جب بخاری ملازمت سے سبک دوش ہوئے تو یوں لگا کہ جیسے انہیں زندگی سے سبک دوش کردیا گیا۔ شاعری، موسیقی، ڈرامے اور ریڈیو پاکستان کے اس ماحول سے انہیں نکالنا ایسا ہی تھا جیسے مچھلی کو پانی سے نکالنا۔ پھر تو یہ ہوا کہ نہ ریڈیو پاکستان میں کچھ رہا اور نہ بخاری صاحب میں کچھ رہا۔ وہ مارے مارے پھرتے اور جو دوست اور عقیدت مند اُن کے بہت قریب تھے، وہی اُن سے ملتے جلتے۔ ریڈیو پاکستان بھی اُن سے ایک پروگرام لکھواتا۔ وہ دل کے مریض تو تھے ہی، انہیں فالج بھی ہوگیا تھا۔ ایک دن ایسے گرے کہ پھر نہ اٹھ سکے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔
روزنامہ ’’حریت‘‘ کے اجرا سے مہینوں پہلے فخر ماتری مرحوم اور اُن کے رفقائے قلم ’’حریت‘‘ کے لیے طرح طرح کے منصوبے بنایا کرتے تھے۔ یہ منصوبے بازیاں صبح نو بجے سے شروع ہوتیں اور آدھی رات تک جاری رہتیں۔ میں، جعفر مرحوم اور ظریف ایک دن ماتری صاحب کے کمرے میں بیٹھے خوش گپیاں کررہے تھے کہ بخاری صاحب کا ذکر آگیا۔ ماتری صاحب نے کہا:
’’میرے دل میں بخاری صاحب کا بڑا احترام ہے۔ میری طالب علمی کے زمانے میں بخاری کا بڑا شہرہ تھا۔ میںنے بخاری کو مشاعرے لوٹتے دیکھا ہے۔ بمبئی کی ادبی محفلوں میں وہ چھایا رہتا تھا۔ ضلع جگت اور حاضر جوابی میں اس کا جواب نہ تھا، اور اب جب وہ ریٹائر ہوگیا ہے تو ہمارا یہ فرض ہے کہ اسے تنہائی نہ محسوس کرنے دیں اور اسے اس کے کاموں کے ساتھ آگے بڑھائیں۔ اس نے دنیا دیکھی ہے، بڑے علمی و ادبی معرکے سر کیے ہیں، دنیا کی بڑی بڑی شخصیتوں سے اس کی ملاقات رہی ہے، اس میں اچھائیاں ہیں تو ایسی کہ جن کا جواب نہیں، اور اس میں جو انسانی کمزوریاں ہیں، وہ بھی بے مثال ہیں۔ اگر بخاری قلم کے ذریعے پورے خلوص کے ساتھ اپنی زندگی کا تجزیہ پیش کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ’’حریت‘‘ کی بڑی کامیابی ہوگی‘‘۔
ماتری صاحب نے مجھ سے کہا:
’’چونکہ ہم لوگوں سے زیادہ تم بخاری کے قریب رہے ہو، اس لیے تم ان سے یہ درخواست کروکہ وہ روزنامہ ’’حریت‘‘ کے لیے قسط وار اپنی سرگزشت لکھنا شروع کردیں‘‘۔
ماتری صاحب نے ایک دستخط شدہ چیک دیا اور کہا:
’’یہ بخاری کو دے دینا۔ اس پر وہ جتنی رقم جس حساب سے چاہیں مہینے بھر یا سال بھر کی، بطور معاوضہ لکھ کر وصول کرلیں‘‘۔
چنانچہ میں ماتری صاحب کا یہ دستخط شدہ چیک لے کر بخاری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں۔ روزنامہ ’’حریت‘‘ کے اجرا کا ذکر آیا اور پھر میں نے ماتری صاحب کی خواہش اور فرمائش کا اظہار کیا اور ماتری صاحب کا دستخط شدہ چیک ان کی خدمت میں پیش کیا۔ بخاری صاحب نے کہا:
’’رقم کی ذمہ داری ماتری نے مجھ پر کیوں ڈالی ہے؟‘‘
