غزہ میں امن معاہدے کا پہلا ہفتہ

ابتدا میں معاہدہِ امن کے ضامن کے حیثیت سے امریکہ مخلص نظر آرہا تھا۔ حلف اٹھانے کے بعد اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے زور دیا کہ پہلے مرحلے کے ختم ہونے سے پہلے ہی پائیدار امن کے لیے کوششیں تیز کردی جائیں۔ لیکن اب واشنگٹن کی نیت مشکوک لگ رہی ہے

غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے کا ایک ہفتہ مکمل ہونے پر 25 جنوری کو اسرائیل کی 4 خاتون فوجی رہا کردی گئیں۔ معاہدے کے تحت ہر زندہ خاتون فوجی کے عوض 50 فلسطینی رہا ہونے ہیں، چنانچہ اس ہفتے رہا کی جانے والی خواتین فوجیوں کے بدلے 200 فلسطینیوں کو آزادی مل گئی۔ ’سنگین جرائم‘ میں ملوث سزایافتہ افراد کو اسرائیل بدر کردیا گیا۔ باقی 130 افراد غرب اردن، غزہ اور مشرقی بیت المقدس میں اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ توقع ہے کہ اگلے ہفتے مزید قیدیوں کا تبادلہ ہوگا۔

ابتدا میں معاہدہِ امن کے ضامن کے حیثیت سے امریکہ مخلص نظر آرہا تھا۔ حلف اٹھانے کے بعد اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے زور دیا کہ پہلے مرحلے کے ختم ہونے سے پہلے ہی پائیدار امن کے لیے کوششیں تیز کردی جائیں۔ لیکن اب واشنگٹن کی نیت مشکوک لگ رہی ہے۔ جمعرات 23 جنوری کو امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے فون پر اسرائیلی وزیراعظم سے گفتگو کی، جس میں انھوں نے نیتن یاہو کو یقین دلایا کہ اسرائیل کی مستقل حمایت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اولین ترجیح ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے مطابق جناب روبیو نے حماس اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی کامیابیوں پر نیتن یاہو کو مبارک باد دی اور غزہ میں قید باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے انتھک محنت کرنے کا عہد کیا۔ اسی کے ساتھ صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے لیے 2000 پائونڈ کے بموں پر سے پابندی ہٹالی۔ غزہ میں شہری نقصانات کے پیش نظر سابق صدر بائیڈن نے اسرائیل کے لیے ان ہلاکت خیز بموں پر پابندی عائد کردی تھی۔ امریکہ کی آن لائن خبر رساں ایجنسی Axios کے مطابق لاک ہیڈ مارٹن کے تیار کردہ 1800 کے قریب MK-84بم اگلے چند روز میں اسرائیل روانہ کردیے جائیں گے۔

دوسری جانب غزہ کے مستقبل کے بارے میں سفارتی و سیاسی سطح پر جس قسم کی گفتگو ہورہی ہے اس سے فلسطینی اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ 22 جنوری کو نشریاتی ادارے NBC نے خبر دی کہ امریکہ اہلِ غزہ کی ایک بڑی تعداد کو انڈونیشیا منتقل کرنے پر غور کررہا ہے۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ تباہ حال غزہ کی تعمیرنو کے دوران انتقالِ آبادی ضروری ہے، اور تعمیر مکمل ہونے پر ان لوگوں کو غزہ واپس بلالیا جائے گا۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں، اس حکمت عملی کے اصل محرکات غزہ کے ساحل کو دنیا کا سب سے بڑا Beachfrontاور مشرقی حصے میں میکانیکی زراعت کے ذریعے زیتون و کھجور کا مرکز بنانے کے منصوبے ہیں۔ عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ خالی ہوجانے کے بعد اس پٹی پر قبضہ بستیاں تعمیر کرکے اسرائیل کا قبضہ مکمل کرلیا جائے گا۔

