غزہ: عارضی جنگ بندی کا خاتمہ ؟

تل ابیب میں ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ امید افزا پیش رفت تھی جس کا مقصد قیدیوں کے تبادلہ، انسانی امداد کی فراہمی، اور جنگ زدہ علاقوں میں سکونت پزیر شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ حماس نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے معاہدے پر عمل درآمد میں سنجیدگی دکھائی، لیکن اسرائیل کی جانب سے وعدہ خلافی اور اشتعال انگیز اقدامات نے اس معاہدے کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود اسرائیل کے حملے جاری رہے ہیں۔ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ترجمان ابوعبیدہ کے مطابق ”اسرائیل کی مسلسل خلاف ورزیوں نے صورتِ حال کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ حماس اب معاہدے کی مزید پاسداری نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمتی قیادت نے اسرائیلی خلاف ورزیوں کی نگرانی کی ہے اور حماس نے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کی ہیں، لیکن اسرائیل کے غیر سنجیدہ رویّے کے باعث اسرائیلی قیدیوں کی اگلی کھیپ کی رہائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔“

اسرائیلی وزیر خارجہ، اسرائیل کاٹز نے حماس کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں جنگ بندی معاہدے کی مکمل خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق ”اسرائیل نے معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کیا ہے، جبکہ حماس کی طرف سے اسرائیلی شہری قیدی کو رہا نہ کرنا معاہدے کی خلاف ورزی ہے“۔ لیکن یہ ہم سب جانتے ہیں کہ اسرائیل نے ایک دن بھی فلسطینی عوام کے خلاف ظلم کو نہیں روکا ہے۔

جنگ بندی معاہدے کے تحت فریقین نے تین مراحل پر مشتمل معاہدہ کیا تھا، جس میں ہر مرحلہ چھ ہفتوں پر محیط ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں جانب کی فوجی کارروائیاں روکنے اور غزہ کی تعمیرنو کی راہ ہموار کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ ہم اس وقت پہلے مرحلے کے وسط میں ہیں، جہاں حماس نے اسرائیل کے 33 قیدیوں میں سے 21 کو رہا کیا ہے، جبکہ اسرائیل نے اس کے بدلے 730 سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کردیا ہے۔ ہر اسرائیلی قیدی کی رہائی کے بدلے میں اسرائیل نے درجنوں فلسطینیوں کو رہا کیا، جو اس معاہدے کی ایک اہم شق تھی۔

تاہم اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی متعدد خلاف ورزیاں سامنے آئی ہیں اور اس کا ایک تسلسل ہے۔ غزہ کے محکمہ صحت کی روزانہ کی رپورٹس کے مطابق اسرائیل اب بھی غزہ میں شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنگ بندی صرف ایک کاغذی معاہدہ بن کر رہ گئی ہے۔ امدادی سامان کی فراہمی میں بھی اسرائیل نے واضح رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ معاہدے کے تحت غزہ میں 12,000 ٹرکوں کے ذریعے خوراک اور بنیادی امدادی اشیاء پہنچائی جانی تھیں، لیکن صرف 8,500 ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔

الجیزہ کے رپورٹر ہانی محمود کے مطابق:

”جو امداد فراہم کی جارہی ہے، وہ زیادہ تر ضمنی اشیاء پر مشتمل ہے، نہ کہ بنیادی ضروریاتِ زندگی پر۔ لوگ ایسے نئے اور معیاری خیمے چاہتے ہیں جو موسمی شدت کا سامنا کرسکیں اور کچھ حد تک گرمی فراہم کریں۔ انہیں لباس کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ گزشتہ 15 ماہ سے وہ ایک ہی لباس پہنے ہوئے ہیں۔

ایندھن کا بحران بھی بدستور جاری ہے۔ معاہدے کے مطابق 35 ایندھن بردار ٹرک داخل ہونا تھے، لیکن صرف 15 ٹرک ہی غزہ پہنچ سکے ہیں۔ اس کی وجہ سے کئی عوامی سہولیات، جن میں اسپتال بھی شامل ہیں، غیر فعال ہیں۔

چاہے ہم حالات کو جس انداز میں بھی بیان کریں، زمینی حقیقت بیان سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ صورتِ حال نہایت کٹھن اور دل دہلا دینے والی ہے۔“

اسی طرح رہائشی سہولتوں کے معاملے میں بھی اسرائیل نے وعدے پورے نہیں کیے۔ پہلے مرحلے میں دو لاکھ خیمے فراہم کیے جانے تھے، مگر صرف 10 فیصد خیمے ہی غزہ تک پہنچ سکے ہیں۔ اس کے علاوہ، وعدہ کیے گئے 60,000 موبائل گھروں میں سے ایک بھی مہیا نہیں کیا گیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ طبی امداد کے حوالے سے بھی صورت حال انتہائی سنگین ہے۔ معاہدے کے تحت روزانہ 50 شدید بیمار یا زخمی افراد کو اُن کے اہلِ خانہ کے ساتھ غزہ سے باہر علاج کے لیے جانے کی اجازت ہونی چاہیے تھی، لیکن اب تک صرف 120 مریضوں کو ہی باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

