5 فروری یوم یکجہتی کشمیر:تقسیم کشمیر کا کوئی فارمولا ہمیں قبول نہیں

پانچ فروری، یومِ یک جہتیِ کشمیر کی مناسبت سے جموں وکشمیر پیپلز فریڈم لیگ کے چیئرمین،کُل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے راہنما محمد فاروق رحمانی سے گفتگو

فرائیڈے اسپیشل: یومِ یک جہتیِ کشمیر ایک تاریخی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اِس سال یہ دن بھارتی انتخابات اور 5 اگست2019ء کے واقعے کے چار پانچ سال کے بعد آرہا ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک کے لیے مسلح جدوجہد سے آج تک کا اگر آپ تجزیہ کریں تو کیا کہیں گے؟

محمد فاروق رحمانی: پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے، مجھے آپ اجازت دیں تو ذرا کھل کر آپ کے اس اہم سوال کا جواب دوں۔ دیکھیں 5 فروری 1990ء اور آج 5 فروری2025ء، یہ پورے 35 سال کا عرصہ بنتا ہے۔ ہم بھی دیکھ رہے ہیں اور آپ بھی کہ ہر سال پانچ فروری کو گزشتہ سال کی نسبت کم اہمیت ملتی ہے۔ مجھے پانچ فروری کا پہلا یوم یک جہتی کشمیر یاد ہے، اُس وقت پوری پاکستانی قوم یک زبان تھی اور کشمیر کی آزادی کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار تھی۔ آج بھی پاکستانی قوم کا جذبہ ویسا ہی ہے تاہم دنیا اور خاص طور پر مسلم دنیا میں بہت فرق آچکا ہے۔ نائن الیون کے بعد تو مسلسل نئی نئی پابندیاں لگ رہی ہیں، اور 5 اگست 2019ء کے واقعے کے بعد تو صورتِ حال یکسر بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ان پینتیس سالوں میں اب ہمارے سامنے ایک ایسی نسل ہے جس کی ترجیح ماضی کی نسبت کچھ مختلف ہے۔ آج دنیا میں ٹیکنالوجی کا راج ہے اور جنگیں بھی اسی کی مدد سے لڑی جاتی ہیں۔ کشمیری قوم کا تحریکِ حریت کے دوران میں جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی آج تک نہیں ہوسکی، اور اس وجہ سے تحریکِ حریت بھی بہت متاثر ہوئی ہے اور دنیا بھی بدل چکی ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: کیا کچھ بدل گیا ہے؟

محمد فاروق رحمانی: بہت کچھ بدل گیا ہے، سب کچھ بدل گیا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: کیا کسی نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے؟

