برادر محترم رائو محمد اختر صاحب جب سعودی عرب میں مقیم تھے، اُن دنوں فنڈ ریزنگ کا کام مسلسل جاری رکھتے تھے۔ مرحوم بھائی کی دعو ت پر میں بھی فنڈ ریزنگ کے لیے خلیجی ریاستوں کے دورے پر ہر سال جایا کرتا تھا۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ عالمی صورتِ حال کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوگیا اور اسلامک فائونڈیشن خاصی مالی مشکلات کا شکار ہوگئی، مگر کام اللہ کے توکل پر جاری رہا۔ میرے کینیا سے پاکستان واپس آنے کے کئی سال بعد قرآن ہائوس کی یہ عمارت رائو محمد اختر مرحوم و مغفور ڈائریکٹر اسلامک فائونڈیشن نے فروخت کردی اور اس کی جگہ مرکزِ شہر سے ذرا مضافات کے پوش علاقے میں کچھ زمین اور ایک دو فلیٹ خرید لیے۔ رائو صاحب میرے پاکستان آنے کے بعد فائونڈیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے تھے۔ پھر بعد میں انھیں چیئرمین منتخب کیا گیا۔
اس خریدوفروخت کی اپنی حکمتیں ہوں گی مگر چند سالوں کے بعد جب میں پہلی مرتبہ نیروبی گیا تو سچی بات یہ ہے کہ یہ خبر ملنے پر میرا دل ٹوٹ گیا۔ قرآن ہائوس کی اس عمارت کے ساتھ بہت شیریں یادیں وابستہ تھیں۔ کینیا میں میرے قیام کے دوران تحریکِ اسلامی کی پاکستان اور دیگر خطوں سے کئی اہم شخصیات نے اپنے دوروں کے دوران یہاں قیام فرمایا تھا۔ مجھے ان سب کی مہمان نوازی کا شرف حاصل ہوا۔ اس معاملے میں ڈاکٹر محمد سعید مرحوم سیکرٹری جنرل اسلامک فائونڈیشن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ وہ اپنے گھر پہ تمام مہمانوں کے کھانے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ ناشتے اور چائے وغیرہ کا انتظام دفتر کے مہمان خانے ہی میں ہوجاتا تھا۔
ان معزز مہمانوں کی آمد اور قیام کو یاد کرتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو، حالاںکہ تقریباً نصف صدی کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہاں امیر جماعت محترم میاں طفیل محمدؒ اور مولانا خلیل حامدیؒ تشریف لائے تھے۔ میاں صاحب نے تقریباً تمام منصوبوں اور مراکز کا دورہ کیا اور بہت خوشی کا اظہار کیا۔ آپ کا ملک بھر میں فائونڈیشن کے اداروں کا دورہ وہاں کے مقامی ساتھیوں کے لیے یادگار تھا۔ اسی طرح قاضی حسین احمدؒ صاحب جن دنوں قیم جماعت اور سینیٹر تھے، ایک دوسرے جماعتی رہنما سینیٹر ڈاکٹر مراد علی شاہ مرحوم کے ساتھ سوڈان کے دورے کے بعد کینیا بھی تشریف لائے۔ ان کا قیام بھی یہیں قرآن ہائوس میں رہا۔ انھوں نے دفاتر اور دیگر سہولیات کو دیکھ کر بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ قاضی صاحب نے ملک بھر کے مراکز کا بھی دورہ کیا۔ آپ کے کئی خطابات کی تو واقعتاً دھوم مچ گئی تھی۔
پروفیسر خورشید احمد اور محترم خرم مراد مرحوم کی آمد اور قیام بھی بہت یادگار تھا۔ ان دونوں حضرات نے لائبریری کے نظم و نسق اور خوب صورتی کو بہت سراہا۔ میں نے ایشیائی کارپینٹرز سے اپنی نگرانی میں تمام الماریاں اور ریک بنوائے تھے اور ان میں کتابیں سجائی تھیں۔ پاکستان سے ایک مخیر شخصیت محمد یوسف سیٹھی صاحب، سعودی عرب میں مقیم اپنے بزرگ دوست ڈاکٹر مصطفیٰ صاحب کے ساتھ کئی مرتبہ کینیا کے دورے پر آئے۔ نیروبی میں ان کا قیام ہمیشہ میرے پاس قرآن ہائوس میں ہوتا تھا۔ ان تحریکی بزرگوں کے علاوہ کئی اور اہم شخصیات بھی وقتاً فوقتاً یہاں تشریف لاتی رہیں۔