اسرائیل نے شمالی غزہ کے باشندوں کو اپنے گھروں میں واپس جانے کی اجازت دینے میں بھی تاخیر کی ہے، حالانکہ یہ معاہدے کی ایک اہم شق تھی۔ یہ تاخیر نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ معاہدے کی روح کے بھی منافی ہے۔ دوسری جانب حماس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اپنی تمام ذمہ داریاں مکمل طور پر نبھائی ہیں۔ البتہ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ 25 جنوری کو حماس نے ایک اسرائیلی خاتون شہری قیدی کو وعدے کے مطابق رہا نہیں کیا، جس کے جواب میں اسرائیل نے شمالی غزہ کے فلسطینیوں کو گھروں میں واپس جانے کی اجازت دینے میں مزید تاخیر کردی۔ لیکن حالات پر نظر رکھنے والے اسے صرف بہانہ کہہ رہے ہیں۔

اسرائیل کے اس غیر سنجیدہ رویّے نے نہ صرف فلسطینیوں کو نقصان پہنچایا بلکہ اُن ممالک کو بھی ناراض کیا جو معاہدے میں ثالث کا کردار ادا کررہے تھے۔ ثالث ممالک نے اسرائیل کے معاندانہ رویّے پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور فوری طور پر معاہدے پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔

اسرائیل کے اندر بھی نیتن یاہو کی حکومت کی پالیسیوں پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ تل ابیب میں ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے، جنہوں نے اسرائیلی وزارتِ دفاع کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے ٹائروں کو آگ لگا دی۔ مظاہرین نے نعرے لگائے:

”جنگ بند کرو“
”قیدیوں کو فوراً واپس لاؤ“

غزہ کے فلسطینیوں نے ”الجزیرہ“ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر تمام اسرائیلی قیدیوں کو ہفتے تک رہا نہ کیا گیا تو غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ منسوخ کردینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ

”یہ بیانات محض اشتعال انگیزی ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس آدمی کو فلسطینی عوام کے مسائل کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ فلسطینیوں نے یہ جنگ بندی بہت زیادہ تکالیف، طویل مذاکرات اور غزہ میں تباہی و بربادی کے بعد حاصل کی ہے۔

فلسطینی اپنی زمین پر رہنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ ہماری جڑیں یہاں ہیں اور ہم یہاں رہنے کے لیے پختہ عزم رکھتے ہیں۔“

اسی طرح ایک اور فلسطینی اُم محمود رحمہ کا کہنا تھا کہ

”ہم ان بیانات کی وجہ سے مایوس ہیں… ہم مزید کشیدگی نہیں چاہتے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان ہونے کے ناتے بھی اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنا ناممکن ہے۔ ہم سب کچھ کھو چکے ہیں۔ آج کی دنیا میں کوئی ہمدردی باقی نہیں رہی۔“

ابو فادی فلسطینی نے کہا:

”ٹرمپ، اس کے والد، والدہ، یہاں تک کہ اس کے دادا بھی ہمیں ہماری زمین سے نہیں نکال سکتے۔ اگر وہ ہمیں یہاں ایٹم بم سے بھی مار دیں تو یہ ہمارے لیے اس سے بہتر ہے کہ ہم کسی اور زمین پر جاکر مریں۔“

پریشان نہ ہو ٹرمپ… یہ ہم ہیں اور یہ ہمارا عزم ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ٹرمپ کیا چاہتا ہے۔ ہم نے کئی قیدی واپس کیے ہیں اور ہمیں بھی اپنے قیدیوں کی واپسی چاہیے۔ اسرائیلی ہمارے 5,000 فلسطینی قیدی واپس کریں اور اپنے تمام قیدی لے جائیں، بس یہی کافی ہے۔“

فلسطینی اس تمام صورتِ حال میں آج بھی پُرعزم ہیں اور وہ سب کچھ کھونے کے بعد بھی امید اور اصولوں کے ساتھ جی رہے ہیں۔

جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اسرائیل کو جو کرنا تھا وہ محض کاغذی سطح تک محدود ہے، جس کا اندازہ پہلے سے تھا، کیونکہ زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں جس کے اثرات براہِ راست غزہ کے مظلوم عوام پر پڑ رہے ہیں، جو ایک پائیدار امن کے منتظر ہیں لیکن سیاسی اور عسکری مفادات کی جنگ میں پس رہے ہیں۔

فلسطینی عوام کی جدوجہد، مزاحمت اور ان کے عزم کی مثال ملنا مشکل ہے، ان کی ظلم اور جبر کے باوجود آزادی کی خواہش کبھی کم نہیں ہوئی۔ مایوسی کسی ایک شخص اور بچے میں بھی نہیں۔ لیکن یہ سمجھنا ہوگا کہ اسرائیل کی دہشت گردی جو عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں جاری ہے، نہ صرف فلسطینیوں کی زندگیوں کو تباہ کررہی ہے بلکہ پورے خطے میں عدم استحکام کی فضا پیدا کررہی ہے۔ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی اور اسرائیل کی طرف سے مسلسل اشتعال انگیز اقدامات نے امن کے قیام کی امیدوں کو مٹی میں ملا دیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر یہ صورت حال برقرار رہی اور معاہدوں پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ یہ جنگ صرف فلسطین تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کا دائرہ دیگر ممالک تک بھی پھیل جائے گا، جس کا عالمی امن و استحکام پر یقیناً اثر پڑے گا۔ جس کے بعد شاید واقعی امن کے لیے کچھ کوشش ہوسکے۔ اس لیے عالمی برادری کو فلسطینیوں کی حمایت میں عملی طور پر آگے آنا ہوگا تاکہ ایک پائیدار اور منصفانہ امن قائم ہوسکے، اور اسرائیل کی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو۔