محمد فاروق رحمانی: جی بالکل، آج مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے جو پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور جس طرح وہاں بھارت کی فوجیں قابض ہیں، ان کے خلاف پاکستان نے ہمیشہ اپنے بھائی بہنوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کی کشمیر کاز کے ساتھ وابستگی اٹل ہے، اور میرا دل گواہی دیتا ہے کہ ایک دن کشمیر ضرور آزاد ہوگا، کشمیری عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور وہ آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں گے۔ ہمارے معاشی چیلنجز ہیں جن میں اضافہ ہورہا ہے، ایک بہتری یہ آئی ہے کہ 5 اگست 2019ء کی دھند کے اثرات ختم ہوچکے ہیں۔ بھارت کا جبر انجام کو پہنچے گا، تقسیمِ کشمیر کا کوئی فارمولا ہمیں قبول نہیں۔ یہ حقیقت تو پوری عالمی برادری کے لیے اظہرمن الشمس ہے کہ کشمیری عوام نے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کی قربانیاں دے کر اور بھارتی فوجوں کے ظلم و جبر کا ہر ہتھکنڈہ برداشت کرتے ہوئے استقامت کے ساتھ جاری رکھی ہوئی ہے، اور گزشتہ 76 برس کے دوران کسی ایک مرحلے پر بھی ان کے پائے استقلال میں کبھی لرزش آئی نہ انہوں نے کبھی اپنے کاز پر کسی مفاہمت کا سوچا، مگر بھارت کی ہندو لیڈرشپ کی نیت میں شروع دن سے ہی فتور تھا اور ہے، اس میں کلیدی کردار بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا ہی تھا جنہوں نے ایجنڈے کے تحت کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کرکے اس کے غالب حصے پر تسلط جمالیا جس کا اصل مقصد پاکستان کو کمزور کرنا تھا۔ نہرو نے ہی کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا اور اپنے ہی پیدا کیے گئے تنازع کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا، تاہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی متعدد قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کا حقِ خودارادیت تسلیم کرتے ہوئے اپنے خصوصی ایلچی کی نگرانی میں مقبوضہ وادی میں استصواب کے اہتمام کی بھارت کو ہدایت کی، مگر نہرو نے اقوام متحدہ کے فورم پر استصواب کے اہتمام کا وعدہ کرنے کے باوجود یواین قراردادوں سے انحراف کیا اور بھارتی آئین کی دفعہ 370 میں ترمیم کرکے اور دفعہ 35 میں شق اے کا اضافہ کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا جس میں آزادی کی تڑپ رکھنے والے کشمیریوں کا جینا دوبھر کردیا گیا۔ نہرو نے خود کشمیریوں کو ان کا حق دلوانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن حقیقت اس کے قطعی برعکس ہے اور کشمیریوں کے حقوق غصب کرنے کی بنیاد نہرو نے ہی رکھی، جس پر اُن کے بعد آنے والی بھارتی حکومتیں بھی عمل پیرا رہیں اور کشمیریوں کی آزادی کی آواز دبانے کے لیے آج کے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سمیت کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مودی سرکار تو پاکستان اور مسلم دشمنی کے ایجنڈے کے تحت کشمیریوں کی نسل کُشی اور انہیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی راہ پر گامزن ہے جس کے لیے مودی نے اپنے دوسرے دورِ حکومت کے آغاز ہی میں کشمیر کی خودمختار حیثیت والی آئینی شقیں ختم کراکے اسے 5 اگست 2019ء کو باقاعدہ بھارتی اسٹیٹ یونین کا حصہ بنالیا اور اپنے اس جبری اقدام کے خلاف دنیا بھر میں اٹھنے والی کسی بھی آواز پر کان نہیں دھرے، جبکہ وہ اس حوالے سے سلامتی کونسل میں منظور کی گئی قراردادوں کو بھی خاطر میں نہیں لائے۔ مودی سرکار کے مقبوضہ وادی کو بھارت میں ضم کرنے کے اس جبری اقدام کو آج تقریباً دو ہزار دن ہوچکے ہیں اور ابھی تک مقبوضہ وادی 9 لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں کے نرغے میں ہے جنہوں نے نقل و حمل، مواصلات اور انٹرنیٹ سروس سمیت ہر چیز بند کرکے کشمیریوں کو گھروں میں محصور اور ہر آزادی سے محروم رکھا ہوا ہے۔ اس کے باوجود بھارت کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں کرسکا، اور بھارتی جاری مظالم کے خلاف کشمیری عوام نے 26 جنوری کو یوم سیاہ منایا۔ اگر جواہر لال نہرو نے کشمیریوں کو اُن کا حق دلانے کا کوئی وعدہ کیا تھا، جس کا کوئی ثبوت جدوجہد ِآزادیِ کشمیر کے ریکارڈ پر موجود نہیں تو کشمیریوں کے لیے اپنی آزادی کے حق کی خاطر لاکھوں جانیں قربان کرنے اور اب تک بھارتی فوجوں کے ہاتھوں محصور بنے رہنے کی نوبت کیوں آتی؟

فرائیڈے اسپیشل: مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کیا صورتِ حال ہے؟

