جماعت اسلامی کے زیر اہتمام قومی کشمیر کانفرنس

حافظ نعیم الرحمٰن و دیگر کا خطاب، مشاہد حسین سید کی سربراہی میں فرینڈز آف کشمیر فورم کی تشکیل

دنیا بھر میں مقیم کشمیری بھارت کی نام نہاد جمہوریت کو کوس رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی سیاسی قیادت تنازع کشمیر کے حل کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ بھارت کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود ان کے پائے استقلال میں ہلکی سی لرزش تک نہیں آئی۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ انہوں نے بھارت کے ناجائز تسلط کو نہ پہلے تسلیم کیا ہے اور نہ آئندہ کبھی قبول کریں گے۔

اس مسئلے پر اقوام عالم کی توجہ مبذول کرانے کے لیے جماعت اسلامی پاکستان نے اسلام آباد میں قومی کشمیر کانفرنس منعقد کی، جس میں اعلامیہ جاری کیا گیا اور مشاہد حسین سید کی سربراہی میں فرینڈز آف کشمیر فورم تشکیل دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے اس کانفرنس کی صدارت کی۔ قومی کشمیر کانفرنس سے سابق چیئرمین سینیٹ نیر حسین بخاری، نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ، سابق وفاقی وزیر مشاہد حسین سید، سابق صدر آزاد کشمیر سردار یعقوب خان، سردار مسعود خان، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان، امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر ڈاکٹر محمد مشتاق خان، سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبدالرشید ترابی، سابق سفیر عبدالباسط، کُل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے کنوینر غلام محمد صفی، محمد فاروق رحمانی، محمود ساغر، شمیم شال، فیض نقشبندی، مولانا امتیاز صدیقی نے بھی اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی میاں اسلم، خالد رحمان، جہانگیر خان، امور خارجہ کے ڈائریکٹرآصف لقمان قاضی، عبداللہ گل اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے قومی کشمیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر سب ایک پیج پر ہیں۔ آج قومی کشمیر کانفرنس میں کشمیری و پاکستانی قیادت شریک ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم ہورہا ہے، اور اس ظلم کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز دبائی جارہی ہے۔ کشمیریوں نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ ایک لاکھ شہید اور ہزاروں قید ہیں۔ میڈیا کو پابند کرکے رکھا گیا ہے۔ سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی بھارت میں ہورہی ہے۔ بھارت کشمیریوں کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں جو کررہا ہے، اپنے ملک میں وہی سلوک دلتوں، سکھوں سمیت باقیوں کے ساتھ کررہا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک ہورہا ہے۔ مغربی ملکوں کا مائنڈسیٹ مسلمانوں کے خلاف ہے، یہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے نہیں دیتے، جبکہ اگر غیر مسلموں کا مسئلہ ہو تو فوراً حل کردیتے ہیں۔ بھارت کو روکنے کے لیے عالمی برادری تیار نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر پر سفارتی محاذ سنبھالنا اور جدوجہدِ آزادی کی مدد کرنا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کا جہاد اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھارت احتجاج بھی نہیں کرنے دیتا۔ سیاسی و عسکری جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا، کشمیریوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ کشمیریوں کو لڑنے کا حق اقوام متحدہ دے چکی ہے۔ فلسطین کی مثال سب کے سامنے ہے۔ 7 اکتوبر2023ء کے طوفان الاقصیٰ آپریشن نے اسرائیل کو مذاکرات پر مجبور کیا۔ اسرائیل نے حماس اور الجہاد کے سامنے گھٹنے ٹیکے۔ حماس کے اقدامات نے فوجی ماہرین کو ناکام ثابت کیا۔ مزاحمت ہی سرخروئی کا راستہ ہے۔ کشمیریوں کے لیے بھی مزاحمت ہی راستہ ہے۔ جب جب مزاحمت ہوگی، عزت ملے گی۔ حماس نے اسرائیل کو شکست دی۔ اسرائیل نے شکست کا بدلہ بچوں اور عورتوں سے لیا۔ اسرائیل کی پشت پر امریکہ کھڑا ہے۔ لیکن حماس نے جولائی میں جو ڈرافٹ بنایا تھا اُس کو ہی اسرائیل نے تسلیم کیا ہے۔ مزاحمت میں عزت ہے، آزادی مزاحمت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ جب پاکستان بنا تھا، پاکستان کی معیشت بھی خراب تھی۔ اُس وقت لشکر سری نگر گئے تھے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جتنے راستے ہیں ہمیں بھرپور طریقے سے ان سب پر کھڑا ہونا ہوگا۔ حکومت اور عسکری قیادت جنرل باجوہ کے حوالے سے آنے والی باتوں پر وضاحت دیں۔ ’را‘ نے پاکستان کے اندر کتنی کارروائیاں کی ہیں؟ پاکستان کیوں خاموش ہے؟ کچھ لوگ کسی آرمی چیف سے ناراض ہوجاتے ہیں تو ملک توڑنے کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ بنگلہ دیش کو دیکھ لیں، وہاں طلبہ نے جو کچھ کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ بھارت کو بنگلہ دیش سے نکالنے کی بات ہورہی ہے، یہ معاہدہ ہونا چاہیے کہ ہمارا جوہری بم بنگلہ دیش کے تحفظ کا باعث بنے۔ کشمیر پر اے پی سی حکومت کو بلانا چاہیے تھی، صرف کشمیر کمیٹی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر پر لابنگ کی جائے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ازسرِنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے ساتھ بھی معاملات ٹھیک ہونے چاہئیں، ہم بھی اس کے لیے معاونت کرنے کو تیار ہیں۔ پاک افغان بارڈر ہر صورت میں پُرامن ہونا چاہیے۔ بلوچوں کے مسائل بھی حل کیے جائیں۔ ہمارا اصل مسئلہ کشمیر ہے۔ 5 اگست 2019ء کو اگر پاکستان نے اپنی فوج کو کشمیر کی طرف موو کیا ہوتا تو پوری دنیا میں یہ مسئلہ اٹھ جاتا۔

امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر ڈاکٹر مشتاق کا قومی کشمیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھاکہ دس لاکھ سے زائد فوج نے ریاستی دہشت گرد فورس کا روپ دھار رکھا ہے، چار لاکھ کشمیری شہید ہوچکے ہیں، بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے اپنا حصہ بنانے پر عمل شروع کررکھا ہے۔ بھارت نے عالمی سطح پر اپنے آپ کو سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر پیش کیا ہے، بھارت کشمیریوں کی تحریک کو دہشت گرد تحریک کے طور پر پیش کررہا ہے۔ بھارت کے خلاف دنیا کو موڑنے کی ضرورت ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنما، سابق چیئرمین سینیٹ سید نیر بخاری نے کہاکہ جماعت اسلامی نے کشمیر کاز کے لیے ہمیشہ کام کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل نکالنا بہت ضروری ہے۔ بھارت نے اپنے آئین میں دفعہ 370 اس لیے رکھی کہ وہ کشمیر کو متنازع خطہ مانتے تھے۔ مذاکرات کو اگر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں تو آپ کو اپنی طاقت دکھانی ہوگی۔ حماس نے قربانی دی تو کامیابی ہوئی۔ حماس اپنے کاز کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ کشمیر کی آزادی کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کو اکٹھا ہونا ہوگا۔ آزاد کشمیر کی حکومت کو بھی عالمی سطح پر کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرنا چاہیے۔ کشمیر پالیسی بنانے کے لیے تمام جماعتوں کو اکٹھا ہونا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں۔

سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہاکہ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم نے جماعت اسلامی میں ایک نیا کرنٹ ڈال دیا ہے۔ دو ایشو کی پالیسی قائداعظم نے دی تھی: ایک کشمیر اور دوسرا فلسطین کی پالیسی۔ یہ پالیسی کوئی تبدیل نہیں کرسکا، حالانکہ کچھ لوگوں نے اس کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں سید علی گیلانی، برہان وانی و دیگر شہدا کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ فلسطین میں جس طرح حماس نے اسرائیل کی دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے وہ دیکھنے والا ہے۔ جس حماس کو ختم کرنے کا اعلان کیاگیا تھا، آج اُس کے ساتھ مذاکرات کرکے قیدیوں کی رہائی ہورہی ہے۔ حماس کا کوئی بیس کیمپ نہیں تھا، وہ اکیلے لڑے اور کامیاب ہوگئے ہیں۔ کشمیر کا فائدہ یہ ہے کہ پاکستان اس کا بیس کیمپ ہے۔ مغربی عوام نے اسرائیل کی مخالفت کی ہے اور یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ عالمی منظرنامہ تبدیل ہورہا ہے اور یہ ہمارے حق میں ہورہاہے، طاقت مغرب سے مشرق کی طرف جارہی ہے۔ امریکہ زوال پزیر ہے۔ بنگلہ دیش میں طلبہ کا انقلاب آیا ہے، بھارت کی حمایت یافتہ حکومت ختم ہوئی ہے اور تاریخ میں پہلی بار بابائے قوم بنگلہ دیش نے تبدیل کردیا ہے۔ بھارت خطے میں اکیلاہوگیا ہے۔ بھارت کے بارے میں ہم پر واضح ہونا چاہیے کہ اسرائیل اور بھارت دونوں ایک ہیں۔ بھارت بھی اکھنڈ بھارت کے عزائم رکھتا ہے۔ ہم بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔ آر ایس ایس اس سال اپنے سوواں یوم تاسیس منا رہی ہے، اس کو بے نقاب کیا جائے۔ کشمیر انسانیت کا مسئلہ ہے۔