اس ’انکشاف‘ کے دوسرے دن امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے اپنے انڈونیشی ہم منصب جناب سوجیونو (Sugiono)سے فون پر گفتگو کی اور انڈونیشیا کے مشرق وسطیٰ امن بات چیت کا ’حصہ‘ بننے پر خوشی کا اظہار کیا۔ دودن بعد ’انخلا‘ بلکہ ’تطہیرِ غزہ‘ منصوبے کا اظہار امریکی صدر ٹرمپ نے خود کیا جب 25جنوری کو لاس ویگاس سے میامی واپس آتے ہوئے اپنے صدارتی طیارے میں انھوں نے اس معاملے پر صحافیوں سے گفتگو کی۔ جناب ٹرمپ نے انڈونیشیا کے بجائے عرب ممالک کو اس ’کارِخیر‘ میں حصہ لینے کی دعوت دی۔ جناب ٹرمپ نے کہا: ’’میں چاہتا ہوں کہ اردن، مصر اور دوسرے ممالک زیادہ سے زیادہ اہلِ غزہ کو اپنے یہاں محفوظ و آرام دہ جگہ فراہم کریں تاکہ جنگ سے متاثرہ علاقے کو ’صاف‘ کیا جاسکے‘‘۔ امریکی صدر کے اس بیان پر قطر سے مزاحمت کار قیادت کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ ان کے ایک رہنما نے کہا ’’فلسطینی اپنی مقدس سرزمین سے بے دخلی کی کئی سازشوں کو ماضی میں ناکام بناچکے ہیں اور نسل کُشی و نسلی تطہیر کی اس مہم کو کچل دینے کے لیے بھی اہلِ غزہ پُرعزم ہیں۔‘‘

قیدی خواتین کی رہائی کے مناظر اسرائیل میں بہت دلچسپی اور شوق سے دیکھے گئے۔ ہزاروں کے مجمع میں ان جنگی قیدیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا، جن کی بدن بولی، چہرے بشرے اور وضع قطع سے شادمانی ٹپک رہی تھیں۔ قیدیوں کی ’میزبان‘ خواتین نے سفر کے لیے اُن کے کپڑے دھوکر استری کیے اورانھیں خوشبویات فراہم کی گئیں۔ خاتون سپاہیوں کو نئی فوجی وردی اور خوبصورتی سے فریم کی گئی ’سندِ حراست‘ عطا کی گئیں۔ ہر سپاہی کو فلسطینی پرچم سے مزین ڈوری والا شناختی کارڈ پہنایا گیا۔ دورانِ حراست لی گئی اُن کی تصاویر اور مقامِ گرفتاری کی تمام معلومات کو ایک گفٹ بیگ میں رکھ کر انھیں پیش کیاگیا۔ آزادیِ فلسطین کی جدوجہد کے بارے میں بصری رپورٹ اور قرآن کریم کا عبرانی نسخہ بھی تحفے کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں اسرائیلی جیلوں سے جو قیدی رہا ہوئے، ان میں اکثر کی حالت خراب تھی۔ ان کے چہروں سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ دورانِ حراست انھیں مناسب غذا فراہم نہیں کی گئی۔ لباس بوسیدہ، بال بکھرے ہوئے اور بہت سے قیدی نقاہت کے باعث لاٹھیوں کے سہارے یا ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چل رہے تھے۔

انتہائی پُرشکوہ انداز میں جنگی قیدیوں کی حوالگی سے جہاں اہلِ غزہ نے اپنی اخلاقی برتری ثابت کردی، وہیں پندرہ ماہ تک ان قیدیوں کا سراغ لگانے میں ناکامی پر اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے خفیہ ادارے خود اپنے حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ سراغ رساں اداروں کے مطابق غزہ کے چپے چپے پر وحشیانہ اسرائیلی بمباری کے ساتھ برطانوی اور امریکی فضائیہ کے جدید ترین ڈرونوں اور دوسرے حساس ترین جاسوس طیاروں نے اوسطاً ہر روز ڈیڑھ سو سے زیادہ فضائی مشن داغے۔ امریکی وزارتِ دفاع المعروف PENTAGONکے ترجمان بریگیڈیر جنرل پیٹرک رائیڈر نے نومبر 2023ء میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ جدید ترین M-9 Reaper ڈرون سارے غزہ میں قیدیوں کا سراغ لگانے کے لیے مسلسل پرواز کررہے ہیں۔ خفیہ سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے سراغ رساں صحافتی ادارے Declassified UKکے مطابق اس مقصد کے لیے قبرص کے برطانوی اڈے اکروتیری (Akrotiri)پر ایک خصوصی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم کیا گیاتھا۔ اعدادوشمار کے مطابق برطانوی اور امریکی ڈرونوں نے مجموعی طور پر بالترتیب 16000اور 40000 پروازوں کے ذریعے غزہ کا ایک ایک مربع گز چھانا، کھنگالا بلکہ سونگھا۔ اس مقصد کے لیے ’طلائی گولیاں‘ بھی بہت مہارت سے استعمال کی گئیں۔ ایک ایک قیدی کی نشاندہی کے لیے کروڑوں ڈالر ’انعام‘ تجویز ہوا، لیکن فضائی ٹیکنالوجی، جاسوسی کتے، تشدد کے کوڑے، اشرفیوں کے توڑے، مصنوعی ذہانت اور شیطانی فطانت سب ہی ناکام رہے۔

وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کے انتہا پسند ساتھی ابھی تک ’فلسطینیوں کو کچل دو‘ کے نعرے الاپ رہے ہیں، لیکن عسکری سطح پر بے چینی بہت واضح ہے۔ ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل ہرزی حیلوی نے استعفیٰ دے دیا اور دوسرے روز جنوبی کمان کے سربراہ جنرل یارون فنکلمین (Yaron Finkelman) بھی مستعفی ہوگئے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حزب اختلاف نے سوال اٹھا دیا کہ وزیراعظم کب استعفیٰ دیں گے؟

دوسری جانب اہلِ غزہ، غربِ اردن اور جنوبی لبنان کے لوگوں کے حوصلے بلند ہیں۔ شدید بمباری سے بے دخل ہونے والے شمالی غزہ کے لوگوں نے اپنے گھروں کو واپسی کا سفر شروع کردیا۔ ہزاروں لوگوں کا یہ قافلہ ساحلی شاہراہ پر شمال کی جانب رواں دواں ہے۔ گود میں بچے اٹھائے خواتین اس مارچ کی قیادت کررہی ہیں۔ جب کسی صحافی نے نعرہ زن ایک خاتون سے پوچھا ’’بی بی تمہارے گھر تو مٹی کے ڈھیر ہوگئے، واپس کہاں جارہی ہو؟‘‘ تو اس نے بے دھڑک کہا ’’ہمیں اپنے گھروں کے ملبے پر ہی رہنا ہے‘‘۔ اتوار 26 جنوری کو جنوبی لبنان میں اپنے گھروں کو لوٹنے والے بے گھر لوگوں پر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کردی جس سے 15 افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوگئے، لیکن قافلہ واپس جانے کو تیار نہیں۔ غربِ اردن میں جنین ایک ماہ سے اسرائیلی فوج کے نرغے میں ہے۔ جمعہ کو فائرنگ سے ایک دوسالہ بچی لیلیٰ الخطیب جاں بحق ہوگئی۔ قریبی فاصلے سے لیلیٰ کے سرکو نشانہ بنایا گیا۔ ان وحشیانہ کارروائیوں کی نہتے مزاحمت بھی کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے جنصافوط اور الفندق کے مکین مقابلے پر کھڑے ہوگئے اور غلیل کے ڈھیلوں سے کئی سورما زخمی ہوئے۔ طمون کے قریب اسرائیلی فوج کی ایک بکتربند گاڑی اڑادی گئی جس میں 31 سالہ سپاہی ایویاتر بن یہوداہ ہلاک دو فوجی جھلس کرشدید زخمی ہوگئے۔

نسل کُشی کے ذمہ داروں کا تعاقب بھی جاری ہے۔ پولینڈ کے فلسطینیوں نے ملک کے دورے پر آئے اسرائیل کے وزیر تعلیم یعقوب کِش (Yoav Kisch) کی گرفتاری کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ درخواست میں کہاگیا ہے کہ جناب کِش اسرائیلی reserveفوجی دستے کے رکن اور غزہ میں جنگی جرائم کے شرکت دار و سہولت کار ہیں۔

پروپیگنڈے اور امریکی حکومت کی اسرائیل کے لیے غیر مشروط حمایت کے باوجود غزہ کے مزاحمت کار امریکہ میں مقبول ہورہے ہیں۔ ہارورڈ ہیرس (Harvard/Harris) کے تازہ ترین جائزے کے مطابق امریکہ کے 25 فیصد ڈیموکریٹس، 19 فیصد ریپبلکن اور 20 فیصد آزاد ووٹر مزاحمت کاروں کے حامی ہیں۔ جائزے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ 25 سے 34 سال کے امریکیوں میں مزاحمت کاروں کی مقبولیت 34 فیصد، جبکہ 65 سال اور اس سے معمر صرف 10 فیصد امریکی مزاحمت کاروں کے حامی ہیں۔ (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