قسط 47
نیروبی سے ہم نے اسلامک فائونڈیشن کی طرف سے انگریزی میں ایک سہ ماہی رسالہ الاسلام (Al-Islam) نکالا جو کئی سال تک باقاعدگی سے چھپتا رہا۔ اب وہ بند ہوچکا ہے۔ اس رسالے کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر محمد سعید سیکرٹری جنرل اسلامک فائونڈیشن تھے۔ آپ انگریزی زبان کے بہت اچھے رائٹر تھے۔ راقم ان کے ساتھ پرچے کے انتظامی امور کی ذمہ داری ادا کرتا تھا، یعنی مدیر منتظم تھا۔ میری تحریریں بھی اس رسالے میں چھپتی تھیں اور ایک خاص کالم پرلز آف وزڈم (Pearls of Wisdom) کے نام سے میں نے لکھنا شروع کیا تھا جو قارئین میں بہت مقبول ہوا۔ یہ مولانا مودودیؒ کی عصری نشستوں ’’5۔اے ذیلدار پارک‘‘ کی پہلی جلد مرتبہ مظفر بیگ صاحب کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ تھا۔ کئی سال پہلے اس عنوان یعنی 5۔اے ذیلدار پارک کے تحت بیگ صاحب کا کالم ہفت روزہ ’’آئین‘‘ میں چھپا کرتا تھا۔
بعد میں اسی عنوان سے رفیع الدین ہاشمی مرحوم اور حفیظ الرحمٰن احسن مرحوم بھی یہ کالم لکھتے رہے جو جلد دوم اور سوم کے طور پر چھپے اور قارئین نے بہت پسند کیے۔ اس کتاب کی پہلی جلد کے کافی حصے کا ترجمہ ہوچکا تھا، مگر اس کی تکمیل سے قبل مجھے پاکستان آنا پڑا اور اسی عرصے میں رسالہ ’’الاسلام‘‘ بھی بند ہوگیا۔ جو ترجمہ ہوا تھا وہ بھی میں اپنے پاس محفوظ نہ رکھ سکا۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مقامی لوگ جو اردو سے نابلد تھے، مولانا کی اس مجلس کی دلچسپ، علم سے مالامال اور ہلکی پھلکی روداد کا ترجمہ بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔ مولانا کی ہرگفتگو میں سامعین اور قارئین کو کئی انمول ہیرے اور موتی مل جایا کرتے تھے، اسی لیے اس ترجمے کا یہ عنوان رکھا گیا تھا، یعنی ’’دانش و حکمت کے ہیرے موتی‘‘۔
کینیا میں قیام کے دوران بیشتر وقت سفر اور دفتر کے انتظامی امور میں ہی بیت جاتا تھا۔ رات کو اگر دوستوں کی محفل نہ لگتی تو مجھے کچھ وقت لکھنے پڑھنے کے لیے میسر آجاتا۔ ان دنوں اخوان المسلمون کے مرشدِ عام جناب سید عمر تلمسانیؒ کی یادداشتیں ایک عربی روزنامے ’’الشرق الاوسط‘‘ میں چھپ رہی تھیں۔ اس کا ترجمہ ’’یادوں کی امانت‘‘ کے نام سے میں نے شروع کیا اور ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ میں بالاقساط بھیجتا رہا۔ ایشیا میں ترجمے کی پہلی قسط 23جولائی 1984ء کو چھپی تھی۔ جناب عمر تلمسانی صاحب کے انٹرویو ہر سوموار، جمعرات اور ہفتے کے دن شائع ہوتے تھے۔ اگر کبھی مصروفیات کی وجہ سے میں فوری ترجمہ اور خط نہ بھیج سکتا تو جیلانی بی اے صاحب (مدیر ایشیا) کا شکوہ بھرا تحریری پیغام آجاتا۔ اسی طرح آپ کے تحسین سے بھرے خطوط بھی موصول ہوتے رہتے۔
ایک خط میں آپ نے تحریر فرمایا:
