اب امریکہ کا ہدف ایران ہے، لیکن پاکستان اس کی زیادہ مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے
معروف کالم نگار اللہ بخش راٹھور نے بروز پیر10 فروری 2025ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’سندھ ایکسپریس‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر جو خامہ فرسائی کی ہے اُس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے:
’’امریکی کانگریس مین ولسن نے جس وقت ایوان میں پاکستان کے اندرونی معاملات پر بات کرنے کے لیے چیئر سے اجازت طلب کی تو اُس نے بہ خوشی اُسے گفتگو کرنے کا موقع دیا۔ ولسن کو، جس کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں میں سے ہے، اس لیے بات کرنے کا موقع فراہم کیاگیا تاکہ جو باتیں صدر ٹرمپ نہیں کرسکتا، وہ کرے، اور پاکستان کے حکمرانوں خصوصاً اسٹیبلشمنٹ کو یاد دلائے کہ انہیں امریکی حکومت نے فراموش نہیں کیا ہے، وہ جو کچھ چاہتے ہیں اس کا مکمل اظہار بھی کیا جائے گا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس مین ولسن نے جو کچھ بھی کہا وہ دراصل ایک یاددہانی ہے۔ اب مستقبل قریب میں کیا ہوگا؟ اس کا جلد ہی پتا چل جائے گا۔ فی الحال تو امریکی صدر کو محض خالی فائر ہی کرنے ہیں۔ کبھی تو امریکی صدر غزہ کو ایک خالی پلاٹ سمجھ کر اس پر قبضہ کرلینا چاہتا ہے، اور کبھی اُسے کینیڈا اور گرین لینڈ پر قبضہ کرنے کی سوجھتی ہے اور وہ اس حوالے سے خواب دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو امریکی حکومت نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ذہن میں رکھ لیا ہے۔ انہیں انسانی حقوق اور جمہوریت کی یاد صرف اُسی وقت ستاتی ہے جب مستقبل میں اپنے کسی پراجیکٹ کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ اب امریکہ کا ہدف ایران ہے، لیکن پاکستان اس کی زیادہ مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کیوں کہ اس سے پہلے پاکستان پر اس سلسلے میں سعودی عرب کا بھی دبائو ہوا کرتا تھا کہ وہ ایران کے خلاف مدد بہم پہنچائے، لیکن اب سعودی عرب خود کئی معاملات پر ایران کے ساتھ ہے۔
اب پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہی ہے۔ ایک طرف امریکہ ہے تو دوسری طرف چین ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ دونوں ممالک کو پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ سے شکایات ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یو ایس ایڈ پر پابندی کے بعد اب تعلیم سمیت کئی پراجیکٹ متاثر ہوں گے، اور اس پر مستزاد امریکی امداد عارضی طور پر معطل ہونے کے بعد پاکستان بھی متاثر ہوا ہے۔ اگرچہ ماضی کی طرح امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر کوئی بھی امداد یا خرچ ادا نہیں کررہا ہے، اور نہ ہی امریکہ افغانستان میں موجود ہے۔
امریکی انتظامیہ اس وقت بہت ساری مصروفیات میں الجھی ہوئی ہے۔ لہٰذا اُس کی ترجیحات میں بھی فی الوقت پاکستان سرفہرست نہیں ہے۔ اِس وقت جو کچھ بھی ہورہا ہے اس میں پاکستان خود کو بچانے کی کوشش کررہا ہے۔ عمران خان فیکٹر بہ وقتِ ضرورت امریکیوں کے پاس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بہ طور ہتھیار استعمال کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن ٹرمپ اتنا شریف آدمی ہرگز نہیں ہے کہ وہ غیر معمولی باتوں پر بھی خاموش ہی رہے۔ پاکستان کے روس اور چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کے حوالے سے امریکہ کو اعتراضات ہیں اور وہ بالکل نہیں چاہتا کہ سی پیک ٹو پر عمل درآمد ممکن ہوسکے، اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے ملنے والی قرض کی رقم چین کو قرض کی ادائیگیوں کی مد میں خرچ کرڈالے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے یہ پہلے سے ہی واضح کردیا تھا کہ پاکستان کے حکمران چین کو قرض کی اقساط کی ادائیگی کے لیے ان کی دی گئی رقم خرچ نہیں کریں گے۔ پاکستان کے خزانے میں دو ماہ کی امپورٹ جتنے ڈالر بھی نہیں تھے، اس لیے کسی امکانی بحران سے بچنے کے لیے چینی قرضے کی اقساط ملتوی یا Differ کی گئیں۔
