ترکِ وطن بمقابلہ حُبِ وطن ہم کہاں کھڑے ہیں؟

ترکِ وطن دنیا بھر میں عام ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ اپنے لیے بہترین امکانات کے ساتھ کام کرے۔ بہترین معاشی امکانات کی تلاش میں انسان سرگرداں رہتا ہے۔ وہ مستقبل کو روشن تر بنانا چاہتا ہے۔ وطن کی محبت اپنی جگہ اور بہتر معاشی امکانات کے لیے ترکِ وطن اپنی جگہ۔

پس ماندہ اور ترقی پزیر ممالک کے باشندے ترکِ وطن کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اُنہیں اپنے ملک میں، اپنے قریب ترین ماحول میں بہتر معاشی امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ ایشیا اور افریقہ کے علاوہ جنوبی امریکہ کے پس ماندہ ممالک کے باشندوں کی اکثریت بھی کسی نہ کسی ترقی یافتہ ملک میں آباد ہونے کا خواب دیکھتی رہتی ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے مستقبل کو محفوظ اور تابناک بنانے کے لیے ترکِ وطن کریں اور وہاں جائیں جہاں ان کی صلاحیت و سکت کی قدر ہو، یعنی زیادہ کمانا ممکن ہو۔ اِس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے اور یہ بالکل فطری امر ہے، مگر ظاہر ہے کہ ہر کام معقول طریقے سے کیا جانا چاہیے۔

پس ماندہ ممالک سے یورپ، امریکہ، کینیڈا، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، ترکی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا رُخ کرنے والوں کی کمی نہیں۔ ہر پس ماندہ ملک کے باشندوں کی اکثریت اِن ترقی یافتہ ممالک میں آباد ہونے اور جی بھرکے کمانے کے خواب دیکھتی رہتی ہے۔ اِن خوابوں کو تعبیر سے ہم کنار کرنا آسان نہیں۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں آباد ہونے کے لیے کسی بھی پس ماندہ ملک کے باشندے کو جو کچھ کرنا چاہیے وہ تو کیا نہیں جاتا اور غیر قانونی طریقے سے وہاں پہنچنے، کام کرنے اور مستقل آباد ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا جو نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے، ہورہا ہے۔

پاکستان میں بھی بیرونِ ملک آباد ہونے کا خواب دیکھنے والے کم از کم لاکھوں میں تو ہیں۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ نئی نسل چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی ترقی یافتہ ملک کا رُخ کرے اور وہیں کی ہورہے۔

بیرونِ ملک جانا، کام کرنا اور وہاں آباد ہو رہنا کوئی غلط بات نہیں۔ دنیا بھر میں لوگ یہی چاہتے ہیں اور اپنی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کس چیز کی قیمت پر ہو؟ کیا ترکِ وطن ہر حال میں لازم ہے اور اِس معاملے میں عجلت پسندی درست ہے؟ بہت سے ترقی پزیر اور پس ماندہ ممالک نے افرادی قوت برآمد کرنے پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ نئی نسل کو بیرونِ ملک آباد ہونے کے لیے تیار کیا جاتا ہے، تعلیم مکمل ہونے پر تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی نوجوان جس ملک میں کام کرنا اور آباد ہونا چاہتا ہے وہاں کے مجموعی ماحول کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔

نائن الیون کے بعد ترقی یافتہ دنیا نے اپنے دروازے بند کررکھے ہیں اور بہت چھان پھٹک کے بعد ہی کھولے جاتے ہیں۔ بیرونِ ملک کام تلاش کرنا اور وہاں آباد ہونا اب بچوں کا کھیل نہیں۔ قانونی طریقے سے جانے والے بھی ہیں مگر زیادہ تعداد غیر قانونی طریقوں سے ترقی یافتہ دنیا کا رُخ کرنے والوں کی ہے۔ جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ سے ترقی یافتہ ممالک کا رُخ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور بدحالی بڑھتی جارہی ہے۔ جاب سیکیورٹی نام کی کوئی چیز اب رہی نہیں۔ پس ماندہ اور ترقی پزیر ممالک میں کاروباری ادارے کام کروانے کے طریقے بدل رہے ہیں۔ کسی کو ملازمت دینے کے بجائے کام کی بنیاد پر کام کرایا جارہا ہے۔ معاملہ بہت حد تک سیلف ایمپلائمنٹ والا ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں سبھی چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور کسی ترقی یافتہ ملک میں آباد ہوں تاکہ آنے والوں کو سکون کی زندگی بسر کرنے کا موقع مل سکے۔