’’ آپ کا مکتوب جوں ہی آتا ہے اسے پہلے میں خود پڑھتا ہوں پھر فوراً کاتب کے حوالے کردیتا ہوں۔ اس کی پروف ریڈنگ بھی میں خود کرتا ہوں اور ہم اسے بلاتاخیر شائع کردیتے ہیں۔ ’’یادوں کی امانت‘‘ کو میں دل کی نگاہوںسے پڑھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ کے ترجمے سے بہت سے ایمان بحال ہوجائیں گے۔ آپ نے جتنا ترجمہ کرلیا ہے مجھے بھیج دیں، ہم اسے جلد از جلد شائع کردیں گے۔ ایک اور درخواست ہے کہ اگر یہ یادداشتیں عربی میں شائع ہوجائیں تو ایک نسخہ مجھے بھی بھجوا دیں۔ اپنے ترجمے کے بارے میں آپ کسی ناشر سے ابھی سے بات کرلیں تاکہ یہ کسی تاخیر کے بغیر مارکیٹ میں آجائے۔‘‘ (11دسمبر 1984ء)
میں نے یہ ترجمہ جنوری 1985ء کے پہلے ہفتے میں مکمل کرلیا۔ ترجمے کا کام عموماً عصر کی نماز سے عشا کی نماز تک ہفتے کے اُن دنوں میں ہوتا تھا جب کہ میں سفر پر نہیں ہوتا تھا، یا جس شام کو لیکچر پروگرام نہیں ہوتا تھا۔ یوں عملاً ہر ہفتے میں ایک یا دو دن مل جایا کرتے تھے۔ آخری دنوں میں برادرِ عزیز قاری حبیب الرحمٰن نے خاصی مدد کی۔ میں انھیں ترجمہ لکھواتا جاتا اور وہ تیزی اور صفائی سے املا کرلیتے۔ اس طرح کام تھوڑے وقت میں مکمل ہوگیا۔ بعد میں ان حصوں کی تصحیح اور نظرثانی کرلی گئی۔ اللہ تعالیٰ قاری صاحب کو بہترین اجر سے نوازے۔ آپ اسلامک فائونڈیشن کے مدرسہ ’’معہد اسلامی مچاکوس‘‘ میں مدرس اور تحریکِ اسلامی کے نہایت مخلص کارکن ہیں۔(آج کل آپ پاکستان میں اپنے گائوں جنڈ ضلع اٹک میں مقیم ہیں اور جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔)
جیلانی صاحب کے مذکورہ بالاخط سے بڑا حوصلہ ملا۔ ان کے علاوہ بھی بعض دوستوں کے خطوط آتے رہے جن میں ترجمے کو جاری رکھنے کی ترغیب دلائی گئی۔ الحمدللہ یہ کام اردو میں تو مکمل ہوگیا ہے۔ اب میں اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنا چاہتا ہوں جو اسلامک فائونڈیشن کے انگریزی مجلہ ’’الاسلام‘‘ میں شائع ہوتا رہے گا۔ اس کے لیے مجھے عرب دوستوں سے معلوم کرنا ہوگا کہ کسی اور بھائی نے تو ترجمہ نہیں کیا، اگر کسی ادارے نے یہ کام شروع کردیا ہے تو فبھا وللہ الحمد! بہرحال اردو میں یہ ترجمہ مکمل ہوا اور 380 صفحات پر مشتمل کتاب البدر پبلی کیشنز سے پہلی بار 1987ء میں شائع ہوئی۔ البتہ انگریزی ترجمے کا ارادہ عملی جامہ نہ پہن سکا۔ (محررہ 1985ء)
جناب عمر تلمسانیؒ کی عربی یادداشتوں کی پہلی قسط ’’الشرق الاوسط‘‘ میں 3 جولائی 1984ء کو بروز سوموار چھپی۔ روزنامہ ’’الشرق الاوسط‘‘ مجھے باقاعدگی سے شائع ہونے کے دوسرے یا تیسرے دن میرے دفتر میں مل جاتا تھا۔ یہ بیک وقت کئی مقامات لندن، پیرس، نیویارک، جدہ، ریاض اور کاسا بلانکا(مراکش) سے شائع ہوتا تھا۔ مرشد عام کی یادداشتوں کا ترجمہ مکمل ہوا۔ اس کے فوراً بعد اس کے کئی ایڈیشن البدر پبلی کیشنز اور پھر مکتبہ احیائے دین کی طرف سے شائع ہوئے۔ بہرحال عرض یہ ہے کہ یہاں لکھنے پڑھنے کا کام ایک ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ اصل کام تو فائونڈیشن کے اداروں کی دیکھ بھال اور دیگر دعوتی و تدریسی، ابلاغی اور مالیاتی ذمہ داریاں تھیں۔