موجودہ عالمی منظرنامے میں چین کو بھی پاکستان سے متعدد خدشات لاحق ہیں۔ خاص طور پر چینیوں کی پاکستان میں سلامتی کا معاملہ تو انتہائی گمبھیر بنا ہوا ہے۔ چینیوں کے تحفظ کے لیے جس پروٹوکول پر چین، اور پاکستان کے اربابِ اختیار کے ایلچی محسن نقوی کے مابین اتفاق ہوا تھا، اُس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ چینی حکومت چاہتی تھی کہ پاکستان کی فورسز کے ساتھ ان کے ادارے بھی باہم مل کر چینی شہریوں خصوصاً اہم پراجیکٹس پر کام کرنے والے انجینئرز کی حفاظت کریں۔ چین کی اس سوچ کو پاکستان نے قابلِ قبول نہیں سمجھا۔ پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ امریکیوں کی طرح سے چینی اداروں کو بھی اپنے ملک کی سرزمین پر پیر رکھنے دیے جائیں۔ اس سے قبل چینی انجینئرز پر جو حملے ہوئے ان کی تحقیقات میں تو چینی ماہرین کو شامل کرنے کا انکشاف ہوا تھا، لیکن ان ماہرین کو کتنا عرصہ ملک میں رہنے دیا گیا تھا اس کی کوئی بھی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ اس وقت چین اور پاکستان کے معاملات اتنے زیادہ گمبھیر ہوچکے ہیں کہ اس کے حوالے سے وضاحت صدر زرداری کو خود چین جاکر دینی پڑی ہے۔ یہ خبریں گردش میں ہیں کہ چینی حکومت کی فرمائش پر اسٹیبلشمٹ کے نمائندے کو طلب کیا گیا جس نے تاحال کیے گئے اقدامات کے بارے میں بریفنگ دی۔ چینی حکومت نے اس موقع پر اپنے شہریوں اور سرمایہ کاری سے متعلق انتہائی تشویش کا اظہار بھی کیا، جس کے بعد اُسے نئے سرے سے اطمینان دلایا گیا۔
اگر چینی سرمایہ کاری اور مختلف پراجیکٹس پر کام کرنے والے انجینئرز کو دیکھا جائے تو یہ معاملہ دراصل بے حد حساس نوعیت کا ہے۔ چین جن منصوبوں پر کام کررہا ہے وہ 60 ارب ڈالر کے ہیں۔ یہ منصوبے چاروں صوبوں میں جاری ہیں۔ گوادر پورٹ سب سے بڑا منصوبہ ہے جو چین کے حوالے ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب، سندھ، بلوچستان، کے پی کے میں سی پیک کے تحت منصوبوں پر کام چل رہا ہے۔ چاروں صوبوں میں سے چینیوں پر زیادہ تر حملے سندھ اور بلوچستان میں ہوئے ہیں جہاں غیر ملکیوں کی سیکورٹی سخت کردی گئی ہے۔
یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ سندھ ہو یا بلوچستان یا پھر دیگر صوبے… سیکورٹی کے سارے معاملات اسٹیبلشمنٹ ہی کے پاس ہیں۔ بلوچستان میں سویلین حکومت برائے نام ہے، سندھ میں بھی صورتِ حال کوئی زیادہ بہتر نہیں ہے، اس لیے چین کو اگر سیکورٹی کے
معاملات طے کرنے ہیں تو اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے ہی بات کرنی ہوگی، اور وہ زیادہ تر یہی کچھ کررہا ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ تمام تر وسائل اور اختیارات کی مالک ہونے کے باوصف غیر ملکی شہریوں خصوصاً چینیوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکی ہے تو پھر اس صورتِ حال میں اس پر کیا تبصرہ کیا جاسکتا ہے؟ ماضی میں یہ صورتِ حال امریکہ کی تھی، اور ایسا کوئی بھی جلسہ، جلوس یا مظاہرہ نہیں ہوتا تھا جس میں اُس کے خلاف نعرے نہ لگتے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے خلاف نفرت بھی قابلِ دید ہوا کرتی تھی۔ اب تو ہمارے ملک کے بیشتر افراد امریکہ جانا چاہتے ہیں۔ یہ برین ڈرین کا دور ہے۔ اِس مرتبہ یہ دونوں عالمی طاقتیں ہیں جن کے ساتھ پاکستان کے اسٹرے ٹیجک تعلقات تو ہیں لیکن ایک طرف سیکورٹی کے معاملات اور دوسری طرف سفارتی سطح پر پاکستان مشکلات کا شکار ہے۔ امریکیوں کے پاس اور کوئی بھی دوسرا کارڈ نہیں ہے تاہم وہ عمران خان کی رہائی کا معاملہ اٹھاتے رہیں گے۔ تاحال اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے، لیکن پاکستان کے اربابِ اختیار میں سر کا درد ڈالنے کے لیے اتنا بھی کافی ہے۔ امریکہ کو پاکستان کے چین کے قریب ہونے اور کاروباری تعلقات خاص طور پر سی پیک میں تیزی سے آگے بڑھنے پر اعتراضات ہیں۔ اس لیے امریکی اقتصادی پابندیوں کے اشارے بھی دیتے رہتے ہیں۔ اب امکان یہ ہے کہ چین اور پاکستان میں کھٹے میٹھے تعلقات آگے بڑھتے رہیں گے جب کہ امریکہ بھی پاکستان کو اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دے گا، لیکن وہ اپنا دبائو اس پر برقرار رکھے گا۔‘‘