کراچی پورٹ ٹرسٹ کی زمین پر قبضہ

آخر میں یہ اہم انکشاف کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کی تقریباً 1,448 ایکڑ اراضی جو اُس کی کُل ملکیت کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہے، پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔ یہ حیران کن اور عوامی اثاثوں کے تحفظ کے لیے ریاست کی نااہلی، یا عدم دلچسپی کی ایک لعنتی فردِ جرم ہے۔ ایک ایسے شہر میں جہاں رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور زمین سب سے قیمتی اشیاء میں سے ایک بنی ہوئی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر تجاوزات کو کئی دہائیوں سے بڑھنے دیا گیا ہے۔ اس سے حکمرانوں کے بدعنوانی اور احتساب کے بارے میں سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر قبضے میں کی گئی اراضی میں نہ صرف غیر مجاز بستیاں، ہاؤسنگ کالونیاں بلکہ تجارتی ادارے بھی شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ حکومت نے بھی ایک اطلاع کے مطابق 350 ایکڑ زمین پر بغیر کسی اجازت کے قبضہ کر رکھا ہے۔ اسی طرح پورٹ قاسم اتھارٹی (PQA) کی صورتِ حال بھی تشویش ناک ہے، جہاں تقریباً 30 ایکڑ اراضی پر قبضہ کیا گیا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور اس کی بندرگاہیں تجارت، اور تجارت کے لیے اہم شریانیں ہیں، ایسی تزویراتی زمین پر غیر رسمی بستیوں اور غیر قانونی کاروباروں کی بے لگام توسیع معاشی تخریب سے کم نہیں۔ ان تجاوزات کی موجودگی اہم انفرااسٹرکچر کی ترقی کو روکتی ہے، اور پاکستان کے پہلے سے ہی مشکلات کا شکار لاجسٹکس اور تجارتی شعبوں کو کمزور کرتی ہے۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قانونی ڈھانچہ موجودہے، لیکن عمل درآمد نہیں ہورہا۔ 2002ء کا پورٹ سیکورٹی فورس آرڈیننس واضح طور پر سیکورٹی اور زمین سے متعلق معاملات کی نگرانی کے لیے مجسٹریٹس کی موجودگی کو لازمی قرار دیتا ہے، پھر بھی یہ مجسٹریٹس کارروائی میں لاپتا ہیں۔ یہاں تک کہ 2011ء میں کے پی ٹی نے ایک آئینی پٹیشن بھی دائر کی تھی تاکہ قبضہ شدہ اراضی کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا سکے، لیکن قانون نافذ کرنے والے عملے کی عدم موجودگی یا تو ادارہ جاتی مفلوجی، یا سراسر ملوث ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ زمین کے انتظام کے ذمہ دار اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر اتنی وسیع تجاوزات نہیں ہوسکتی تھیں۔بلاشبہ یہ مسئلہ کراچی کی بندرگاہوں سے کہیں آگے تک پھیلا ہوا ہے، اسی سبب غیر قانونی بستیاں پھیل رہی ہیں۔ اسلام آبادمیں بھی ایسی ہی کہانی چل رہی ہے جہاں غیر قانونی بستیوں کی وجہ سے قیمتی سرکاری اراضی آہستہ آہستہ لیکن مسلسل ختم ہو رہی ہے جبکہ حکام آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان کی عوامی زمین کس کی ہے؟ اگر ریاست اپنے اثاثوں کو تجاوزات سے محفوظ نہیں رکھ سکتی تو اس کی حکومت کرنے کی اہلیت کو کیا کہا جائے؟ اس مسئلے کی سنگینی کے سبب ارباب ِاختیار کو بیدار ہونا چاہیے۔ زمینوں پر قبضہ صرف ایک انتظامی پریشانی نہیں ہے۔ یہ معاشی اور سماجی بدعنوانی کی ایک شکل ہے جو قومی وسائل کا خون بہاتی ہے۔ اس کے خلاف ایک فیصلہ کن اور مستقل کریک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