اسلامک فائونڈیشن کے ڈائریکٹر کے طور پر میری ذمہ داریاں بہت کٹھن اور ہمہ پہلو تھیں۔ فائونڈیشن کے تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کی جامعات، عصری تعلیم کے اسکول، یتیم خانے، بچیوں کے ادارے اور طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے میڈیکل کے شعبے… گویا ایک وسیع و عریض دنیا تھی۔ ملک کے تقریباً سبھی حصوں میں کوئی نہ کوئی ادارہ قائم تھا۔ بیشتر اداروں میں طلبہ و طالبات کے لیے رہائشی سہولیات (ہاسٹلز) موجود تھیں۔ تعلیم اور رہائش بالکل مفت تھی۔ سبھی اداروں میں ہفتے کے آخر میں باری باری جانا آنا رہتا تھا۔ اس کے لیے اسلامک فائونڈیشن کی اپنی گاڑی خریدنے سے پہلے فائونڈیشن کے سیکرٹری جنرل اور عظیم سماجی کارکن ڈاکٹر محمد سعید (ایم بی بی ایس) اپنی گاڑی فراہم کیا کرتے تھے۔ ڈرائیونگ محترم محمد اختر بھٹی صاحب کیا کرتے تھے۔
قرآن ہائوس کے کرایہ داروں میں سے اکثر تو شریف النفس لوگ تھے، بروقت کرایہ ادا کردیتے تھے، جب کہ کئی ایک بہت ہی گندے کردار کے مالک تھے۔ ان سے ہر مہینے لڑ جھگڑ کر کرایہ وصول کرنا پڑتا تھا۔ ایک دو غنڈہ ٹائپ افریقی کرایہ داروں نے تو اسلحہ کے ذریعے ہمیں ہراساں بھی کرنا چاہا۔ ان کے مزاج درست کرنے کے لیے ڈاکٹر محمد سعید صاحب، ان کے بھائی محمد اکبر اور بشیر شکاری بھی اپنا لائسنس یافتہ اسلحہ لے کر آئے تو افریقی غنڈوں کو پتا چل گیا کہ یہاں ادارے کا ڈائریکٹر اور اس کا عملہ جو اسلحے سے خالی ہاتھ ہیں، بے دست و پا نہیں۔ ایک غنڈے کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا جسے پولیس نے گرفتار کرلیا۔ معاہدے کے مطابق چار مہینوں کا کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس کا تالا توڑ کر اس کا سامان تہہ خانے میں رکھ دیا گیا۔
ہمارے افریقی کرایہ داروں میں دو نہایت نفیس اور مہذب وکلا ہمارے قانونی معاون تھے۔ ان کی فرم کا نام تھا ’’کامونڈے اینڈ ڈونڈا لا ایسوسی ایٹس‘‘۔ انھوں نے بہت اچھی طرح اس کیس کی پیروی کی اور وہ بدمعاشی کرنے والا کرایہ دار اپنے کیے کی سزا بھگت کر آزاد ہوا تو اس کی آمد پر میں نے اپنے وکلا مسٹر چارلس کومونڈے (Komondey) اور مسٹر جان ڈونڈا (John Ndunda) سے کہا کہ اس سے اشٹام پر تحریر لے کر اس کا سامان اس کے حوالے کردیں۔ اس دور کی یادیں اگر لکھی جائیں تو ایک بہت بڑا انسائیکلوپیڈیا بن جائے گا، مگر آج کل اس میں کسی کے لیے کیا دلچسپی کا سامان ہوگا! کتاب سے تو ویسے ہی لوگوں کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے، اور سچی بات یہی ہے کہ کتابیں لکھنے والوں کا حال محمود سروش کے اس مصرع کے مطابق ہے:
آئینہ بیچتا ہوں میں اندھوں کے شہر میں
