چاغی کے صحرا میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کا جلسہ عام اور کوئٹہ میں پختون قوی جرگہ

حکومتیں عوام کا مینڈیٹ غصب کرکے بنائی جائیں گی تو نتیجہ افراتفری اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں ہی برآمد ہوگا

گزشتہ ہفتے بلوچستان میں دو بڑی سیاسی سرگرمیوں کا انعقاد ہوا۔ صوبے کے صدر مقام کوئٹہ میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے تحت چار روزہ پشتون اولسی (قومی) جرگے کا اہتمام کیا گیا، جس کا آغاز 24 جنوری کو، جبکہ اختتام27 جنوری کو ہوا۔

دوسرا سیاسی اجتماع ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین میں منعقد ہوا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام چاغی کے صحرا اور دشت میں منعقدہ یہ جلسہ عام حاضری کے لحاظ سے متاثر کن تھا۔ ’بلوچ یکجہتی کمیٹی‘ بلوچ عوام کا رہنما پلیٹ فارم ثابت ہوا ہے۔ اس کی قیادت نوجوان لڑکی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کررہی ہیں۔ چند دیگر لڑکیاں بھی صفِ اول میں کھڑی ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے گوادر، کوئٹہ، نوشکی، کوہلو سمیت جہاں جہاں اجتماع کیے ہیں بلوچ مرد و زن ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوئے ہیں۔ وڈیروں اور بڑے بڑے زمینداروں کے زیراثر علاقے نصیرآباد میں بھی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا استقبال اور اجتماع دیدنی تھا۔

چاغی افغانستان اور ایران سے متصل ضلع ہے۔ یہ وسیع ضلع ریگستان، بیابان اور چٹیل پہاڑوں پر مشتمل ہے، جہاں ہر طرف افلاس اور درماندگی دکھائی دیتی ہے۔ عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ کوئٹہ تفتان شاہراہ… جسے لندن روڈ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس شاہراہ پر ایران اور وہاں سے ترکیہ، بعد ازاں یورپ کا سفر کیا جاتا ہے، یورپ سے آ نے والے اس شاہراہ کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں… بین الاقوامی تو دور کی بات، کسی لحاظ سے قومی شاہراہ کا معیار بھی نہیں رکھتی۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تنگ سڑک حادثات کے لیے مشہور ہے۔ کوئٹہ سے تفتان (جو ایران سے متصل پسماندہ شہر ہے) تک کسی قسم کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ ریکوڈک اور سیندک کے مقام پر سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر اس ضلع میں موجود ہیں۔ سیندک چین کے تصرف میں ہے، جبکہ ریکوڈک کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ کو معاہدے کے تحت دیا گیا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور دوسری بلوچ جماعتیں انہیں استحصالی منصوبے قرار دیتی ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے دالبندین جلسہ عام سے… جس میں ہزاروں مرد و خواتین نے شرکت کی… براہوی، بلوچی، اردو اور انگریزی میں خطاب کیا۔ انگریزی خطاب میں سرمایہ کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ یہاں نہ آئیں اور بلوچستان کے عوام کے استحصال کا حصہ نہ بنیں۔

صوبے پر مسلط کی گئی حکومت کے افراد یوں بیان کرتے ہیں جیسے بلوچستان نے ترقی، آسودگی اور خوشحالی کی منزلیں سر کرلی ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وفاق کی حکومت کے لیے ’’اردلی‘‘ حکومت کی اصطلاح وضع کردی ہے۔ بلوچستان میں بھی اردلیوں کی حکومت قائم ہے۔ اس حکومت نے دالبندین اجتماع کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جلسے سے پہلے چاغی اور اس سے ملحقہ نوشکی اور خاران کے اضلاع میں چار دن انٹرنیٹ سروس اور دو دن تک موبائل فون سروس بند رکھی گئی۔ کسٹم، ایف سی، پولیس، لیویز کو نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے خلاف کارروائیوں کی تاکید کی گئی۔ کوئٹہ سے باہر اضلاع میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ مقصد اس فرمان کا یہ تھا کہ لوگ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جلسہ عام میں شریک نہ ہوں۔ صوبے کی حکومت نے یہ اوچھا بیان تک جاری کیا کہ ’’چند شرپسند عناصر نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جلسہ عام کے اختتام پر ممنوعہ اشیاء بشمول اسلحہ شرکاء کی گاڑیوں میں چھپاکر بلوچستان کے مختلف علاقوں اور ملک کے دیگر علاقوں میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے‘‘۔ بعدازاں سابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے حکومت اور اداروں کے حق میں ریلی نکلوائی گئی۔ دالبندین شہر میں گشت کیا گیا۔ دراصل حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی عمل داری قائم کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ ممنوعہ اشیاء اور اسلحہ منتقلی کا سدباب تو تب کیا جائے جب سرکار کی عمل داری قائم ہو۔ یہاں تو بلوچ مسلح گروہوں کی مختلف اضلاع اور علاقوں میں رٹ قائم ہے۔ حکومتیں سیاسی فضا ہموار کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کا ظہور، عروج اور مقبولیت بھی اردلی حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے ہے، جن کی آج حیثیت اور شناخت عالمی بن چکی ہے۔ حکومتیں عوام کا مینڈیٹ غصب کرکے بنائی جائیں گی تو نتیجہ افراتفری اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں ہی برآمد ہوگا۔ المیہ ہے کہ اب نگران حکومتیں بھی اردلیوں پر مشتمل ہوتی ہیں جو عوام کا مینڈیٹ چرانے میں سہولت کاری کرتی ہیں۔

پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے مذکورہ جرگے نے بھی صوبے کے عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ یہ صوبہ خیبر پختون خوا کے علاقے بنوں میں مارچ2022ء میں منعقد ہونے والے پشتون اولسی جرگے کا تسلسل ہے۔ بنوں جرگے میں ہر شعبۂ زندگی اور ہر مکتبۂ فکر کے پشتون شریک ہوئے تھے۔ بلوچستان کے پشتون اضلاع ژوب، چمن، لورالائی اور سبی کے بعد کوئٹہ میں جرگے کا انعقاد کیاگیا، اس میں محمود خان اچکزئی شریک رہے، ہر روز کے سیشن سے خطاب کیا۔ ان ایام میں مدعو سرکردہ قبائلی، سیاسی لوگوں اور اپنے شعبوں کے ماہرین نے تقاریر کیں۔ امن کی صورتِ حال، معاشی اور سیاسی بے اعتمادی کی فضا زیربحث لائی گئی۔ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات سے لے کر پانی، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی جیسے موضوعات پر بات کی گئی۔ چناں چہ اختتام پر چار روزہ جرگے کا حاصل قراردادوں اور اعلامیے کی صورت میں بیان کیا گیا۔ اعلامیے میں 26 نومبرکو اسلام آباد میں تحریک انصاف کے کارکنوں پر فائرنگ کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غیر نمائندہ حکومت ان خاندانوں سے معافی مانگے۔ عمران خان سمیت عام سیاسی کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیاگیا۔ 26نومبر کو فائرنگ سے ہلاکتوں کا ذمہ دار وزیراعظم پاکستان، وزیر داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور اسٹیبلشمنٹ کے افراد کو قرار دیا گیا کہ جن کے کہنے پر گولیاں چلائی گئیں۔ پاک افغان سرحد پر آمدورفت، تجارت کی بندش اور پابندیوں کی مذمت کی گئی اور انہیں ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ شرکاء کی اکثریت نے غیر مقامی افراد کو معدنیات نکالنے کے نام پر زمینوں کی الاٹمنٹ پر تنقید کی۔ اس عمل کو غیرآئینی اور غیر قانونی کہا گیا اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیاگیا۔ یہ کہا گیا کہ جن علاقوں میں معدنیات پائی جاتی ہیں وہاں حالات خراب کرکے مقامی لوگوں کی بے دخلی کی کوشش کی جاتی ہے، بعد ازاں ان علاقوں کو اپنے اختیار میں لے لیا جاتا ہے۔ اشارہ فوج اور اداروں کی طرف ہے۔ اعلامیے میں جملہ مسائل کا حل یہ بتایا گیا کہ فارم47کی حکومت فوری مستعفی ہو، چار ماہ کے لیے ایک قومی حکومت اس کام کے لیے تشکیل دی جائے جو ایک نئے، صحیح خودمختار الیکشن کمیشن کی نگرانی میں صاف شفاف انتخابات کرائے اور ایک واقعی جمہوری، وفاقی اور آئینی فیڈریشن کی تشکیلِ نو کرے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ ہمسایہ ملک افغانستان میں کئی دہائیوں سے بدامنی جاری و ساری ہے، نتیجتاً افغانستان اپنے صدیوں کے تمام تہذیبی، تمدنی، علمی اور ثقافتی ورثوں کی بربادی کے ساتھ لاکھوں انسانوں کی شہادت، مہاجرت اور ہر قسم کی انسانی تکلیفوں اور المیوں سے دوچار ہوا جس کے ذمہ دار سابق سوویت یونین اور اس کے حمایتی ممالک، امریکہ اور اس کے حمایتی ممالک ہیں۔ پیکا ایکٹ کی بھی مذمت کی گئی۔ اس ایکٹ کا مقصد دراصل مخالفین کی رائے دبانا اور زبان بندی کرنا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ پیکا ایکٹ کا مقصد ناجائز نظام کے خلاف آواز دبانے کی کوشش ہے۔ سیاسی مزاحمت کرنے والی جماعتوں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی جیسی تحریکوں نے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر انحصار ختم کردیا ہے۔یہ ادارے کلی طور پر کنٹرولڈ ہیں، اس بنا پر ان سے شنوائی اور ابلاغ کی توقع مزید وابستہ نہیں رہی۔ اب سیاسی جماعتیں اور تحریکات سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک اپنا پیغام و بیانیہ پہنچاتی ہیں۔ غرض جعلی حکومت کو جعلی خبروں کی روک تھام کا بیانیہ پیش کرنا زیب نہیں دیتا۔