امریکہ، یورپ، کینیڈا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک اور خطوں سے غیر قانونی تارکینِ وطن کو نکالنے کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔ بہت سے ممالک میں غیر قانونی تارکینِ وطن سے نفرت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اِن کے باعث مقامی باشندوں کا روزگار چِھنتا جارہا ہے۔ غیر قانونی تارکینِ وطن معاشرے میں رائج اجرت سے 40 فیصد کم پر بھی کام کرنے کو راضی ہوجاتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں بیشتر مقامی باشندے کم اُجرت پر کام کرنے والوں کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ آجروں کے لیے یہ معاملہ مکمل فائدے کا ہے۔ امریکہ میں بھی حکومت غیر قانونی تارکینِ وطن کو نکالنا چاہتی ہے جبکہ دکان دار، فیکٹری مالکان، فلنگ اسٹیشنز اور دیگر کاروباری اداروں کے مالک چاہتے ہیں کہ غیر قانونی تارکینِ وطن آتے رہیں کیونکہ وہ کم اجرت پر کام کرتے ہیں اور کام بھی زیادہ اور معیاری کرتے ہیں۔

پاکستان کے بہت سے علاقوں کے لوگ بیرونِ ملک کام کررہے ہیں اور آباد بھی ہوچکے ہیں۔ اِن لوگوں کے اہلِ خانہ اور خاندان کے افراد کی خوش حالی دیکھ کر بہت سوں کو ترکِ وطن کی تحریک ملتی ہے۔ وہ بھی جلد از جلد باہر جاکر اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تاکہ اُن کی زندگی بھی خوش حالی میں بسر ہو۔ اس حوالے سے برتی جانے والی عجلت پسندی نے بہت گل کھلائے ہیں۔ ہماری نئی نسل ترقی یافتہ دنیا کا حصہ بننے کی بے تابی میں شدید بے ذہنی برت رہی ہے، یعنی کسی نہ کسی طور کہیں جانا اور آباد ہونا چاہتی ہے۔ غیر قانونی طریقے اختیار کرتے ہوئے انجام کے بارے میں سوچنے کی زحمت کم ہی لوگ گوارا کرتے ہیں۔

ترقی یافتہ دنیا کا رُخ کرتے وقت یہ حقیقت فراموش یا نظر انداز کردی جاتی ہے کہ وہاں آباد ہونا اور کام کرنا ایسا آسان نہیں جیسا کہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی قانونی طریقے سے جاتا ہے تب بھی بہت سے قانونی تقاضے پورے کرنا ہوتے ہیں، اور غیر قانونی طریقے سے آباد ہونے کی کوشش میں تو قدم قدم پر کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگ معقول اُجرت بھی نہیں پاتے اور کام بھی بہت زیادہ کرنا پڑتا ہے، اور سب سے بڑی الجھن یہ کہ قانون نافذ کرنے والوں کی نظر سے بچ کے رہنا پڑتا ہے۔

ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ بیرونِ ملک یعنی کسی ترقی یافتہ ملک میں آباد ہونے کی خواہش کے ہاتھوں لاکھوں نوجوان اندرونِ ملک اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ایک زمانے سے اہلِ وطن یہ تماشا دیکھ رہے ہیں کہ اگر کوئی کسی ترقی یافتہ ملک میں آباد ہونے کا خواب دیکھتا ہے تو دن رات وہیں کے سپنے دیکھتا رہتا ہے اور اپنے ملک کو اپنی صلاحیت سے مستفید کرنے سے گریزاں رہتا ہے۔ لاکھوں نوجوان ایسے ہیں جو اپنے ماحول سے نالاں ہیں اور اپنے آپ کو مکمل طور پر بروئے کار لانے سے اجتناب برتتے رہتے ہیں۔ وہ طے کرلیتے ہیں کہ اب اگر کچھ کرنا ہے تو ملک سے باہر جاکر ہی کرنا ہے۔ باہر تو انسان جب جائے گا تب جائے گا۔ جب تک اپنے ملک میں ہے تب تک تو اُسے اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ مگر ایسا ہوتا نہیں۔ لوگ بیرونِ ملک کام کرنے کے خوابوں میں گم ہوکر حقیقت کی دنیا کو بھول بیٹھتے ہیں۔