اسلامک فائونڈیشن کے ہم خیال نوجوانوں نے ایک مستقل تنظیم قائم کررکھی تھی جس کا نام ’’ینگ مسلم ایسوسی ایشن‘‘ تھا۔ اس کا دفتر نیروبی کی مرکزی جامع مسجد کی عمارت میں تھا۔ اس کے چیئرمین محمد اکرم بھٹی بہت سنجیدہ اور قابل نوجوان تھے (آپ جوانی ہی میں انتقال کرگئے)۔ ان کے علاوہ جناب صابر گُل آغا (سیکرٹری جنرل)، محمد فاروق سلاچ (نائب صدر)، عبدالحمید سلاچ (ناظم مالیات) اور مجلسِ منتظمہ کے ارکان ایاز کھوکھر، محمود جمی، عبدالرحمٰن خمیس، جمیل بھٹی، فاروق آدم، سلیم فاضل، محمود جامہ، فاروق مسلم، ریاض چودھری، منور گل آغا، علا الدین خاں، صلاح الدین خاں اور کئی اور ساتھی تھے۔ میرے کینیا آتے ہی ان دوستوں نے مجھے ینگ مسلم کا رکن بننے کی دعوت دی۔ چناںچہ میں بھی 3 جنوری 1975ء کو ینگ مسلم ایسوسی ایشن کا مستقل رکن بن گیا۔ کینیا میں جتنا عرصہ قیام رہا، میں ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ممبر کے طور پر تمام فیصلوں میں شریک رہا۔ یوتھ پروگراموں میں ہمیشہ بطور مربی شرکت کرتا رہا۔
یوں اسلامک فائونڈیشن کی سرگرمیوں کے ساتھ اس نوجوان تنظیم کے پروگراموں میں فعال کردار ادا کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اس تنظیم کا ایک بہت بڑا سنٹر شمال مشرقی کینیا میں گریسا (Garissa) کے مقام پر تھا۔ گریسا کا فاصلہ نیروبی سے367کلومیٹر ہے اور یہ نیروبی سے شمال مشرق میں ہے۔ یہاں ینگ مسلم کا بہت بڑا تعلیمی ادارہ اور اس کے ساتھ ایک زرعی فارم تھا۔ اس ادارے کے نظم و نسق کی ذمہ داری پاکستان کے معروف عالم دین شیخ مطیع الرسول جو مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے، ادا کررہے تھے۔ اس ادارے میں بھی بطور ممبر ینگ مسلم ایسوسی ایشن اور بحیثیت ذاتی دوست شیخ مطیع الرسول مجھے جانے کا کئی بار اتفاق ہوا۔ یہاں صومالی الاصل کینین باشندے مقیم تھے۔ طلبہ میں بڑی تعداد صومالی نوجوان بچوں اور بچیوں کی تھی۔
شیخ مطیع الرسول سے بہت گہری دوستی قائم ہوگئی۔ وہ مجھے اپنا چھوٹا بھائی سمجھتے تھے اور میں انھیں اپنا بڑا بھائی۔ ایک یادگار بات یہ ہے کہ ان کی بیٹی عزیزہ فوزیہ میڈیکل کی تعلیم کے لیے کینیا سے پاکستان آئیں اور یہاں سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ کینیا سے پاکستان بھیجتے ہوئے شیخ مطیع الرسول صاحب نے فرمایا کہ یہ آپ کی بیٹی ہے اور آپ ہی کو اس کے معاملات وہاں پر دیکھنے ہیں۔ فوزیہ بیٹی اسلامی جمعیت طالبات میں سرگرم ہوئیں اور بطور رکن اس تنظیم میں کام کرتی رہیں۔ بیٹی کی تعلیم سے فراغت کے بعد شیخ صاحب نے ایک اور مشکل ترین کام میرے ذمے لگا دیا۔ فرمانے لگے کہ فوزیہ کا رشتہ آپ کو تلاش کرنا ہے اور آپ ہی کو سارے انتظامات بھی کرنے ہیں۔
یہ شیخ مطیع الرسول صاحب کی اپنائیت اور اعتماد کی بہترین مثال تھی۔ مجھ سے آپ نے جب یہ فرمائش کی تو سچی بات یہ ہے کہ مجھے یہ مسئلہ مشکل ترین محسوس ہوا، مگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آسانیاں پیدا فرمائیں۔ ڈاکٹر مقبول شاہد صاحب سے پرانا دوستانہ تعلق تھا۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر خبیب بھی اسلامی جمعیت طلبہ میں رہے، اور وہ میرے لیے اپنے بیٹوں کی طرح تھے۔ اللہ کی مدد سے فوزیہ اور خبیب کا رشتہ طے ہوا اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس جوڑے کو ایک مثالی اسلامی جوڑا بننے کی توفیق عطا فرمائی۔ چار بیٹوں اور ایک بیٹی سے اللہ نے نوازا۔ دونوں میاں بیوی کے والدین ان کی طرف سے ہمیشہ خوش و خرم رہے۔ الحمدللہ!
