تادمِ حیات دینی، فلاحی، سماجی اور اقامتِ دین کی تحریکی سرگرمیوں میں پورے طور سے مصروف رہے
بروز پیر 20 جنوری 2025ء کو جب اچانک مولانا عبدالوحید قریشی صاحب کے سانحۂ ارتحال کی خبر سنی تو دل بے اختیار ہی پناہ رنجیدہ اور آنکھیں آب دیدہ ہوگئیں۔ عبدالوحید قریشی مرحوم حیدرآباد جیسے بڑے شہر کے ایک بہت بڑے آدمی تھے۔ مرحوم تحریکی اور فلاحی کاموں کی بنا پر صرف حیدرآباد ہی کی شناخت نہیں تھے بلکہ ایک سچے، بے لوث اور مخلص خادمِ انسانیت ہونے کے ناتے سندھ اور بلوچستان کے دیگر شہروں کے تحریکی اور تحریک سے باہر کے حلقوں میں بھی بے حد ہر دل عزیز تھے۔
مولانا عبدالوحید قریشی مرحوم کی شخصیت بڑی من موہنی اور پیاری تھی، او وہ اپنی اس خوبی کے باعث پہلی ہی ملاقات میں ہر شخص کو اپنا گرویدہ بنا لیا کرتے تھے۔ راقم کی ان سے پہلی اور آخری بالمشافہ ملاقات لگ بھگ 20 برس پیشتر صوبائی دفتر جماعت اسلامی سندھ میں ہوئی تھی۔ میں نے انہیں ہر قسم کے تصنع اور بناوٹ سے یکسر پاک ایک بے حد سادہ، مخلص، خوب سیرت اور خوب صورت شخصیت کے طور پر پایا۔ سابق ایم پی اے سندھ اسمبلی اور جماعت اسلامی سندھ کے صوبائی رہنما ہونے کے باوصف مرحوم بے حد سادہ اطوار، وضع دار اور عوام میں گھل مل جانے والی عظیم شخصیت کے حامل ایک بے مثال فرد تھے۔ جب میرا پہلی ملاقات میں ان سے تعارف ہوا تو اندازہ ہوا کہ موصوف ایک بے حد کھرے اور صاف گو انسان بھی ہیں، اور بغیر کسی رکھ رکھائو کے حق بات منہ ہی پر کہہ دینے کے خوگر ہیں۔ مرحوم کو جب میرے مؤقرہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں لکھنے کے بارے میں علم ہوا تو فوراً برملا یہ کہہ کر میری بیک وقت حوصلہ افزائی اور ’’عزت افزائی‘‘ کرڈالی کہ ماشاء اللہ آپ کی تحاریر تو اکثر نظر سے گزرتی ہیں لیکن شدید مصروفیت کی وجہ سے انہیں پورے طور پر پڑھنے کا موقع مجھے کم ہی مل پاتا ہے۔ بہرکیف اپنی اوّلین ملاقات ہی میں، میں نے انہیں زعمِ تقویٰ اور خبطِ عظمت سے قطعی طور پر عاری ایک بے حد دل نواز شخصیت کے طور پر پایا۔ دورانِ گفتگو میں نے انہیں اردو کے ساتھ ساتھ سندھی زبان کو بھی اہلِ زبان ہی کی طرح سے بولتے ہوئے دیکھا درآنحالیکہ ان کے آبا و اجداد ہندوستان سے ہجرت کرکے حیدرآباد تشریف لائے تھے جو بہرحال اس لیے بھی ایک بے حد قابلِ تعریف امر قرار پاتا ہے کہ انہوں نے خود کو پورے طور سے مقامی رنگ میں رنگ لیا تھا۔ جب رات آئی تو مرحوم عبدالوحید قریشی نے فرمایا کہ میں دفتر میں موجود دو بڑی میزوںکو باہم جوڑ کر ان پر سوئوں گا اور دیرینہ کمر درد کی بنا پر میرا یہ معمول برسوں ہی سے چلا آرہا ہے۔ اور پھر انہوں نے یہی کچھ کیا اور میزوں ہی کو یک جا کرکے ان پر محوِ استراحت ہوگئے۔