اِس وقت معاشی امکانات کی تلاش میں کسی ترقی یافتہ ملک جانا ناکوں چنے چبانے جیسا ہے۔ ایک طرف تو قانونی پیچیدگیاں ہیں اور دوسری طرف غیر قانونی اور قانونی ہر دو طرح کے تارکینِ وطن سے بڑھتی ہوئی نفرت ہے۔ امریکہ اور یورپ میں تارکینِ وطن سے بیزاری کی لہر سی آئی ہوئی ہے۔ مقامی باشندے حکومتوں سے نالاں ہیں کیونکہ قانونی اور غیر قانونی تارکینِ وطن کے ہاتھوں اُن کے معاشی امکانات داؤ پر لگ گئے ہیں۔ مقامی آجر غیر ملکیوں کو ترجیحاً رکھتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں اُن کے لیے منافع کی سطح بلند کرنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔

ترکِ وطن بالکل ناپسندیدہ فعل نہیں۔ جس میں زیادہ صلاحیت ہو اور کام کرنے کی لگن بھی بھرپور ہو، وہ اپنے ملک میں نہ رہنا چاہے تو کوئی بات نہیں، بیرونِ ملک جاکر قسمت آزمائے۔ ویسے کوئی بھی ملک اِتنا گیا گزرا نہیں ہوتا کہ وہاں گزارا نہ ہوسکے۔ نئی نسل جس معاشرے سے الرجک رہتی ہے اُسی معاشرے میں لوگ زیادہ کام کرکے اُتنا ہی کماتے ہیں جتنا کسی ترقی یافتہ ملک میں کما سکتے ہیں۔ سوال ہنرمندی اور محنت کا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں گردشِ زر کی رفتار غیر معمولی ہے۔ ایسے میں ہر وہ شخص خوب کما سکتا ہے جو نوکری کے بجائے کاروبار پر متوجہ رہتا ہو۔ نئی نسل کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بیرونِ ملک جاکر ڈھنگ سے کام کرنے کے لیے لازم ہے کہ انسان پہلے اپنے ملک میں بھرپور محنت کرے، اپنے آپ کو ثابت کرے۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد ہی وہ باہر جاکر اپنے ملک کا نام روشن کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ وطن سے محبت شرط ہے۔

پاکستان جیسے ممالک کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ نوجوان اپنے ملک کی حدود میں کچھ کرنے سے گریزاں رہتے ہیں اور باہر کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ ترکِ وطن کی خواہش کے ہاتھوں ملک کو وہ بھی نہیں مل پاتا جو مل سکتا ہے۔ جو لوگ پاکستان کو چھوڑ کر کہیں اور جانے کا سوچتے رہتے ہیں اُنہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ بہت سے ممالک محض اس لیے پس ماندہ رہ گئے ہیں کہ اُن کے بہترین ذہن ملک سے نکل گئے ہیں۔ پاکستان کے لیے بھی ایسی ہی صورتِ حال پیدا ہوتی جارہی ہے۔ ترسیلاتِ زر تو بڑھی ہیں تاہم ملک میں اعلیٰ پائے کے ذہن کمیاب ہیں۔ یہ کیفیت خرابیوں کو جنم دے رہی ہے کیونکہ یہاں کے ادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے جارہے ہیں۔ کاروباری اداروں کو اہل افراد کی ضرورت رہتی ہے۔ اب اُنہیں اس حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اکاؤنٹنگ، آئی ٹی، ٹیچنگ اور دیگر اہم شعبوں کے معقول ترین افراد ملک چھوڑ رہے ہیں یا چھوڑنے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ ایسے میں ملک میں اعلیٰ درجے کی افرادی قوت کی شدید کمی مسائل پیدا کرتی جارہی ہے۔

ترکِ وطن کے حوالے سے نئی نسل کی موزوں راہ نمائی لازم ہے۔ اُسے بتایا جائے کہ اُس کی اولین ترجیح ملک و قوم ہے۔ اپنے وطن کو مضبوط کرنے کی صورت میں ہی وہ بیرونِ ملک پوری دل جمعی سے اپنے لیے کچھ کر پائیں گے۔ صلاحیت و سکت کے حامل کسی بھی فرد کے لیے لازم ہے کہ وطن سے محبت کو اپنی نفسی ساخت کا حصہ بنائے۔ وطن سے محبت کی صورت ہی میں وہ صمیمِ قلب کے ساتھ بیرونِ ملک کچھ کرسکیں گے اور وطن کی نیک نامی پر بھی متوجہ رہ سکیں گے۔

افرادی قوت کی برآمد کا معاملہ اگر حکومت اپنے ہاتھ میں لے تو بہت ہی اچھا ہو۔ حکومتی ادارے معیاری افرادی قوت تیار کرکے وطن کے اداروں کو فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ برآمد بھی کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں ملک کو ترسیلاتِ زر کے علاوہ بھی بہت کچھ مل سکے گا۔