ملک ریاض اور القادر ٹرسٹ یونیورسٹی

نیب کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں 458 کنال سے زائد زمین عطیہ کی تھی جس کے بدلے میں مبینہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔ دراصل یہ وہ رقم تھی جو برطانیہ میں غیر قانونی پیسے سے جائداد رکھنے پر پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے ضبط کی گئی تھی۔ یہ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی طرف سے ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دے کر پاکستان کو لوٹائی گئی، تاہم اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر یہ رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ میں چلی گئی جس میں ملک ریاض کو عدالتی حکم پر بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں 460 ارب روپے جمع کرنے کا کہا گیا تھا۔ اس طرح نیب کے مطابق ایک ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی ملزم کو مل گئی اور قومی خزانے میں جمع کرنے کے بجائے برطانیہ سے ملنے والی رقم ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کی گئی، بدلے میں عمران خان کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی بنانے کے لیے زمین عطیہ کی گئی۔ 4 مئی 2018ء کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا۔ اس کے بعد بحریہ ٹائون کی طرف سے عدالت کو مقدمہ ختم کرکے تصفیہ کرنے کے لیے پہلے 250، پھر 358 اور بعد میں 405 ارب روپے کی پیش کش کی گئی، تاہم سپریم کورٹ نے یہ پیشکشیں مسترد کردیں۔21 مارچ 2019ء کو سپریم کورٹ نے ملک ریاض کی جانب سے بحریہ ٹائون کراچی کے مقدمے کے تصفیے کے لیے 460 ارب روپے کی پیش کش قبول کی۔ اگست 2019ء میں برطانیہ کے ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ نے ملک ریاض کے 12 کروڑ پاؤنڈز کے آٹھ اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات دیے تھے۔ 3 دسمبر 2019ء کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور ملک ریاض کے درمیان منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم لوٹانے کے عوض تصفیہ طے پایا۔ یہ تصفیہ نیشنل کرائم ایجنسی کی ملک ریاض حسین کے خلاف تحقیقات کے نتیجے میں عمل میں آیا اور فیصلہ ہوا کہ رقم اور اثاثے ریاست پاکستان کو لوٹا دیے جائیں گے۔ 3 دسمبر 2019ء کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں برطانیہ سے ملنے والی ملک ریاض کی 50 ارب روپے کی رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں جمع کرانے کی منظوری ہوئی، اور یوں بالواسطہ طور پر رقم ملک ریاض کا قرض چکانے میں خرچ ہوئی۔ 26 دسمبر 2019ء کو سابق وزیراعظم عمران خان نے القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔ ملک ریاض نے اس ٹرسٹ کے لیے جہلم میں زمین عطیہ کی جو مبینہ طور پر عمران خان کی طرف سے تصفیے والی رقم ان کے سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں جمع کرانے کے فیصلے کا عوض تھا۔ اکتوبر 2022ء میں نیب نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کردی تھی۔ 9 مئی 2023ء کو القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان گرفتار ہوئے۔ یکم دسمبر 2023ء کو 190 ملین پاؤنڈ کیس کا ریفرنس احتساب عدالت میں دائر ہوا۔6 جنوری 2024ء کو عدالت نے شریک ملزمان فرح گوگی، مرزا شہزاد اکبر، ضیاء الاسلام نسیم اور زلفی بخاری سمیت 6 ملزمان کو عدالتی مفرور یا اشتہاری قرار دے دیا۔ 27 فروری 2024ء کو بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی پر فردِ جرم عائد ہوئی۔18 دسمبر 2024ء کو احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔ 23 دسمبر 2024ء کو فیصلہ سنانے کی تاریخ دی گئی جو بعد میں 6 جنوری 2025ء کردی گئی تھی۔ بعد ازاں 13 جنوری کو یہ اہم فیصلہ سنانے کا اعلان کیا گیا تھا مگر تیسری بار پھر موخر کیا گیا۔ یہ فیصلہ 17 جنوری کو سنایا گیا۔