صوبے کے کاشت کاروں کا ایک بڑا کنونشن گورنر ہاؤس میں منعقد کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ نمائندہ جرگہ کے ایک وفد نے زرعی ٹیکس کے نفاذ کے خلاف گورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم کنڈی سے ملاقات کی۔ اس وفد میں اتحادِ کاشت کاران پختون خوا کے سینئر وائس چیئرمین داؤد جان خان، لیاقت یوسف زئی، احمد جان کاکا، جنرل سیکرٹری اسفند یار خان، شباب خان، ٹوبیکو ورکرز ایسوسی ایشن کے آزاد خان اور صوبے بھر سے دوسرے نمائندگان نے شرکت کی۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر محمد علی شاہ باچا، ضلعی صدر صوابی علی خان، بلند اقبال ترکئی بھی موجود تھے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ خیبر پختون خوا گزشتہ 20 سالوں سے حالتِ جنگ میں ہے، زراعت نقصان میں جارہی ہے، صوبے میں جنگ کی وجہ سے کیمیائی کھادوں تک پر دہشت گردی کی وجہ سے پابندی ہے۔ گورنر سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بل پر دستخط سے انکار کریں۔ گورنر فیصل کریم کنڈی نے وفد کو اپنے خطاب میں یقین دلایا کہ وہ صوبے کے کاشت کاروں کے مفادات کا دفاع کریں گے اور بہت جلد پختون خوا کاشت کاروں کا بڑا کنونشن پشاور گورنر ہاوس میں منعقد کریں گے، جس میں کاشت کاروں کے مسائل اور ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