محمد فاروق رحمانی: وہاں کی اگر کُل آبادی ملائی جائے تو95 فی صد آبادی مسلمان ہے، لیکن بھارت وہاں مسلسل ڈیموگرافی تبدیل کررہا ہے، باہر سے ہندوؤں کو لاکر بسایا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھارت کے بدترین سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اور اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اقلیتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے اعتبار سے سب سے محفوظ اور سازگار ملک ہے، جبکہ بھارت اس معاملے میں بدترین ملک ہے جہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی زندگیاں محفوظ ہیں نہ انہیں مذہبی آزادیاں حاصل ہیں۔ بھارت کے اس سلوک نے اُس کے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تعاون کے عزم کا اظہار کیا ہے جو بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کو کرتار پور صاحب، گردواروں اور ان کے دیگر مذہبی مقامات پر جانے کی سہولت دینے سے ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستان سکھ اور ہندو یاتریوں کا یکساں طور پر گرم جوشی سے خیرمقدم کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت میں آج جنونی ہندو معاشرہ غالب آچکا ہے، وہاں انتہا پسند مودی سرکار کی سرپرستی میں آج ہندوتوا کو فروغ مل رہا ہے، اور ہندو انتہا پسند عملاً انسانیت کے قاتل بن چکے ہیں جنہوں نے مسلمان اقلیتوں کا ہی جینا دوبھر نہیں کیا، بلکہ بھارت میں آباد دوسری اقلیتوں اور دلت ہندوؤں کو بھی راندۂ درگاہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مسلمان اقلیتوں کے ساتھ تو بھارت کی انتہا درجے کی مخاصمت ہے، کیونکہ وہ پاکستان کی بھارت کی کوکھ سے تشکیل کے ناتے سے مسلمانوں کو اکھنڈ بھارت کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ اسی پس منظر میں بھارت نے اپنے ناجائز زیرِ تسلط کشمیر میں مسلمانوں کو گزشتہ 76 برس سے بدترین ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنا رکھاہے۔

فرائیڈے اسپیشل:آل پارٹیز حریت کانفرنس نے بھی اپنے اجلاس میں بھارتی ریاستی دہشت گردی اور ظالمانہ فوجی پالیسی کی مذمت کی ہے۔

محمد فاروق رحمانی:بھارت نے پاکستان کو دبائے رکھنے کی نیت سے ہی کشمیر پر اپنا تسلط جمایا اور تقسیم ہند کے ایجنڈے کے برعکس اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں ہونے دیا، جبکہ اس کے جنونی توسیع پسندانہ عزائم سے اس پورے خطے اور عالمی امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اگر اقوام عالم کو دنیا کی بقاء و ترقی مقصود ہے تو پھر بھارت کے ہاتھ روکنے کے لیے نمائندہ عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں کو عملیت پسندی پر مبنی ٹھوس کردار ادا کرنا ہو گا۔ بھارت سرکار تو اکھنڈ بھارت کے جنون میں اقوام ِعالم کی سلامتی غارت کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیری عوام 5 جنوری کویوم حقِ خودارادیت مناتے ہیں، اِس سال بھی یومِ حق خودارادیت اس تجدیدِ عہد کے ساتھ منایا گیاکہ بھارتی تسلط سے نجات کے لیے جدوجہدِ آزادی جاری رکھی جائے گی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 5 جنوری 1949ء کو ایک قرارداد منظور کی جس میں رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تھا، لیکن بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سلامتی کونسل کی اس قرارداد پر عمل درآمد نہیں کیا۔ کشمیری عوام نے اس بھارتی جبر و تسلط کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور وہ 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر پر غیرقانونی بھارتی فوجی قبضے سے آج تک آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس جدوجہد میں کشمیری عوام جانی و مالی قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی درجن بھر قراردادوں پر عمل درآمد کرنا تو کجا، اس نے 5 اگست 2019ء کو آئین کی دفعات 370، اور 35-A کو حذف کرکے مقبوضہ وادی پر مکمل طور پر قبضہ کرلیا ہے۔ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں بھارت پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے۔ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ نہتے اور مظلوم کشمیری عوام گزشتہ 76 سال سے اپنی آزادی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بھارت کا گھناؤنا کردار بے نقاب ہوا ہے۔ بھارت پر امریکہ، کینیڈا اور دوسرے مغربی ممالک میں بھی ٹارگٹ کلنگ مہم چلانے کا الزام ہے جس کے باعث بھارت بین الاقوامی سطح پر سخت تنقید کی زد میں ہے اور اس معاملے میں امریکہ اور کینیڈا کے ساتھ بھارت کے سفارتی تعلقات متعدد بار خراب ہوچکے ہیں۔ ان ممالک کی جانب سے بھارت پر مختلف پابندیاں بھی عائد ہوچکی ہیں۔ حقائق و شواہد کی روشنی میں بھارت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ کینیڈا اور امریکہ میں بھارتی خفیہ ایجنسی نے سکھ رہنماؤں کو قتل کیا۔ اس سلسلے میں نئی دہلی میں ’’را‘‘ کے افسر وکاش یادیو نے نیویارک میں سکھ علیحدگی پسند رہنماء پر قاتلانہ حملے کی ہدایات جاری کیں اور اس قتل کے لیے اپنے ایجنٹ کو ایک مقامی قاتل کی خدمات حاصل کرنے کی ہدایت کی۔ کینیڈین حکام کی جانب سے بھی بھارتی سفارت کاروں اور ’’را‘‘ کی دہشت گردی کو بے نقاب کیا جا چکا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ بھارت اس خطے میں اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو ہمہ وقت آمادہ و تیار رہتا ہے۔ اس کا یہ ایجنڈا ہندو انتہا پسندی کے فروغ پر مبنی ہے۔ پاکستان کی سلامتی کو کسی بھی طریقے سے نقصان پہنچانے کا بھارتی ایجنڈا تو قیامِ پاکستان کے وقت ہی طے پا گیا تھا جس پر عمل کرنے میں بھارت کی کسی بھی حکومت نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز کی دہشت گردی کا سلسلہ گزشتہ 76 سال سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اب تک لاکھوں کشمیری اس بھارتی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل: بھارت میں غیر ہندوؤں کی آبادیوں میں کیا مسائل ہیں؟