میں نے عرض کیا کہ ’’ماتری صاحب آپ کا بہت احترام کرتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ آپ سے کسی قسم کی سودے بازی کریں، لہٰذا آپ جو رقم مناسب سمجھتے ہیں اس سادے چیک پر لکھ لیں، وہ ماتری صاحب کو قبول ہوگی‘‘۔
بخاری صاحب نے چیک لینے اور چیک پر رقم لکھنے سے انکار کیا۔ میں نے عرض کیا کہ ’’خیر رقم اور معاوضے کی بات تو اب آپ ماتری صاحب سے مل کر طے کرلیں، البتہ سرگزشت لکھنا شروع کردیں اور یہ بتادیں کہ اس سرگزشت کی پہلی قسط آپ کب بھجوائیں گے؟‘‘
بخاری صاحب سے ماتری مرحوم کا سادہ دستخط شدہ چیک لے کر واپس آیا اور سارا قصہ ماتری صاحب کو سنادیا تو وہ مسکرا دیے اور انہوں نے چیک رکھ لیا، اور پھر کئی ہفتے گزر گئے۔
’’حریت‘‘ کے اجرا سے کچھ دن پہلے بخاری مرحوم اور ماتری صاحب کی ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی، ماتری صاحب نے مجھے بتایا کہ بخاری صاحب شیزان ہوٹل میں میرے ساتھ چائے پینا چاہتے ہیں۔ میں ماتری صاحب کے ساتھ شیزان ہوٹل تک گیا۔ ہوٹل میں ماتری اور بخاری صاحبان میں کیا بات چیت ہوئی اس کا مجھے علم نہیں، البتہ ملاقات کے دوسرے دن ماتری صاحب سے معلوم ہوا کہ بخاری صاحب اپنی سرگزشت لکھنے پر آمادہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے مجھے اپنے گھر بلایا ہے۔ دوسرے دن میں بخاری صاحب کے گھر پہنچا، مگر میں سرگزشت کے بارے میں ان سے کیا بات کرتا اور انہیں کیا مشورہ دیتا! میں ان کا نیاز مند تھا اور وہ ہم ریڈیو والوںکے لیے باپ کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ کبھی ہماری باتیں سن لیتے اور کبھی ڈانٹ دیتے۔ میں نے دبے دبے الفاظ میں انہیں یہ مشورہ دیا کہ افسانہ طرازی سے احتراز کریں اور اپنی خداداد جادو بیانی سے حقیقت پر پردے نہ ڈالیں۔ جیسے اور جس طرح ان کی زندگی گزری ہے، من و عن اسی طرح لکھتے چلے جائیں۔ خلوص اور سچائی کا اثر لفاظی سے زیادہ ہوتا ہے۔
چنانچہ ’’حریت‘‘ کے پہلے شمارے میں بخاری مرحوم کی سرگزشت کی پہلی قسط شائع ہوئی۔
( ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘( خاکے)۔ نصراللہ خان)
فلسطین عرب سے
یہودی انگریزوں کی سرپرستی میں فلسطین آنے لگے تو عربوں کے لیے ایک خوفناک مصیبت پیدا ہوگئی۔ کئی مرتبہ کشاکش کی نوبت آئی۔ عربوں نے جمعیتِ اقوام اور حکومتِ برطانیہ دونوں سے درخواستیں کیں کہ اس مصیبت کو ختم کیا جائے، لیکن کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ اقبال نے انہیں یہ پیغام دیا کہ خودی کی پرورش کرو اور اس سے کام لو، اسی میں تمہاری نجات ہے۔
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے!
تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہِ یہود میں ہے!
سنا ہے میں نے، غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے!