پی ڈی ایم اے کے فنڈز پر محکمہ کے حکام اور اس کا سرپرستِ اعلیٰ ہاتھ صاف کررہے ہیں
بلوچستان میں پہلے سے خراب حالات اب مزید ابتر ہوگئے ہیں۔ گورننس سابقہ حکومتوں میں بھی خرابی کا کھلا اظہار تھی، سرفراز بگٹی کی قیادت میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی حکومت میں بھی بری ہے، بلکہ پچھلی حکومتوں سے کئی قدم آگے ہے۔ جام کمال خان کی حکومت قدرے بہتر تھی، وہ کئی حوالوں سے مثبت پیش رفت کررہی تھی۔ مقتدرہ نے اسے عدم اعتماد کے ذریعے ہٹواکر عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بنادیا۔ پھر لوٹ مار کا بازار گرم ہوا۔ اس لوٹ مار میں نیچے سے اوپر تک حصہ جاتا تھا۔ عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ ہاؤس میں صبح و شام کوکین کے نشے میں مدہوش رہتے۔
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کہتے ہیں کہ امن سبوتاژ کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ دیکھا جائے تو وہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ ناکام اگر ہے تو نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت، چاہے وفاق میں ہو یا بلوچستان میں۔ خصوصاً بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومت کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ ناکام اپنی پالیسیوں میں وہ بھی ہیں جنہوں نے عوام پر ان چہروں اور حکومتوں کو مسلط کررکھا ہے۔ حال یہ ہے کہ نہ اچھی حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب ہیں، نہ ہی امن یقینی بنانے میں۔ اگر یہی اعمال اور پالیسیاں رہیں تو نتیجہ مزید بگاڑ کی صورت میں ہی برآمد ہوگا۔
اس کڑوے سچ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ بلوچ مسلح گروہوں کو بلوچ عوام کی حمایت حاصل ہے۔ شدت پسند کسی بھی وقت، کسی بھی علاقے کی ناکہ بندی پر قدرت رکھتے ہیں۔ ویسے بھی کوئٹہ کراچی شاہراہ آئے روز نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف کئی کئی گھنٹے اور اکثر دو یا تین دن بند کردی جاتی ہے۔ وہیں مسلح افراد کہیں نہ کہیں سے نکل آتے ہیں، اور تھانوں اور فورسز کے کیمپ اور چیک پوسٹوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں، سرکاری اسلحہ اور دوسرے ضروری آلات لے جاتے ہیں، فورسز کو نشانہ بنادیا جاتا ہے۔ یکم فروری 2025ء کی رات ضلع قلات میں منگچر کے مقام پر شام کے بعد کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے درجنوں مسلح افراد کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر نکل آئے، غالباً دس کلومیٹر تک علاقہ آمدورفت کے لیے بند ہوا، مسافر گاڑیاں اور بسیں رک گئیں۔ اطلاعات ہیں کہ ان شدت پسندوں نے بلوچستان کے علاقے پنجگور سے آنے والی وین پر، جس میں فورسز کے اہلکار سوار تھے، حملہ کردیا اور 18 اہلکار قتل کردیے۔ آئی ایس پی آر اس کی تصدیق کرچکا ہے۔ اسی دوران ایف سی کیمپ اور لیویز چوکی پر بھی حملہ کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ وین میں سوار اہلکار چھٹی پر جارہے تھے۔ چند زخمی بھی ہوئے جنہیں علاج کے لیے سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کیاگیا۔ افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل عاصم منیر اگلے روز کوئٹہ گئے، جاں بحق اہلکاروں کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی، اسپتال میں زخمیوں کی عیادت بھی کی۔ بعد ازاں 3 فروری کو وزیراعظم شہبازشریف نے وفاقی وزراء کے ہمراہ کوئٹہ کا ایک روزہ دورہ کیا، سیکیورٹی سے متعلق اجلاس میں شریک ہوئے، سی ایم ایچ میں زخمیوں کی مزاج پرسی کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق حملے کے روز 23 حملہ آوروں کو مار دیا گیا۔ 12کو قلات منگچر میں مارا گیا اور 11کو ضلع ہرنائی میں آپریشن کرکے ہلاک کردیا گیا۔
