کیا پاکستان کے سیاسی حالات میں بدلائو آئے گا؟
پاکستان کے سیاسی حالات پر مختصر اور جامع تجزیہ اور تبصرہ یہی ہے کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور بیوروکریسی سب نرگسیت کا شکار ہیں، اور سب کا دعویٰ ہے کہ ملکی مسائل کا حل صرف انھی کے پاس ہے۔ اسی تقسیم کے سبب قوم بھی تقسیم ہے اور ملکی مسائل کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ایک جانب بھارت ہمارے لیے مسائل کھڑے کررہا ہے اور دوسری طرف افغانستان ہے۔ اس وقت ملک سنگین مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں سرحد پار قوتوں کا ہاتھ ہے، جن کا مقابلہ صرف قومی یک جہتی کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے، اور یہ پورے ملک میں ہمیں کہیں نظر نہیں آرہی۔ اس کی وجہ بھی حکومت، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور بیوروکریسی ہیں، جن کے پاس محض ایک دوسرے پر الزام تراشی کے سوا قوم کی بھلائی کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ نرگسیت کا ایک علاج ہے کہ اس کے سامنے روبوٹ بن کر رہا جائے، تب نرگسیت میں مبتلا لوگ بہت خوش رہتے ہیں۔ لیکن پچیس کروڑ لوگوں میں ایک بھی روبوٹ نہیں ہے، یہ سب جیتے جاگتے انسان ہیں جو زندگی اور قسمت کا ریموٹ ان کے ہاتھ میں نہیں دے سکتے۔ بہتر یہی ہے کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی خود اپنا علاج کریں اور درست ہوجائیں، ورنہ قوم کا ردعمل کچھ بھی نتائج پیدا کرسکتا ہے، کیونکہ اب مایوسی بڑھتی چلی جارہی ہے، سیاسی جماعتوں کی قیادتیں بھی اسی کیفیت کا شکار ہیں۔
ابھی حال میں حکومت اور تحریک انصاف میں مذاکرات ہوئے، مگر یہ عمل تین نشستوں سے آگے نہیں بڑھ سکا، اور عمران خان نے اپنی مذاکراتی ٹیم ہی ختم کردی۔ اب وہ خود براہِ راست مذاکرات کے لیے آگے بڑھے ہیں اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ایک خط لکھا ہے جس کی تصدیق عمران خان کے وکیل فیصل چودھری نے کی ہے کہ یہ خط انہوں نے سابق وزیراعظم کے طور پر بھجوایا ہے۔ خط میں عمران خان نے 6 نکات پیش کیے ہیں اور گزارشات بھی کی ہیں۔ عمران خان نے خط میں 8 فروری کے انتخابات پر اپنی رائے دی ہے، 26ویں آئینی ترامیم کے حوالے سے بھی اپنا نکتہ نگاہ بیان کیا، پیکا قانون، پی ٹی آئی کے خلاف جبری ہتھکنڈوں کے علاوہ قومی سلامتی کے اداروں کی آئینی ذمہ داری اور ملکی معاشی صورتِ حال کا ذکر کیا ہے اور آرمی چیف سے پالیسی میں ردوبدل کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے خط میں لکھاکہ اسٹیبلشمنٹ اُن کے ساتھ کھڑی ہوئی جو خود دو بار کے این آر او زدہ ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج تب کامیاب ہوتی ہے جب قوم اس کے پیچھے کھڑی ہو، جب کہ اِس وقت فوج اور قوم میں دوریاں پیدا ہورہی ہیں، ان فاصلوں کی سب سے بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیاں ہیں، کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ کھڑی ہوئی جو دو دفعہ کے این آر او زدہ ہیں جس سے قوم میں نفرت پیدا ہوئی۔
اب اس خط کا جواب کون اور کب دے گا؟ اس بارے میں کچھ کہنا مناسب نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ عمران خان اگر جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، اور اس ملک کے جمہوری وزیراعظم رہے ہیں تو پھر ملکی مسائل کے حل کے لیے جمہوریت کی جانب ہی دیکھنا چاہیے تھا۔ بہرحال چونکہ نرگسی مزاج لوگوں کی سوچ، فکر اور عمل کا اپنا ہی قبلہ ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں اب ان کے اس خط کے جواب تک کچھ نہیں کہنا، بلکہ انتظار کرنا مناسب ہے۔
