مصالحتی عدالتیں… کم خرچ اور جلد انصاف کی ضامن

عدالتِ عالیہ لاہور کے ایک فل کورٹ اجلاس میں صوبے میں زیر التوا اور فیصلہ شدہ مقدمات سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی۔ عدالتِ عالیہ کی منصفِ اعلیٰ جسٹس عالیہ نسیم کی زیر صدارت ایک ہفتہ قبل منعقدہ اس اجلاس میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق 2024ء کے دوران 38 لاکھ سے زائد مقدمات کے فیصلے کیے گئے، اس کے باوجود عدالتِ عالیہ لاہور اور اس کے علاقائی بینچوں میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد ایک لاکھ 98 ہزار ہے، جب کہ ضلعی عدلیہ میں 14 لاکھ 94 ہزار مقدمات فیصلہ طلب پڑے ہیں۔ یہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا معاملہ ہے، دیگر صوبوں کی اعلیٰ عدلیہ اور ذیلی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا معاملہ بھی پنجاب سے مختلف نہیں، جب کہ عدالتِ عظمیٰ میں بھی مقدمات کا ڈھیر فیصلوں کے انتظار میں ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ انصاف طلب مقدمات کی بھرمار وطنِ عزیز میں نظامِ عدل کی زبوں حالی کی عکاس اور سست روی کی دلیل ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کا ہمارے نظامِ انصاف پر اعتماد بری طرح مجروح ہوچکا ہے، اعلیٰ ترین سطح پر بارہا اس خرابی کا تذکرہ سننے میں آتا ہے، اور صورتِ حال کی اصلاح کے لیے کئی اقدامات اور اعلانات بھی کیے جاتے رہتے ہیں، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ کی صورت میں سامنے آتا رہا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے گزشتہ دنوں قتل کے ایک مقدمے میں ملوث ایک شخص کو 23 برس بعد بری کیا۔ سوال یہ ہے کہ اس شخص کی زندگی کے 23 سال کون لوٹائے گا؟ اور اس دوران اسے قید و بند کی جو صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور اس کے اہلِ خاندان کو جن معاشی و معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، اس کا حساب کون دے گا؟ اس اذیت ناک صورتِ حال کی ذمہ داری نظامِ عدل کے سوا آخر کس پر عائد ہوتی ہے؟ نظامِ عدل کی ان خرابیوں کے باعث معاشرے میں بے پناہ معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور امن و امان کے مسائل فروغ پا رہے ہیں، جن سے نجات کے لیے موجودہ نظامِ انصاف کی اصلاح اور ٹھوس عملی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

عدالتِ عالیہ لاہور میں گزشتہ ہفتے بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام اس نہایت گمبھیر مسئلے کے حل کے ضمن میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ماہرین نے پورے نظامِ عدل تو نہیں تاہم اس کے ایک پہلو میں بہتری کے لیے تجاویز پیش کیں، عدالتِ عظمیٰ کے سینئر ترین منصف جسٹس منصور علی شاہ نے کانفرنس میں اپنے خطاب میں توجہ دلائی کہ عوام بیس بیس سال مقدمات کی سماعت سے تنگ آ چکے ہیں، اس خرابی سے چھٹکارا پانا اب لازم ہے جس کے لیے مصالحتی نظام کو اختیار کرنا حالات کا لازمی تقاضا ہے۔ اس نظام کے ذریعے لوگوں کے کم خرچ میں زیادہ مسائل حل ہوسکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2023ء میں ملک بھر میں 17 لاکھ مقدمات کا فیصلہ کیا گیا مگر مقدمات کا ڈھیر آج بھی ویسے ہی پڑا ہے، ہمارے عدالتی نظام کے اپنے مسائل ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کے بقول زیادہ تر مسائل خود عدلیہ اور وکلاء کی وجہ سے ہیں، ہڑتالوں اور دیگر وجوہ سے مقدمات لٹک جاتے ہیں، مصالحتی نظام ہماری روایات اور ثقافتی اقدار کے مطابق ہے اور یہ مسائل کو بہتر طور پر حل کرسکتا ہے۔ عدالتِ عالیہ لاہور کے جسٹس جواد حسن نے وکلاء کی ذہنیت تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مصالحت دو گھنٹے یا دو دنوں میں ہو سکتی ہے، ہر قانون یہی کہتا ہے کہ ہمیں مصالحت کی طرف جانا چاہیے، مگر اس میں لازمی مصالحت کا لفظ نہیں، عدالتِ عظمیٰ نے ایک ٹاسک فورس بنائی ہے، ہمیں طویل عرصے سے زیر التوا مقدمات کے بوجھ کو کم کرنا ہوگا۔ جسٹس عاصم حفیظ نے بھی مصالحتی عدالتوں کے حوالے سے وکلاء برادری کے خوف کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں ڈر سے باہر آنے کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ مصالحتی مراکز کے ذریعے بھی وکلاء اپنے لیے رزق تلاش کر سکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے خطے کے حالات اور روایات کی روشنی میں مصالحتی عدالتوں کا نظام ہمارے نظامِ انصاف کے بہت سے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے اربابِ اقتدار سنجیدگی سے اس نظام کو رائج کرنے پر توجہ مرتکز کریں۔ یہ ماضی میں ہمارے یہاں نافذالعمل رہا ہے اور اس لحاظ سے آزمودہ بھی ہے۔ چونکہ مصالحتی عدالتوں یا پنچایت… اسے جو بھی کہیں… سے رجوع کر نے کے لیے مدعی کو ہمارے رائج الوقت نظام کے برعکس کورٹ فیس نام کی کسی چیز کی ادائی کرنا نہیں پڑتی، اسی طرح فریقین وکلاء کی بھاری فیسوں اور دیگر بے پناہ اخراجات سے بھی محفوظ رہتے ہیں، اس لیے یہ موجودہ عدالتی نظام کے مقابل بہت زیادہ سستا ہے، مصالحتی عدالت چونکہ گائوں یا گلی محلے ہی میں موجود ہوتی ہے، اس لیے آمدورفت کے اخراجات بھی برداشت نہیں کرنا پڑتے اور ان عدالتوں سے رجوع کرنا بھی نہایت آسان ہے، مصالحتی عدالتوں کے مصالحت کنندگان چونکہ مقامی محلے دار یا اہلِ دیہہ ہوتے ہیں، اس لیے وہ فریقین کے کردار سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں، چنانچہ مدعی اور مدعا علیہ کے ماضی کے کردار سے آگاہی کے سبب ان کے لیے حقائق تک پہنچنا، فریقین میں مصالحت کرانا اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا موجودہ عدالتی نظام کے ججوں کی نسبت بہت آسان ہوتا ہے، جب کہ جج حضرات وکلاء کے دلائل اور قانونی موشگافیوں کے پابند ہونے کے سبب لازم نہیں کہ درست فیصلہ کرپائیں۔ موجودہ نظام میں مقدمات کی بھر مار کے سبب جج حضرات دبائو کا شکار رہتے ہیں، اس لیے ان کے لیے مقدمے کے حقائق پر گہرائی سے غور و فکر کی فرصت اور عدلِ حقیقی کے تقاضوں کو پو را کرنا خاصا مشکل ہوجاتا ہے اور فیصلوں میں غلطی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جس کے سبب اعلیٰ عدالتوں میں اپیلوں اور وہاں ماتحت عدالتوں کے برعکس فیصلوں کا تناسب بھی بڑھ جاتا ہے۔ ان حالات میں اگر ہمارے اربابِ حل و عقد اہلِ وطن کو سستا اور جلدی انصاف فراہم کرنے میں واقعی سنجیدہ ہوں تو مصالحتی نظام کو اس کی حقیقی روح کے مطابق نافذ کرکے عوام کو ایک ایسی سہولت فراہم کر سکتے ہیں جس میں حکومت کو بھی کسی بڑے مالی بوجھ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور عوام کے لیے وقت اور مالی وسائل کی بے پناہ بچت کے ساتھ مقدمات سے نجات کا سامان فراہم ہو جائے گا، تاہم اس کے لیے حکمرانوں کی سنجیدگی اور اخلاص شرطِ اوّل ہے۔ (حامد ریاض ڈوگر)