معاشی ترقی کے دعوے عوام کو ریلف کب ملے گا؟

ملکی معیشت کی کشتی بیچ منجدھار کھڑی ہے اور حکومتی وزراء ’’سب اچھا‘‘ کا بھاشن دے رہے ہیں۔ ایک نکتہ نظر عالمی ریٹنگ ایجنسی نے بھی دیا ہے۔ دونوں کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو صورتِ حال کی وضاحت میں آسانی رہے گی۔ فچ دنیا کی اہم ترین کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی تسلیم کی جاتی ہے جو کسی حکومت، کاروبار یا مالی ادارے کے مالیاتی استحکام اور اسے ادھار دیے جانے کے بارے میں اس کی درجہ بندی کرتی ہے۔ اس نے پاکستان کا معاشی نقشہ بھی کھینچا ہے۔ اس کی رائے کی اپنی اہمیت ہے، کوئی بھی حکومت اس کی رائے کو نظرانداز نہیں کرسکتی، پاکستان تو بالکل بھی نہیں۔ حکومت کے دعوے اور فچ رپورٹ اپنی جگہ… ملک ابھی تک معاشی بحران کی زد میں ہے اور بری طرح گرداب میں پھنسا ہوا ہے، ملکی اور غیر ملکی قرضہ بہت بڑا بوجھ ہے۔ پاکستان کو مالی سال 2025ء میں بیرونی قرضوں کی مد میں 22 ارب ڈالر سے زیادہ ادا کرنا ہوں گے، جن میں تقریباً 13 ارب ڈالر دو طرفہ ڈپازٹس کی شکل میں ہیں۔ صورتِ حال اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ بہت زیادہ رقوم کی جلد طے شدہ ادائیگی اور قرض دہندگان سے لی گئی موجودہ رقوم کے تناظر میں بیرونی فنانسنگ کا حصول ایک چیلنج رہے گا۔ پاکستان نے گزشتہ ماہ ہی مشرق وسطیٰ کے بینکوں سے ایک بلین ڈالر کا قرضہ چھے سے سات فیصد شرح سود پر حاصل کیا ہے۔ پاکستان آئندہ مالی سال کے لیے مشرق وسطیٰ کے بینکوں سے 4 ارب ڈالر قرض کا حصول یقینی بنانے کا ہدف رکھتا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور دیگر قرض دہندگان سے اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اصلاحات پر عمل درآمد جاری رکھے، جس میں مالی استحکام اور ملک میں کاروباری ماحول کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔ اس وقت ملک آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر قرض کے حصول کے لیے داخلی اصلاحاتی عمل سے گزر رہا ہے جس کا پہلا جائزہ رواں ماہ کے آخر میں ہونا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے جیسے گہرے معاشی مسائل سے نمٹنا ہے، تاہم پاکستان نے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے پیش رفت کی ہے جو آئی ایم ایف کی جانب سے مقرر کردہ اہداف سے بھی زیادہ ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ معاشی استحکام اور شرح سود میں کمی کے سبب پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے، حکومت کی نظر بیرونی فنانسگ پر ہے، عالمی بینک پاکستان کو دس سالہ منصوبے کے تحت 20 بلین ڈالر کی فنڈنگ فراہم کرے گا۔ پاکستان نے اس پیش رفت کا خیرمقدم کیا ہے۔ ملک کو آئندہ ایک دہائی کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کی ترقی کو فروغ دینے جیسے ترقیاتی امور کے لیے 20 بلین ڈالر کے قرضوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ عالمی بینک کے ساتھ’کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک‘ کے نام سے ایک منصوبہ بنایا گیا تھا، اس کی کوئی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش نہیں کی گئیں، اس کے مطابق عالمی ادارے کی طرف سے ماحول دوست توانائی کے حصول، اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے جیسے منصوبوں کے لیے 20 بلین ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ دس برسوں پر محیط یہ سلسلہ 2026ء سے شروع ہوگا۔ عالمی بینک کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے کے تناظر میں پالیسی اور ادارہ جاتی اصلاحات اہم ہوں گی تاکہ نجی شعبے کی ترقی کو فروغ مل سکے اور حکومت کی جانب سے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے مالی گنجائش بھی بڑھائی جا سکے۔ تاہم گھمبھیر معاشی و مالی مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنا پڑیں گے ورنہ ملک مزید معاشی تباہی کی طرف گامزن ہوگا۔