مجھے کینیا، سوڈان، لیبیا، ایتھوپیا (حبشہ)، تنزانیا، یوگینڈا، زمبیا، زمبابوے، ملاوی، موزمبیق، ماریشس، مڈغاسکر، ری یونین آئی لینڈ، جنوبی افریقہ، جزائر سیشلز (Seychelles) اور نائیجیریا وغیرہ میں سفر کرنے کا بھی اتفاق ہوا۔ بعض ممالک میں ایک بار اور اکثر میں کئی بار جانا آنا رہا۔ ان تمام علاقوں میں مولانا مودودیؒ کا تعارف پڑھے لکھے مسلمانوں کے حلقوں میں پہنچ چکا تھا۔ جن ممالک میں برعظیم سے تعلق رکھنے والی کوئی آبادی موجود تھی، وہاں آبادی کم ہو یا زیادہ، مولانا کا اردو لٹریچر بھی پہنچ گیا تھا۔ ان ممالک میں بالخصوص عربی، فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں جس قدر بھی تراجم دستیاب تھے، لوگوں کی دل چسپی کا مرکز تھے۔ مختصر طور پر ان ممالک کے بارے میں چند سطور میں ایک خاکہ پیش خدمت ہے:
اریٹیریا
اریٹیریا پہلے حبشہ کا صوبہ تھا۔ یہاں تقریباً ساری آبادی مسلمان ہے۔ انھوں نے بڑی جدوجہد کے بعد حبشہ سے آزادی حاصل کی۔ یہاں اکثر لوگ عربی زبان جانتے ہیں، اس لیے وہاں مولانا کا تعارف اور لٹریچر بہت زیادہ ہے۔ اسمارا اریٹیریا کا صدر مقام ہے۔ یہاں بھی مولانا کی عربی کتب لوگوں کے پاس موجود تھیں۔ آزادی کے بعد یہاں دائیں اور بائیں بازوئوں کی سیاسی کش مکش شروع ہوگئی جس کی وجہ سے اسلامی حلقہ خاصا متاثر ہوا اور پہلے والا جوش و جذبہ مفقود ہوگیا۔
تنزانیا
تنزانیا کی سرکاری زبان سواحلی ہے اور مولانا مودودیؒ کے ایک پرانے ساتھی پروفیسر ملک محمد حسین (مرحوم) یہاں سال ہا سال مقیم رہے۔ ان کے علاوہ ہاشم گرانہ، برہان مٹینگوا، موسیٰ مدیدی، سلیمان صالح اور حمزہ سوکو مرحوم بھی ہمارے فعال تحریکی ساتھی تھے۔ کینیا سے شائع ہونے والا لٹریچر یہاں بھی یکساں مقبول تھا۔ یہاں ان لوگوں نے رائٹرز ورکشاپ کے نام سے ایک تحریری و تحقیقی ادارہ بھی قائم کررکھا تھا، جو مولانا کی تحریروں کو مضامین کی صورت میں شائع کرتا تھا۔ ابتدائی عرصے میں مولانا کے کتابچے سائیکلواسٹائل کیے جاتے تھے، بعد میں خوب صورت انداز میں پرنٹنگ پریس سے چھپنے لگے۔
زمبیا اور ملاوی
زمبیا کی سرکاری زبان انگریزی تھی۔ قبائلی زبانیں تو کئی ہیں، تاہم بانٹو (افریقی) زبانوں میں سے یہاں سواحلی اور چیچوا (Chichewa) زبانیں زیادہ لکھنے پڑھنے میں استعمال ہوتی ہیں۔ اسی طرح ملاوی کی عوامی زبان بھی چیچوا ہے۔ زیمبیا میں ایوب آدم پٹیل اور ملاوی میں ابراہیم پنجوانی، ہمارے اچھے ساتھی بلکہ نمائندے تھے۔ مقامی زبان میں مولانا کے خطبات اور دینیات کے کچھ مضامین ترجمہ ہوکر شائع ہورہے تھے مگر زیادہ کام نہ ہوسکا۔ پہلی کتاب جو ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ کے تعاون سے چیچوا میں ترجمہ ہوئی، رسالہ دینیاتتھی۔ ان سبھی ملکوں میں بارہا جانے کا اتفاق ہوا۔ مقامی احباب ہر مرتبہ دعوتی و تربیتی نشستوں کا اہتمام کرتے تھے جن میں نومسلم بھی بڑے شوق سے شرکت فرماتے تھے اور سوال جواب بھی ہوتے تھے۔