سابق وزیراعظم، سابق صدر آزاد کشمیر اور پیپلزپارٹی کے رہنما سردار یعقوب خان نے کہاکہ ہمیں اللہ پر بھروسا ہے، ہمیں اسی طرف جانا پڑے گا جس طرف ہمارے آباواجداد چلے تھے۔ کشمیری پُرامن لوگ ہیں۔ کُل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما فاروق رحمانی نے کہاکہ آج مودی کہتا ہے کہ میں نے کشمیر کا مسئلہ حل کردیا ہے آپ جو کرسکتے ہو، کرلو۔ جب تک مقبوضہ کشمیر میں قید اسیروں کو رہائی نہیں ملتی ہماری کانفرنسیں بے سود ہیں۔ اگر ان اسیروں کو نہ نکالا گیا تو وہ جیلوں میں مرجائیں گے۔ مقبوضہ کشمیر کی جیلیں بھری ہوئی ہیں۔ اسیروں کو نکالنے سے ہی معروضی حالات بدل سکتے ہیں۔ مسلم کانفرنس کے سربراہ اور سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان نے کہاکہ قاضی حسین احمد مرحوم نے یوم یک جہتیِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا اور عالمی برادری کو ایک پیغام دیا۔ کشمیر پر قومی کشمیر پالیسی بنائی جائے، کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ کشمیر اور پاکستان آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور عوام کی بھی خواہش ہے کہ یہ ایک ریاست ہو۔ کشمیر کی مقبول لیڈرشپ اگر 1947ء میں غلط فیصلہ نہ کرتی تو کشمیریوں پر ظلم نہ ہوتے اور کشمیر آزاد ہوتا۔ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی آواز کو دبا دیا گیا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم مایوس نہ ہوں۔ سابق سفارت کار عبدالباسط نے کہاکہ بیانیہ بنانے کے لیے پالیسی کا ہونا ضروری ہے۔ بھارت نے اپنی پالیسی سے کشمیر پر اپنا بیانیہ بنایا ہے۔ بھارت آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی قرار دیتا ہے، جبکہ ہم نے بھی بھارت میں اس کا ساتھ دیا اور کہاکہ پاکستان سے مقبوضہ کشمیر میں دراندازی ہم روکیں گے تاکہ دہشت گردی نہ ہو۔ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر کے اندر سے بھارت پر دبائو ڈالا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک اب انڈر گرائونڈ ہے، جب تک اندر سے دبائو نہیں ہوگا بھارت آپ سے بات نہیں کرے گا۔ کشمیر مسئلہ نہیں تنازع ہے۔ آزاد کشمیر کے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو بھی شامل کیا جائے۔ ہم کشمیر کے تنازعے پر سنجیدہ نہیں ہیں۔ کنوینر آل پارٹیز حریت کانفرنس غلام محمد صفی نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی طرف سے جماعت اسلامی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے یوم یک جہتیِ کشمیر کے حوالے سے پروگراموں کا شیڈول جاری کیا اور عوام میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی۔ قومی کشمیر کانفرنس میں قومی کشمیر پالیسی ہونی چاہیے۔ جموں وکشمیر کوئی زمینی تنازع نہیں ہے، یہ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کا مسئلہ ہے۔ بھارت نے اس حق کو تسلیم کیا مگر اب وہ مکر گیا ہے اور کشمیر کو اٹوٹ انگ کہہ رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اس وجہ سے ہورہی ہے کہ کشمیری حقِ خودارادیت مانگ رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے لوگ شہید ہورہے ہیں اور جیلوں میں ڈالے جارہے ہیں۔ رہنما جمعیت علمائے اسلام آزاد کشمیر مولانا امتیاز صدیقی نے کہا کہ کشمیر پالیسی پر آخر کیوں ہر بار یوٹرن لیا جاتا ہے؟ جب بھارت کمزور ہوا تو ہم نے مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیا، ہم نے ایل او سی پر باڑ لگانے میں بھارت کی مدد کی۔ حریت رہنما فیض نقشبندی نے کہاکہ مسئلہ کشمیر پر وہ گرم جوشی کچھ عرصے سے نظر نہیں آرہی ہے جو پہلے ہوتی تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے 96ہزار لوگوں کو شہید کیا ہے۔ کشمیری حقِ خودارادیت کے لیے لڑرہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں آج بھی مؤثر ہیں۔ رہنما کُل جماعتی حریت کانفرنس شمیم شال نے کہاکہ بھارت نے نفسیاتی دباؤ برقرار رکھا ہوا ہے، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ تحریک میں ہم سے غلطی کیا ہوئی ہے۔ اس کو دیکھنے اور ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کو ترجیح دی جائے۔ رہنما کُل جماعتی حریت کانفرنس محمود احمد ساغر نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں ہم نے مجبور ہوکر مسلح جدوجہد شروع کی۔ آزاد کشمیر کی حکومت نے کبھی اس تحریک کے لیے فنڈز نہیں رکھے ہیں۔ تحریکِ آزادی کے لیے باقاعدہ فنڈز رکھے جائیں، کشمیر کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں، کشمیر پر عالمی کانفرنس بلائی جائے۔ کشمیر کو شہ رگ کہا جاتا ہے، مگر کوئی عالمی کانفرنس نہیں بلائی جارہی ہے۔