قلات منگچر حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے اس دھڑے نے تسلیم کی ہے جس کی سربراہی نواب زادہ حیربیار مری سے منسوب کی جاتی ہے۔ یہ اس دھڑے کی جانب سے حالیہ سالوں میں سب سے بڑی کارروائی ہے۔
پیش ازیں 28 جنوری2025ء کو ایک اور واقعہ ضلع قلعہ عبداللہ کے علاقے گلستان میں فرنٹیئر کورکے کیمپ پر حملے کا بھی رونما ہوا۔ کیمپ کے داخلی گیٹ پر خودکش بمبار نے زرنج (مال بردار موٹر سائیکل رکشہ) ٹکرا کر دھماکا کردیا جس کے بعد پانچ حملہ آور اندر داخل ہوگئے۔ تصادم صبح چھے بجے تک جاری رہا۔ حملہ آور سارے جان سے گئے۔ آئی ایس پی آر نے دو اہلکاروں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کردی۔ عسکری حکام نے حملے کے تیسرے دن اسلام آباد اور کوئٹہ سے میڈیا کے نمائندوں کو کیمپ کا دورہ کرایا، جہاں انہیں آگاہ کیا گیا کہ کس طرح کیمپ پر حملہ ناکام بنادیا گیا ہے۔ اس حملے میں بھی امریکی اسلحہ کے استعمال کی تکرار اور ورد ہوا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ موجودہ افغان حکومت ان گروہوں کی مدد کررہی ہے، یعنی امریکی اسلحہ کا بیانیہ بنایا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ اسلحہ دو دہائیوں سے استعمال ہورہا ہے، اور امریکی قبضے کے دوران اسلحہ برابر فروخت ہوتا رہا ہے۔ اُس وقت کے افغان فوجی کمانڈر اور بااثر لوگ اسلحہ فروخت کرنے میں ملوث تھے۔ خود پاکستان کے اندر نیٹو کنیٹرز پر حملے ہوتے اور سامان لوٹا جاتا تھا۔ گویا افغانستان پر غیر ملکی قبضے کی ان دو دہائیوں میں پاکستان بالخصوص دو صوبے بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں امریکی اسلحہ کے انبار لگ چکے ہیں۔ غرض گلستان حملہ کالعدم ٹی ٹی پی نے کیا۔ ان ہی دنوں سرحدی شہر چمن اور قلعہ سیف اللہ میں بھی ایف سی اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ پشین کے علاقے خانوزئی سے تعلق رکھنے والے بلوچستان لیویز فورس کے 4 اہلکار اور ایک سویلین شخص ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درابن میں بم حملے اور فائرنگ کے واقعے میں جاں بحق ہوئے۔ یہ اہلکار خانوزئی سے دو ہفتے پہلے چوری ہونے والے ٹرک کے مقدمے کے سلسلے میں ڈی آئی خان جارہے تھے جہاں سے پولیس نے اسے برآمد کرکے لیویز کو اطلاع دی تھی۔
حالات کا نقشہ یہ ہو اور صوبے میں حکومت غیر نمائندہ افراد یا دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل ہو تو بہتری کس طرح آئے گی؟ یہاں تو حکومت کا ہر ایک بندہ اپنی اور بال بچوں کی زندگی اور مستقبل سنوارنے میں مگن ہے۔ پی ڈی ایم اے کے فنڈز پر محکمہ کے حکام اور اس کا سرپرستِ اعلیٰ ہاتھ صاف کررہے ہیں۔ یہ بات زیر گردش ہے کہ ہڑپ کی جانے والی رقم بیرونِ ملک انویسٹ ہورہی ہے۔ تحقیقات کرے بھی تو کون کرے، کہ سب کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ عدلیہ کا رہا سہا بھرم بھی نہ چھوڑا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوسرے صوبوں کے ججوں کا تبادلہ جس میں بلوچستان کے ایک جج محمد آصف ریکی بھی شامل ہیں، بھیانک کھیل کی نشاندہی کرتا ہے۔ پیکا ایکٹ آمرانہ کھیل، پالیسیوں اور جبر پر سیاہ پردہ ڈالنے کا قانون ہے۔