شیر کی کہانی

دادا ہمیشہ کسی نہ کسی شیر کی کہانی سناتے تھے، بہادر شیر کی، جو جنگل میں حکمرانی کرتا تھا۔ یا ایسا شیر جو کسی آبادی میں آکر بچوں اور بڑوں کو اٹھا کر لے جاتا تھا، اور پھر ایسے شیر کو کوئی نہ کوئی بہادر آدمی مار کر بستی کو بچا لیتا تھا۔ عام طور پر یہ بہادر آدمی کم عمر بھی ہوتا تھا اور غریب بھی۔

وہ اکثر بچوں کو گاڑی میں بٹھا کر ملیر کے دیہاتوں کے اطراف درختوں کے درمیان گھماتے اور کہتے کہ خیال رکھنا کہیں شیر نہ آجائے۔ ایسی ہی ایک شام جب وہ ہم بچوں کو لے کر جامعہ ملیہ سے آگے کچے راستے پر کہیں رکے تو مجھے درختوں کے درمیان کوئی بڑا سا جانور بیٹھا ہوا نظر آیا۔ میں خوف سے گھبرا گیا اور دادا کے سنائے ہوئے قصوں کا آدم خور شیر میری نظروں میں آگیا۔

میں زور سے چلاّیا ’’دادا بچائیے، شیر آ گیا ہے‘‘۔

وہ شیر نہیں تھا، بڑا سا کتا تھا جو میری چیخ سن کر بھاگ گیا۔ مگر وہ واقعہ اور وہ شیر اور ’’دادا بچائیے‘‘ میں نہیں بھول سکا ہوں۔ دیکھا جائے تو دادا تو مجھے بچاتے ہی رہے۔ اسکول کی تعلیم کے دوران، میٹرک کے امتحان کے وقت، انٹر سائنس کے پہلے امتحان میں اور بارہویں جماعت کے آخری امتحان… وہ تعلیمی سرگرمیوں میں اور امتحانوں میں میری ، فرجاد کی اور گھر کے دوسرے بچوں کی ہمیشہ مدد کرتے رہے، کبھی نوٹس لے کر آتے تھے، کبھی پریکٹیکل کی مشق کرنے کے لیے لے جاتے۔ وہ ہمیشہ تلقین کرتے کہ وقت پر پہنچ جاؤ اور پڑھائی کے وقت کچھ اور نہ کرو۔ وہ ہم بچوں کی تعلیم میں ذاتی دلچسپی لیتے تھے۔ وہ فیصلہ کرتے تھے کہ ہمیں ٹیوشن کون پڑھائے گا۔ اکثر و بیشتر جب میں، فرجاد یا دوسرے بچے ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے تو وہ ہمارے ساتھ جاتے، استاد سے ملتے، اور ایسا بھی ہوتا کہ اپنے کسی شاگرد کے پاس لے جاکر کہتے کہ ’’بھئی اس مضمون میں ذرا کمزور ہے‘‘۔ پھر وہ اکثر باہر گاڑی میں ہی بیٹھے رہتے، جب تک کہ ہماری پڑھائی ختم نہیں ہوتی اور کمزوری پر قابو نہیں پالیا جاتا۔

آج ان کے جانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ تعلیم سے ان کی دلچسپی کتنی اہم تھی۔ کتنا ضروری تھا کہ مضامین پر مکمل طور پر قابو ہو، تاکہ اچھے نمبر آئیں اور میڈیکل کالج میں داخلہ ہوسکے۔

ہر تھوڑے دنوں کے بعد میں دیکھتا تھا کہ کوئی نہ کوئی اُن کے پاس بیٹھا ہوتا جو اپنے بچوں کے امتحانات اور میڈیکل کالج میں داخلوں کے لیے اُن سے مشورہ لے رہا ہوتا۔ وہ نہ صرف مشورہ دیتے بلکہ یہ بھی بتاتے کہ ان کے علاقے میں کون سا استاد ہے جو فلاں فلاں مضامین میں ٹیوشن پڑھاتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ آج کل کے اسکولوں میں بچوں کو بہت کم پڑھایا جاتا ہے، ان پر توجہ نہیں دی جاتی ہے، بچے گھر میں ٹی وی پر بہت وقت ضائع کرتے ہیں۔

جب میرا داخلہ میڈیکل کالج میں ہوگیا تو گھر میں سب ہی خوش تھے، مگر ان کا خوشیوں سے بھرا تمتماتا ہوا چہرہ اور روشن آنکھیں سب سے زیادہ نمایاں تھیں۔ انہیں سب سے زیادہ خوشی ہوئی تھی، میں وہ چہرہ کبھی نہیں بھلا پاتا۔ اسی طرح سے جب میں ڈاکٹر بنا تھا تو اُس وقت بھی ان کا چہرہ تھا جو تمتما رہا تھا، خوشی نے ان کے تمام جسم کا جیسے گھیراؤ کیا تھا، انہیں مجھ سے زیادہ میرے ڈاکٹر بننے کی خوشی تھی۔

شیر کی کہانی ختم ہوگئی ہے، بہادر شیر کی بھی اور آدم خور شیر کی بھی.. لیکن کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے کہ کاش میں پیچھے مڑ کر دیکھوں اور زور سے چیخوں ’’دادا بچائیے‘‘۔ مگر دادا اب نہیں رہے ہیں۔ دنیا میں تو ہمیشہ کوئی بھی نہیں رہتا ہے، لیکن ان کی باتیں … ان کا تعلیم پر اعتماد، ان کا یقین کہ تعلیم زندگی بدل دیتی ہے… میرے تعاقب میں رہتے ہیں۔ میری تمنا ہے کہ یہ تعاقب ہمیشہ جاری رہے۔

(”وہ صورت گر کچھ خوابوں کا“/ڈاکٹر شیر شاہ سید، حمیر اشتیاق)

مصور
تُو ہے میرے کمالات ہنر سے
نہ ہو نومید اپنے نقش گر سے
مرے دیدار کی ہے اک یہی شرط
کہ تُو پنہاں نہ ہو اپنی نظر سے