محمد فاروق رحمانی: بھارت کے ہندو انتہا پسندانہ کلچر میں بھارت کے اندر بھی غیرہندو اقلیتوں کی زندگیاں اجیرن ہوچکی ہیں، بالخصوص مسلمانوں کو تو عملاً دیوار کے ساتھ لگایا جا چکا ہے جن پر ہندو انتہا پسندوں کے حملے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ بھارت کا یہ جنونی، انتہا پسند اور علاقائی و عالمی امن کے لیے سنگین خطرے کی گھنٹی بجانے والا چہرہ اقوام عالم میں مکمل بے نقاب ہوچکا ہے اور پاکستان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی بھارتی توسیع پسندانہ، دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ دراز ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسی بنیاد پر کچھ عرصہ قبل ایک امریکی جریدے نے اپنی رپورٹ میں بھارت کو عالمی نمبر ون دہشت گرد ریاست قرار دیا تھا جس میں پاکستان، ایران، افغانستان اور سری لنکا کے علاوہ متعدد مغربی ممالک میں بھی بھارتی دہشت گردی کی وارداتوں کے ثبوت پیش کیے گئے، مگر توسیع پسندانہ عزائم میں بھارت کی سرپرستی کرنے والے امریکہ نے امریکی جریدے کی اس رپورٹ پر بھی اپنی آنکھیں دانستہ بند کیے رکھیں۔ آج بھارت اپنے قطعی غیرمحفوظ ایٹمی ہتھیاروں کے باعث بھی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرات پیدا کرچکا ہے، جبکہ اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت بھارت کینیڈا اور امریکہ سمیت دوسرے مختلف ممالک میں بھی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کرکے علاقائی اور عالمی امن کی تباہی کا اہتمام کرتا نظر آرہا ہے۔ اگر اقوام عالم کی جانب سے بھارت کے جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند نہ باندھا گیا تو اس کے ہاتھوں دنیا کی تباہی دیوار پر لکھی نظر آرہی ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: آخر کب تک صورتِ حال آپ کے حق میں یکسر تبدیل ہوجائے گی؟