حیدرآباد میں مرحوم عبدالوحید قریشی کی شناخت اور پہچان جہاں تحریکی امور تھے، وہیں پر فلاحی اور سماجی سرگرمیوں نے بھی انہیں ناموری اور قبولیتِعام عطا کررکھی تھی۔ مرحوم کی شخصیت میں تحرّک اور فعالیت انتہا درجے کی تھی اور وہ عمرِ عزیز کے 82 ویں برس میں بھی تادمِ حیات دینی، فلاحی، سماجی اور اقامتِ دین کی تحریکی سرگرمیوں میں پورے طور سے مصروف رہے۔ ان کے دروازے ہمہ وقت ضرورت مند افراد کے لیے وا رہا کرتے تھے۔ ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر وہ اپنے دن رات کے بیشتر اوقات میں خدمتِ خلق کیا کرتے تھے۔ جب کوئی بھی سائل یا ضرورت مند کسی بھی حوالے سے مرحوم سے ملاقات کرکے ان کے سامنے عرضِ تمنا کیا کرتا تھا تو اُس کی آدھی کوفت، پریشانی، تکلیف یا اذیت تو مرحوم کا مشفقانہ لب و لہجہ، دل جوئی اور اظہارِ ہمدردی دیکھ کر ہی کافور ہوجایا کرتی تھی۔ بلاشبہ مرحوم و مغفور عبدالوحید قریشی برگد کے گھنے اور سایہ دار درخت یا ایسے شاہِ بلوط کی مانند شخصیت کے حامل تھے جس کے زیر سایہ رنج و الم اور کرب کے مارے اپنی پریشانیوں، مسائل اور مصائب کو بھلا کر راحتِ جاں افزا محسوس کیا کرتے تھے۔ مولانا مرحوم کی پُرکشش شخصیت کو جناح کیپ کا استعمال اور بھی چار چاند لگادیا کرتا تھا۔ وہ دن ہو یا رات…دکھی انسانیت کے درد کا درماں کرنے کے لیے ہمہ وقت ہی مصروف رہا کرتے تھے۔ آہ ایسی عمدہ اطوار کی حامل، عوام کے دکھ درد سے آگاہ اور انہیں حل کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں کوئی اور بے لوث شخصیت دوبارہ کب اور کیسے مل پائے گی؟ بظاہر تو ان کا متبادل کجا، پاسنک بھی ملتا ہوا کوئی دور، دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ ہاں البتہ اللہ جو مسبب الاسلاب ہے اگر اسے رحم آجائے تو پھر کچھ بعید نہیں ہے۔ میں نے جب بھی مرحوم و مغفور عبدالوحید قریشی سے کسی ضرورت مند یا سائل کے کسی مسئلے کے حل کی خاطر رابطہ کیا تو انہوں نے فی الفور بلا توقف بڑی خوش دلی کے ساتھ ہمیشہ ہی اپنی آمادگی کا اظہار کیا اور حتی المقدور اس حوالے سے کد و کاوش کی جس کا اجرِ عظیم اِن شاء اللہ تعالیٰ انہیں روزِ آخرت مل کر رہے گا۔
معروف جرأت مند صحافی، کالم نگار، دانش ور اور چار عدد مختلف النوع موضوعات پر مبنی وقیع کتب کے مصنف اور مؤلف جناب عبدالتواب شیخ از سکرنڈ ضلع نواب شاہ نے راقم کو بتایا کہ ایک مرتبہ وہ کسی کام کے سلسلے میں جب مرحوم عبدالوحید قریشی سے حیدرآباد میں ملے تو مرحوم جہاں اُس وقت موجود تھے وہاں سے بلاتردد ہی پیدل اُن کے ہمراہ خاصا فاصلہ طے کرکے مطلوبہ مقام تک باتیں کرتے جا پہنچے۔ نہ کوئی ناز اور نہ ہی کوئی نخرہ یا کوئی سواری وغیرہ کروانے کا تقاضا۔ بس ایسے ہی تھے بڑائی، عظمتِ کردار اور عمل کے حامل مرحوم و مغفور مولانا عبدالوحید قریشی۔ اللہ ان کی قبر پر اپنی بے پناہ اخروی رحمتوں کا نزول فرما ئے اور اسے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے، آمین۔ شاید ان کا یہی اخلاصِ نیت، سادہ اطوار، للہیت (اور خدمت ِ خلق کی بے لوث سرگرمیاں جو انہوں نے بلا امتیاز تادمِ آخر سرانجام دیں) ہی کی وجہ سے ان کے دونوں صاحب زادوں کے کاروبار میں اللہ رب العزت نے خوب خوب خیر و برکت عطا کررکھی ہے اور ماشاء اللہ وہ باوسائل بھی ہیں اور اصحابِ خیر بھی۔