ان سطور کی تحریر کے وقت گزشتہ چند سالوں سے شیخ مطیع الرسول صاحب کی صحت بہت کمزور ہوچکی ہے۔ ان کی بیٹی اور داماد اور ان کے نواسے نواسی بھی وقتاً فوقتاً ان کی عیادت اور خدمت کے لیے کینیا جاتے رہتے ہیں۔ شیخ مطیع الرسول صاحب کے علاوہ دیگر اہلِ علم حضرات جناب شیخ محمد امین زاہد، مولانا شیخ محمد سلفی ،مولانا فتح الدین تنگل (انڈیا)، مولانامحمد عثمان، مولاناخالد خلیل نعمانی، مولانا ابراہیم خلیل، مولانا عبدالخالق، مولانامحمد اقبال اعظمی، مولاناعبدالسلام کیلانی، قاری عبدالرزاق اور قاری حبیب الرحمٰن سبھی سے بہت گہرے برادرانہ تعلقات رہے۔ ہر ایک کی اپنی شان تھی اور اپنا مقام۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جو زندہ ہیں سلامتی عطا فرمائے، اور جو اللہ کے ہاں جا چکے ہیں، ان کی قبروں کو نور سے منور فرمائے۔ شیخ مطیع الرسول صاحب کو اللہ نے چار بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا ہے۔ آپ کے سبھی بیٹے نیروبی میں مقیم ہیں۔ دوسری بیٹی عزیزہ سعدیہ سائوتھ افریقہ میں ایک نہایت نیک نفس دینی گھرانے میں بیاہی گئی ہیں۔ عزیزہ کے حالات میرے سفرنامے’’بلالی دنیا میں شمع اسلام‘‘ صفحہ 148 تا 150 محفوظ ہیں۔
شیخ مطیع الرسول صاحب کے چھوٹے بھائی محترم نیک محمد صاحب قرآن ہائوس کے نیچے ایک فارمیسی میں ملازمت کرتے تھے۔ کھانے کے وقفے کے دوران اوپر میرے پاس تشریف لے آتے اور بہت پُرلطف مجلس جما لیتے۔ آپ حسِ مزاح سے بھی مالامال ہیں اور بہت محبت بھرے جذبات بھی ان کا خاص وصف ہے۔ آپ نے بتایا کہ عمر میں مجھ سے چار سال بڑے ہیں، مگر یہ ان کی محبت تھی کہ اکثر مجھے فرماتے کہ آپ بیٹھ جائیں، میں آپ کی پنڈلیوں میں تیل کی مالش کروں گا۔ کبھی فرماتے: آپ لیٹ جائیں، میں آپ کی ٹانگیں دبائوں گا۔ میں انکار کرتا، مگر وہ کہاں چھوڑنے والے تھے۔ ایسی اپنائیت کے ساتھ مجھے گھیرتے کہ ہتھیار ڈالے بغیر چارہ نہ ہوتا۔ اب آپ کئی سالوں سے پاکستان (فیصل آباد) میں مقیم ہیں۔ میرے ساتھ ہی نہیں، میرے بچوں کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ ہر خوشی اور غم کے موقع پر ایک دوسرے کے ہاں جانا آنا اسی طرح ہے جس طرح خونیَ رشتے داروں کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے۔
آپ نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی سے بھی ماشاء اللہ بہت وفادار بچے ہیں۔ دوسری بیوی جس سے کینیا میں قیام کے دوران شادی کی، اس سے بھی اللہ نے بہت نیک اولاد عطا فرمائی ہے۔ آپ کی یہ بیوی ایک مثالی خاتون تھیں۔ پاکستان میں آنے کے بعد ہمارے ہاں جب بھی ان لوگوں کی آمد ہوتی تو مسز نیک محمد (ممتاز بیگم) سے مل کر ہمارے گھر کی سب خواتین اور بچیاں انتہائی خوش ہوتیں۔ کئی سال قبل آپا ممتاز جوانی ہی میں وفات پا گئیں۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ہمارے گھر میں جب بھی ان کا ذکر ہوتا ہے، سب خواتین ان کی تعریف میں رطب اللسان ہوجاتی ہیں۔ نیک محمد صاحب سے میرا اور میرے بچوں کا مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ دوسری بیوی سے ان کا بڑا بیٹا عزیزم طارق عالم دین ہے اور کینیا میں دینی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ دوسرا بیٹا زبیر ان کے ساتھ مقیم ہے اور بیٹی رابعہ بھی انہی کے ساتھ رہتی ہے۔ زبیر اپنا کاروبار کرتا ہے جب کہ رابعہ سرکاری ملازمت میں ہے۔
(جاری ہے)