تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا سمجھا گیا تھا، لیکن وہ جلد ہی خزاں کے پتوں کی طرح زرد ہوکر بکھر گئے، اور تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر اپنے مطالبات تسلیم کیے جانے تک چوتھے دور میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔ یہ بات واضح ہے کہ جب تک سیاسی جماعتیں ایک ساتھ بیٹھ کر معاملات حل نہیں کرتیں، ملک میں سیاسی استحکام قائم ہونا صرف دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔ مذاکرات کی میز پر آنے کے بجائے تحریک انصاف کے بانی عمران خان ان دنوں آرمی چیف کو خطوط لکھنے میں مصروف ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا خط لکھا، اور اب تیسرا خط لکھنے کی تیاری میں ہیں۔ دوسری جانب مکمل خاموشی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ہمیں خط نہ لکھا جائے بلکہ مذاکرات سیاسی جماعتوں سے کیے جائیں۔ یوں ملکی سیاست ایک دائرے کے گرد مسلسل چکر کاٹ رہی ہے اور حاصل حصول کچھ نہیں۔
تحریک انصاف کا آغاز سے ہی مؤقف رہا ہے کہ موجودہ حالات میں مذاکرات بے سود ہیں۔ اُن کے نزدیک حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں بلکہ محض اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے تاکہ اپنے ووٹرز کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ وہ کسی اصولی مؤقف پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ مذاکرات سے تحریک انصاف کا مسلسل گریز اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سیاسی تقسیم وقت گزرنے کے ساتھ مزید گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔ دوسری جانب حکومتی اتحاد کا مؤقف ہے کہ اپوزیشن جمہوری عمل کو مسترد کررہی ہے، جبکہ کسی بھی سیاسی نظام میں مذاکرات ہی واحد راستہ ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی تنازعات ضد سے حل نہیں ہوتے، اور اگر مذاکرات کے دروازے بند کیے گئے تو حالات صرف احتجاجی سیاست، ادارہ جاتی مفلوجیت اور تشدد کی طرف بڑھیں گے۔
لہٰذا اس صورتِ حال میں ملک اب ایک خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔ اپوزیشن بات چیت نہیں کرنا چاہتی، حکومت اصرار کرتی ہے کہ اس نے اپنا حصہ ڈال دیا ہے، اور عوام بیچ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ سیاسی جمود ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ حالات اُس ملک کے لیے سودمند نہیں ہیں جو متعدد چیلنجز کا سامنا کررہا ہے، جن میں معاشی عدم استحکام بھی شامل ہے، اور اس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی اور پالیسی سازی میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ذاتیات کو ایک طرف رکھ کر قومی مسائل کے حل اور یکجہتی کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔ ملکی مسائل کے پیش نظر اب وقت آچکا ہے کہ سیاست دان اپنی ترجیحات درست کریں اور عوامی مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ پاکستان مزید کسی سیاسی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا، رہی سہی کسر عدلیہ کے جج صاحبان کے خطوں نے پوری کردی ہے۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ اس پرکچھ بھی نہ لکھا جائے۔ بس تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو۔