تحریک انصاف نے مذاکرات میں دو ہی مطالبے دہرائے تھے: 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ حکومت اس بارے میں اسے کوئی جواب نہیں دے سکی تو عمران خان نے یہ مطالبہ آرمی چیف کو خط لکھ کر براہ راست اُنہی سے کردیا ہے۔ اب جب کہ انہوں نے خط لکھ دیا ہے تو ان کے ساتھ ہمیں انتظار ہی کرنا ہے کہ وہاں سے کیا جواب آتا ہے۔ جواب آنے تک حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کی کہانی آگے بڑھ نہیں سکے گی اور ملکی سیاست میں بھی کچھ سکوت رہے گا، اور آئندہ کا سیاسی منظرنامہ اس خط کے جواب پر ہی منحصر ہوگا۔
ایک جانب یہ خط ہے اور دوسری جانب تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آنے کے لیے پر تول رہی ہے، مگر موجودہ صورتِ حال میں یہ انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر کی پشاور میں عسکری قیادت کے ساتھ غیر رسمی ملاقات کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کا بیک ڈور چینل قائم نہ ہوسکا، جس کے باعث بانی پی ٹی آئی نے مذاکراتی عمل سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔ دوسرے آپشن یا پلان بی کے تحت آرمی چیف کو خط لکھا گیا ہے، وہاں سے کس قدر ریلیف ملنے کی توقع ہے اس بارے میں کچھ نہ کہنا ہی مناسب ہوگا، البتہ تحریک انصاف کو یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل اگر کامیاب کرنا ہے تو شہباز حکومت کو تسلیم کرنا پڑے گا اور اس کے خلاف کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرنی ہے۔ ایسے میں ان کے لیے جیل میں رہنا پھر بھی کسی حد تک بہتر ہے، کیونکہ جو بیانیہ وہ بنا چکے ہیں اور اپنے کارکنوں کا پارہ جس حد تک لے جا سکتے ہیں اس کے بعد ڈیل کرکے خاموشی سے بیٹھ جانا پاکستان تحریک انصاف کے لیے سیاسی موت سے کم نہیں ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی مشکلات اور چیلنجز کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں، اگر وہ ڈیل کرتے ہیں تو اس کی بھاری سیاسی قیمت ہے، اگر نہیں کرتے تو انہیں اور ان کی اہلیہ کو ایک طویل عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ صورتِ حال تحریک انصاف نے خود اپنے لیے پیدا کی ہے۔
امریکہ کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا ہے اور وہ یہاں سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امریکہ کے اس اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی جینٹری بیچ نے کی، جن کا نئی امریکی انتظامیہ کے چارج سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد ہی دورہ اس خطے کے ممالک کے لیے حیران کن ہے۔ جینٹری بیچ کے دورۂ پاکستان سے وہ تمام قیاس آرائیاں بھی دم توڑ چکی ہیں جو نئی امریکی انتظامیہ کے آنے کے بعد پاکستان کے سیاسی محرکات پر اثرانداز ہونے سے متعلق تھیں۔ تحریک انصاف نے پہلے ملکی عدالتوں سے امید لگائی، اس کے بعد اُس نے امریکی انتخابات پر نظر یں گاڑ لیں، ٹرمپ کی جیت کے بعد کہا جانے لگا کہ 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کے سیاسی حالات میں ایک بدلائو آئے گا، امریکی صدر کے مشیر رچرڈ گرینیل کے ٹوئٹس نے بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کی امیدوں میں مزید اضافہ کردیا تھا، یہاں تک کہا جانے لگا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ شروع کیا گیا مذاکراتی عمل بھی شاید مغربی دبائو پر کیا جارہا ہے۔ لیکن عمران خان کے حق میں کی گئی تمام پوسٹس اب ڈیلیٹ کردی گئی ہیں اور نئی امریکی انتظامیہ کے چارج سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد ہی امریکہ سے سرپرائز آگیا، جینٹری بیچ کے دورۂ پاکستان کو نہ صرف معاشی میدان میں، بلکہ سفارتی سطح پر ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا ہے، معاشی میدان میں جہاں ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کے قریبی ساتھی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری لانے کے حوالے سے سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں، وہیں انہوں نے نئی امریکی انتظامیہ کی پاکستان سے متعلق ترجیحات سے متعلق بھی بہت کچھ واضح کردیا ہے۔ جینٹری بیچ نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ امریکہ میں پاکستان سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، پاکستان کی موجودہ قیادت اور امریکہ کی نئی انتظامیہ کا مائنڈ سیٹ بہت ملتا ہے، ٹرمپ انتظامیہ پاکستان سے متعلق بہت مثبت رائے رکھتی ہے۔ رچرڈ گرینیل نے بانی پی ٹی آئی کے حق میں ٹوئٹس کرتے ہوئے اپنی سمجھ کے مطابق بات کی تھی، انہیں ڈیپ فیک اے آئی کے ذریعے پریزنٹیشنز دکھا کر گمراہ کیا گیا، مگر اب رچرڈ گرینیل کی انڈر اسٹینڈنگ بہت بہتر ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ ایک کاروباری شخصیت ہیں اور موجودہ صورتِ حال میں پاکستان اور امریکہ دونوں ممالک کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جینٹری بیچ نے معدنیات و کان کنی، آئل اینڈ گیس، رئیل اسٹیٹ اور آئی ٹی سیکٹر میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے سرمایہ کاری سے متعلق معاہدے ہوں گے۔
جینٹری بیچ کے دورۂ پاکستان، اُن کی پاکستان میں سرمایہ کاری میں حیران کن دلچسپی اور امریکی ترجیحات پر وضاحت نے اُن تمام قیاس آرائیوں کو دفن کردیا ہے جوکچھ حلقوں کی طرف سے ٹرمپ انتظامیہ کے حوالے سے کی جارہی تھیں۔ صرف جینٹری بیچ کے دورۂ پاکستان ہی نہیں بلکہ ٹرمپ انتظامیہ کے رویّے کو دیکھ کر ایک بات تو واضح ہوچکی ہے کہ امریکی انتظامیہ سے متعلق غلط اندازے لگائے گئے تھے، حکومت کی سطح پر ایک بہت بڑی کمزوری یہ بھی سامنے آئی کہ وفاقی وزیرِ داخلہ کے حالیہ دورۂ امریکہ پر بہت لے دے کی گئی، محسن نقوی اُس وقت واشنگٹن پہنچے جب امریکہ اقتدار کی منتقلی کے عمل سے گزر رہا تھا، ان کی موجودگی نے تمام طرح کی قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔ تاہم یہ اب تک واضح نہیں ہوسکا ہے کہ وہ امریکہ سرکاری دورے پر گئے تھے یا نہیں۔ محسن نقوی نے کہا کہ ان کے دورے کا مقصد امریکی سیاست دانوں کے تعاون سے انسدادِ دہشت گردی کا مؤثر منصوبہ تشکیل دینا تھا۔
انہوں نے اراکینِ کانگریس سے ملاقات کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دفترِ خارجہ نے وزیر داخلہ کے ایسے دورۂ امریکہ سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا کہ وفاقی وزیر کے دورے سے دفتر خارجہ کا کوئی تعلق نہیں۔ اگرچہ محسن نقوی کے مطابق وہ کانگریس رہنماؤں اور دیگر سے واشنگٹن میں دہشت گردی اور افغانستان کے مسئلے پر تبادلہ خیال کرنے گئے تھے، لیکن ان مسائل کو نئی امریکی انتطامیہ سے تعلقات کے وسیع تر منظرنامے سے الگ کرکے دیکھا نہیں جاسکتا۔ تاہم اصل حقائق یہ ہیں کہ انہوں نے کسی واضح ایجنڈے کے بغیر اُس وقت واشنگٹن کا دورہ کیا جب پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات انتہائی حساس ہیں۔ امریکی قانون سازوں و انسانی حقوق کے کارکنان نے اپوزیشن رہنماؤں پر ظلم و ستم روکنے کا مطالبہ کیا۔ یقیناً اس بریفنگ کا انعقاد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں کی جانب سے کیا گیا ہوگا، لیکن اس نے امریکہ میں پاکستانی حکومت کے لیے بڑھتی ناخوشگوار صورتِ حال کی عکاسی کی۔یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں جاری اقتدار کی رسّا کشی بیرونی ممالک کو بھی نظر آرہی ہے۔ گزشتہ سال درجنوں کانگریس اراکین نے اُس وقت کے امریکی صدر جو بائیڈن کو عمران خان کی رہائی سے متعلق خط لکھا تھا۔ کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ امریکی کانگریس کے متعدد اراکین کی جانب سے ایسے رہنما کی رہائی کے لیے پہلی اجتماعی کال تھی جوکہ امریکی خارجہ پالیسی کے سخت ناقد رہ چکے ہیں۔