راقم کا مرحوم و مغفور عبدالوحید قریشی سے آخری مرتبہ رابطہ بذریعہ موبائل فون دو، تین ماہ پیشتر ہی ہوا تھا۔ میں نے اپنے شہر کے ایک بیمار فرد کے پِتّے کا آپریشن کروانے کے سلسلے میں ان سے گزارش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مریض بے چارہ آپریشن کے علاج کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہے، آپ مہربانی فرماکر حیدرآباد کے کسی سرکاری اسپتال میں اس کا آپریشن کروا دیں، تو جواباً فوراً ہی انہوں نے اس پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جی آپ بلاجھجک مریض کو میرے پاس حیدرآباد بھیج دیں، اِن شاء اللہ اس کا آپریشن ہوجائے گا، میرے ساتھ رابطے میں تین سرجن ہیں، جس سے بھی مریض نے کہا اُسی سے اُس کا آپریشن کروا دوںگا، آپ اور مریض قطعی بے فکر ہوجائیں۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ آپ مجھے اپنے مریض کا رابطہ نمبر سینڈ کردیں، میں متعلقہ ڈاکٹر صاحب سے کہوں گا کہ وہ خود ہی ان سے رابطہ کرلیں۔ اور پھر واقعتاً ایسا ہی ہوا۔ مرحوم کے کہنے کے مطابق حیدرآباد سے ایک ڈاکٹر صاحب نے مریض سے رابطہ کرکے اُس کی پوری رہنمائی کرتے ہوئے اُسے تسلی دی۔ یہ اور بات ہے کہ مریض کسی وجہ سے اپنے پتے کا آپریشن کروانے حیدرآباد نہیں جا سکا۔
تاہم اس طرح کے اَن گنت نیکی اور فلاح و بہبود، خیر و برکت کے بے لوث اور بے ریا انداز میں سرانجام دیے گئے امور اِن شاء اللہ مرحوم و مغفور عبدالوحید قریشی کے لیے صدقۂ جاریہ اور توشۂ آخرت ثابت ہوں گے۔
مرحوم نے متحدہ قومی موومنٹ کے دورِ عروج میں بھی جس دلیری، بہادری اور جرأتِ رندانہ کے ساتھ اس کے گڑھ میں رہتے ہوئے بھی اپنی تحریکی اور فلاحی سرگرمیاں جاری رکھیں، اس نے انہیں ہر طبقۂ فکر سمیت متحدہ کے نوجوانوں میں بھی شرفِ قبولیت، ہر دل عزیزی اور نیک نامی عطا کررکھی تھی۔ مرحوم حیدرآباد کے سیاسی حلقوں سمیت سماجی، فلاحی، دینی، علمی، ادبی اور طبی حلقوں میں بھی من پسند گردانے جاتے تھے۔ وفات کے بعد ان کی دائمی جدائی کا صدمہ حیدرآباد سمیت سندھ اور بلوچستان تک میں محسوس کیا گیا ہے۔ ان کی نمازِ جنازہ سابق امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے پڑھائی جس میں جماعت اسلامی کے اہم رہنمائوں اور کارکنان سمیت ہر شعبۂ فکر سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔ یہ حقیقت ہے اور صد فیصد سچائی پر مبنی حقیقت کہ مرحوم و مغفور عبدالوحید قریشی کی دائمی جدائی کا صدمہ جہاں اُن کے چاہنے والوں کے دلوں میں تادیر قائم اور برقرار رہے گا وہیں ان جیسی اوصافِ حمیدہ کی حامل عظیم شخصیت کے رخصت ہونے کی وجہ سے پیدا شدہ خلا بھی مدتوں پُر نہیں ہوسکے گا۔
آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر
اب ڈھونڈ انہیں چراغ رُخِ زیبا لے کر