محمد فاروق رحمانی: مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کا گزشتہ 76برسوں سے غاصبانہ اور ناجائز قبضہ ہے، اور بھارت اس غیر قانونی و غیر آئینی قبضے کو ہر گزرتے دن کے ساتھ دوام بخشنے کے نت نئے حربے اور ہتھکنڈے آزما رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے جہاں ان بھارتی منصوبوں میں شفافیت اور جواب دہی کی خامیوں پر سوال اٹھائے ہیں، وہیں مقبوضہ خطے میں مقامی آبادی کے حقوق اور معاشی تحفظ کے برعکس ایسی تعمیرات نہ صرف جمہوری طرزِ حکمرانی کے اصولوں کے برخلاف بلکہ اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی بھی بنیادی خلاف ورزی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بنیادی ڈھانچے کے منصوبے یہاں تعینات دس لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں کی نقل و حرکت کو آسان بنانے کی غرض سے تعمیر کیے جاتے ہیں۔ یہ اقدامات بھارت کی جانب سے اپنے فوجی قبضے کو دوام بخشنے کی غرض سے کیے جاتے ہیں جو پہلے سے غیر مستحکم صورتِ حال کو مزید ابتر بنانے کا باعث ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں کی بڑھتی ہوئی نقل و حرکت یہاں بھارت کے ساتھ اختلافِ رائے رکھنے والوں پر مزید جارحانہ کریک ڈائون کا باعث بن سکتی ہے، جس سے کشیدگی میں کمی نہیں بلکہ مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔کیونکہ یہ تاثر ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا جارہا ہے کہ ایسے منصوبے ترقیاتی اہداف کے بجائے فوجی مفادات اور مقاصد کو پورا کرتے ہیں۔ بھارتی حکومت اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں اس کے زیر انتظام اداروں پر عوامی اعتماد پہلے ہی مجروح ہوچکاہے،مودی اور اس کے حواریوں کے یہ اقدامات اسے مزید مجروح کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ترقیاتی بیانیے کے نام پر کشمیری عوام کو یہ چورن بیچا نہیں جاسکتا، جو گزشتہ 76 برسوں سے بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف برسر پیکار ہیں اور بھارتی حکمرانوں کی نیت اور فتور سے بخوبی آگاہ ہیں جو ناقابلِ اعتبار اور ناقابلِ اعتماد ہیں، جنہوں نے اقوام عالم کو گواہ بنا کر کشمیری عوام کے ساتھ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے حقِ خودارادیت کا وعدہ کیا ہے، جس پر 76 برس گزرنے کے باوجود عمل درآمد تو دور کی بات،کشمیری عوام کے مطالبۂ آزادی پر ان کے سینے گولیوں سے چھلنی کیے جاتے ہیں اور سوا پانچ لاکھ کشمیری حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے اپنی جانوں سے گزر چکے ہیں اور آج بھی سرزمینِ مقبوضہ جموں وکشمیر میں عظیم اور لازوال قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے، جس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے چپے چپے پر پانچ سو سے زائد قبرستان شہدا سے بھرے پڑے ہیں۔ ایک طرف بھارت آزادی اور انصاف کے حصول کے لیے کشمیری عوام کی جائز امنگوں اور خواہشات کو دبانے کے لیے ظالمانہ حربے اور جبر کے تمام طریقے استعمال کررہا ہے تو دوسری طرف مودی حکومت بے شرمی سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں نام نہاد ترقی کو فروغ دینے کا اعلان کررہی ہے۔ یہی واضح تضاد بھارتی حکمرانوں کی چغلی کھارہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اس کی ابتدا سے ہی حل کرنے میں سنجیدہ اور متفکر نہیں تھے، بلکہ بھارتی حکمرانوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً کیے جانے والے اس طرح کے اقدامات اس کے مذموم منصوبوں کا حصہ ہیں تاکہ مقبوضہ خطے پر اپنے غاصبانہ قبضے کو دوام بخشا جا سکے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے سنگین صورتِ حال اور بھارتی فوجی قبضے میں گھرا ہوا ہے۔ اس تمام تر صورتِ حال اور تناظر میں مودی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر کے تلخ زمینی حقائق کو چھپا کر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