جو لوگ بابائے اردو کو قریب سے نہیں جانتے انہیں میری باتوں میں شاید مبالغہ معلوم ہو، لیکن واقعہ یہ ہے کہ میرا قلم رک رک کر چل رہا ہے اور میں اردو سے اُن کی غیر معمولی محبت کی تصویر لفظوں میں نہیں اتار سکتا۔ یہ موقع یہ جتانے کا نہیں کہ وہ مجھے عزیز رکھتے تھے۔ اُن کی بہت سی باتیں میرے حافظے میں محفوظ ہیں، بہت سی باتیں انہوں نے خود مجھے بتائی تھیں، اور بہت سے واقعات میری آنکھوں کے سامنے پیش آئے تھے۔
ایک واقعہ سنیے۔ قصہ دلچسپ ہے، بظاہر مذاق معلوم ہوتا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ بابائے اردو کا ذہن یہی تھا۔ شاید یہ 1942ء کا واقعہ ہے۔ ڈاکٹر انصاری مرحوم کی کوٹھی واقع نمبر1، دریا گنج میں انجمن کا دفتر تھا اور ملک کے ہر حصے سے علما و فضلا آیا کرتے تھے اور بہت سی باتیں ہوتی تھیں۔ مولانا ظفرالملک سے بابائے اردو کے بڑے مخلصانہ تعلقات تھے، وہ ملنے آئے تھے، ساڑھے تین بجے کا وقت ہوگا، ہم لوگ چائے پی رہے تھے۔ چائے کی میز پر مولانا محمود شیرانی اور پنڈت کیفی بھی تھے اور شاید ہاشمی فرید آبادی بھی۔ مختلف مسئلوں پر باتیں ہورہی تھیں۔ نہ جانے مولانا ظفرالمک کو کیا سوجھی اور انہوں نے بڑی سنجیدگی سے کہا: ’’مولوی صاحب اب آپ کو حج کرلینا چاہیے‘‘۔ بابائے اردو ہنس پڑے اور بولے: ’’ہاں! ایک شرط پر!‘‘ یہ عجیب سی بات تھی، حج اور شرط! مولانا ظفرالملک نے پوچھا: ’’شرط کیا ہے؟‘‘ بابائے اردو نے بڑی سنجیدگی سے کہا: ’’اگر تم سلطان ابن سعود سے انجمن کو دس لاکھ روپے دلائو تو میں اتنا لمبا سفر کرنے کو تیار ہوں‘‘۔ اس جواب پر سب لوگ ہنس پڑے۔
بات مذاق کی معلوم ہوتی ہے، لیکن جو لوگ بابائے اردو کو جانتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اُن کے دل کی آواز تھی۔ جمعیت العلماء ہند کے سیکریٹری مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد نے کہا تھا: مولانا عبدالحق نے اردو کو اپنا مذہب بنالیا ہے۔ یہ بات انہوں نے کسی اور سلسلے میں کہی تھی، لیکن یہ غلط نہیں۔ بابائے اردو نے اردو کے لیے سب کچھ کیا، ان سے جو بھی ممکن تھا۔
وہ جن لوگوں میں اردو کی خدمت کا جذبہ پاتے تھے، ان کے لیے آنکھیں بچھا دیتے تھے، خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا آدمی ہوتا۔ لیکن اگر کوئی اردو کے معاملے میں اُن کے نقطہ نظر کی مخالفت کرتا، (خواہ اردو زبان کا مخالف نہ بھی ہو) تو وہ اس سے ٹکر لینے کو تیار رہتے تھے۔ راشٹریہ بھاشا پریشد کے اجلاس ناگپور کے بعد مہاتما گاندھی سے اُن کا اختلاف مشہور ہے، حالانکہ وہ گاندھی جی کے بڑے مداح تھے۔ انہوں نے اپنے خرچ سے مہاتما گاندھی کے سوانح حیات لکھوائے تھے، لیکن جب اردو کے معاملے میں اختلاف ہوا تو وہ مہاتما گاندھی سے دور ہوتے چلے گئے۔
بابائے اردو نے ملک کی سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیا، لیکن وہ اپنے خیالات کے لحاظ سے کٹر ملکی تھے، مشترکہ زبان اور تہذیب کے علَم بردار تھے۔ مولانا آزاد رحمتہ اللہ علیہ کے بڑے مداح تھے، مگر ان سے بے حد خفا رہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مولانا کو سیاست سے الگ رہ کر علم و ادب کی خدمت کے لیے زندگی کو وقف کردینا چاہیے تھا۔ راجا نریندر ناتھ سیاسی عقیدے کے لحاظ سے ہندو سبھائی تھے، لیکن وہ اردو کے حامی تھے، اس لیے بابائے اردو کے ممدوح تھے۔ یعنی بابائے اردو کی محبت اور نفرت کی بنیاد بھی اردو تھی، جو اردو کا حامی، بابائے اردو اُس کے حامی اور مداح۔ جو اردو کا مخالف، اُس کے وہ مخالف۔ جو اردو کی طرف سے بے پروا، اُس سے وہ بے پروا۔ اور اس معاملے میں وہ بڑی سے بڑی شخصیت کی بھی پروا نہیں کرتے تھے۔
(”اردو کے نادر وکمیاب شخصی خاکے“، پانچویں جلد،مرتبہ: راشد اشرف)
غریبی میں ہوں محسودِ امیری
کہ غیرت مند ہے میری فقیری!
حذر اُس فقر و درویشی سے، جس نے
مسلماں کو سکھا دی سربزیری