اصل مسائل تو بڑھتے ہوئے قرضے ہیں۔ گزشتہ تیس سال سے ایک حکمت عملی چلی آرہی ہے کہ عوام کو دی جانے والی کئی سبسڈیز کو ختم کردیا جائے، جس کی وجہ سے مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ ملکی قرضے جو 1970ء کی دہائی میں 10 ارب ڈالر بھی نہیں تھے، وہ اب 130 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی، دفاع کا بجٹ، خسارے میں چلنے والے قومی ادارے اور انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو پیسوں کی ادائیگی قومی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ ہے۔ اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑا امتحان مالی نظم و ضبط پیدا کرنا ہے۔ ہمارے اخراجات تقریباً 15 ٹریلین ہیں اورحکومت کی آمدنی صرف دس ٹریلین پاکستانی روپے ہے۔ حکومت کو تقریباً پانچ ٹریلین پاکستانی روپے کا خلاء پورا کرنا ہے، جس کے لیے مالی نظم وضبط لازمی اورضروری ہے۔

کچھ عرصے سے پاکستان میں قرضوں کا حجم ہر سال بڑھتا ہی جارہا ہے۔ تیس سال قبل ملک میں عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایت پر لبرل معاشی پالیسی شروع کی گئی تھی جس کا مطلب تھا سرکاری اداروں کو بیچ کر قرض ادا کیا جائے اور نج کاری سے حاصل رقم عوامی فلاح پر لگائی جائے۔ لیکن بہت سی نج کاری ہوجانے کے باوجود ملک میں آج 80 فیصد کے قریب لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، 44 فیصد بچوں کے لیے مناسب خوراک دستیاب نہیں ہے، اور دس کروڑ سے زیادہ افراد سطح غربت پر زندگی بسر کررہے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی بھی پوری طرح نہیں ہورہی اور عوامی فلاح کے منصوبوں کے لیے کچھ نہیں بچ رہا۔ اس وقت عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدے کے نتیجے میں اب حکومت اسٹیٹ بینک سے براہِ راست قرضہ نہیں لے سکتی، جبکہ پرائیویٹ بینکوں اور عالمی اداروں سے قرضہ لینے کی صورت میں قرضوں کے حجم میں مزید اضافہ ہوگا، جس کے بعد حکومت کے پاس عوامی فلاح کے لیے پیسے نہیں ہوں گے۔ مالیاتی نظم و ضبط میں کمی پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم دوسرے ملکوں سے قرضے رول اوور کرانے پر مجبور رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں چین سے 3.4ارب ڈالر قرض ری شیڈول کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے تین سالہ پروگرام کے لیے فنانسنگ ذرائع کی نشاندہی کرنے کے بعد ایک بار پھر چین سے 3.4 بلین ڈالر کے قرض کو 2سال کے لیے ری شیڈول کی درخواست کی گئی ہے۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے یہ باضابطہ درخواست رواں ہفتے بیجنگ کے دورے کے دوران کی ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایگزم بینک کو خط لکھا تھا اور ری شیڈولنگ کی درخواست کی تھی۔ مالیاتی مشکلات کے باوجود حکومت کاروباری شعبے میں انڈر انوائسنگ کو نہیں روک سکی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ اگر صنعت کار 24 ارب ڈالر کی درآمدات کرتا ہے، تو ظاہر محض 14 ارب ڈالر کرتا ہے۔ 10 ارب ڈالر پر حکومت کو ڈیوٹی نہیں ملتی، جس سے خزانے کو بہت نقصان ہوتا ہے۔ ساری حکومتیں ایکسپورٹ پر انحصار بڑھارہی ہیں، اس میں کمی حکومتوں کے لیے چیلنج ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرائط جیسے کہ توانائی کی قیمتیں بڑھانے پر عمل نہیں کرے گی، تو آئی ایم ایف سے اگلی قسط کا ملنا مشکل ہوگا۔ عالمی بینک نے پاکستان کے معاشی نظام پر حال ہی میں رائے دی ہے کہ موجودہ اقتصادی ماڈل کام نہیں کررہا ہے، یہ اپنے ہم عصروں سے پیچھے رہ گیا ہے، غربت میں کمی نہیں ہورہی اور ترقی کے فائدے اشرافیہ کے ایک چھوٹے سے طبقے تک محدود ہوگئے ہیں، حل یہ ہے کہ ترقی کو روکنے والی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے کارروائی کی جائے… ایسی پالیسیاں جن سے ترقی متاثر ہوئی ہے اور صرف چند افراد کو فائدہ ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اربابِ حل وعقد موجودہ بحران سے پیدا ہونے والے مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کام کریں گے جس کی ضرورت ہے؟

حکومت کی سطح پر موجودہ مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے اخراجات و آمدن کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔ عوام کو کچھ ملے نہ ملے، تاہم حکومت پہلے 6 ماہ میں آئی ایم ایف کی بڑی شرائط پوری کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ 2900 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں پرائمری سرپلس 3600 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ چاروں صوبوں نے 750 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 776 ارب روپے کا سرپلس بجٹ دیا ہے۔ صوبوں نے 376 ارب روپے ریونیو کے ہدف کے مقابلے میں 442 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا ہے۔ 6 ماہ میں ایف بی آر کو ٹیکس ریونیو میں 384 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہوا، 6009 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 5624 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا ہے، تاہم تاجر دوست اسکیم کے تحت 23.4 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف پورا نہیں ہوا۔ وفاقی حکومت کی خالص آمدن 5887 ارب روپے رہی، جبکہ وفاقی حکومت کے اخراجات 8200 ارب روپے سے تجاوز کر گئے ہیں۔ پہلے 6 ماہ میں 2313 ارب روپے بجٹ خسارہ ہوا، قرضوں پر سود کی مد میں 5141 ارب روپے خرچ کیے گئے، وفاقی ترقیاتی منصوبوں پر صرف 164 ارب روپے خرچ کیے گئے، تنخواہ دار طبقے نے 300ارب روپے ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرایا ہے، اور معیشت کو دیمک کی طرح کھانے والی اسمگلنگ کی مکمل روک تھام نہیں ہوسکی ہے، جب کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح مسلسل بڑھ کر ایک مسئلہ بن چکی ہے۔ بے روزگاری کی بڑی وجہ کاروبار نہ ہونا ہے۔ کاروباری طبقہ اور صنعت کار بھی اس صورتِ حال سے پریشان ہیں۔ بڑی صنعتوں کی پیداوار کم ہے، درجنوں ٹیکسٹائل ملز بند ہیں، 45 لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں۔ بے روزگاری ختم کرنے کے لیے پاکستان کو سالانہ 15 لاکھ نوکریوں کی ضرورت ہے۔ ادائیگیوں کے توازن کی کمزور پوزیشن ہمارے معاشی بحران کا مرکز ہے، اور حکومت اسی میں خوش ہے کہ پہلے چھے ماہ میں عالمی مالیاتی فنڈ کی بڑی شرائط پوری کرلی ہیں، لیکن توانائی کا شعبہ بے لگام ہے جس کی پیچیدگیاں ختم نہیں ہورہی ہیں۔ تازہ ترین مسئلہ کیپٹیو پاور پلانٹس کے لیے گیس کی سپلائی کی قیمتوں میں اضافے کے گرد گھومتا ہے، جہاں پاور اور پیٹرولیم ڈویژن کے مفادات متضاد ہیں۔ چار سال قبل حکومت نے کیپٹیو پاور صارفین کو گیس کی وزنی اوسط قیمت کے نفاذ کے ذریعے قیمتوں کو ایڈجسٹ کرکے گرڈ میں منتقل کرنے کی کوشش کی تھی، حکومت نے آڈٹ کی تجویز پیش کی کہ کون سی صنعتیں کمبائنڈ سائیکل پلانٹس استعمال کررہی ہیں اور گیس کو برآمدی مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہیں، لیکن صنعت نے آڈٹ کی مخالفت کی۔ اب پھر یہ معاملہ زور پکڑ گیا ہے۔