زمبابوے
زمبابوے میں دو علمائے کرام جناب موسیٰ منک اور موسیٰ مکدا، نے ہمارے ساتھ خاصا تعاون کیا۔ یہاں دو زبانیں مقامی طور پرمعروف ہیں: انڈیبپلے (Ndebele) اور شونا (Shona)۔ ان دونوں زبانوں میں کتابچے ’’شہادتِ حق‘‘ اور ’’کلمۂ طیبہ کے معنی‘‘ وغیرہ اس دور میں سائیکلواسٹائل ہوکر لوگوں تک پہنچے تھے۔ البتہ انگریزی میں رسالہ ’’دینیات‘‘ اور ’’خطبات‘‘ خاص طور پر مقبول کتابیں ہیں جن کے قومی زبانوں میں تراجم پر کام ہورہا تھا۔ بعد کے ادوار میں یقیناً کام آگے بڑھا ہوگا، مگر روابط قائم نہ رہ سکے، اس لیے پوری تفصیل معلوم نہیں۔
ماریشس
ماریشس بحر ہند کا دور دراز جزیرہ ہے، جہاں ہندو اکثریت میں اور مسلمان اور یورپی عیسائی اقلیت میں ہیں۔ یہاں اسلامک سرکل ماریشس کا کام خاصا مقبول تھا۔ محمد حسین دہال (مرحوم) اس مرکز کے روحِ رواں تھے۔ فرانسیسی اور کریول (Creole) یہاں کی مشہور زبانیں ہیں۔ ان زبانوں میں رسالہ ’’دینیات‘‘ اور مولانا کی دیگر کتب کے کچھ حصے اسلامک سرکل نے شائع کیے تھے۔ اس جزیرے میں اسلامک سرکل کا قیام بھی چودھری غلام محمد مرحوم کا کارنامہ تھا۔ یہاں کا دورہ بھی کئی مرتبہ کرنے کا موقع ملا۔
جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ میں سفید فام دورِ حکومت تک افریکانہ سرکاری زبان تھی۔ مگر آزادی کے بعد وہاں کھوسہ (Khosa) اور زولو (Zulu) زبانوں کا چلن عام ہوگیا، جو یہاں کی مقامی زبانیں ہیں۔ یہاں کی تینوں زبانوں میں رسالہ ’’دینیات‘‘ کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ آزادی کے بعد الحمدللہ یہاں ہمارے پاکستانی ساتھیوں نے اسلامک سرکل آف سائوتھ افریقہ (ICSA) کے نام سے تنظیم قائم کی ہے جس کا تنظیمی نیٹ ورک پورے ملک میں خاصا منظم ہے۔ حلقۂ خواتین اور یوتھ ایسوسی ایشن بھی بہت متحرک ہیں۔ آزادی کے بعد مجھے کئی بار یہاں جانے کے مواقع ملے۔ میرے سفرناموں ’’حضرت بلالؓ کے دیس میں‘‘ اور ’’بلالی دنیا میں شمع اسلام‘‘ میں دیگر ممالک کے ساتھ سائوتھ افریقہ کے احوال کی پوری تفصیل محفوظ ہے۔ ان سفرناموں کو پڑھنے سے اس باوسائل اور مال دار افریقی ملک کے عمومی حالات کے ساتھ وہاں اسلام کی پیش رفت اور تحریکی سرگرمیوں کا پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔
نائیجیریا
چودھری غلام محمد مرحوم کی کاوشوں سے برطانیہ اور کینیا کی طرح نائیجیریا میں بھی گزشتہ صدی کے نصف میں اسلامک فائونڈیشن قائم کی گئی جو اب تک فعال ہے۔ فائونڈیشن کو ڈاکٹر حسن گوارزو مرحوم (سابق چیف جسٹس کانو، نائیجیریا) نے اپنی سربراہی کے دور میں خاصا فعال اور مضبوط بنایا تھا۔ نائیجیریا کی سب سے اہم زبان ہائوسا (Hausa) ہے، اس میں شیخ ابوبکر گومی نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا تھا۔ یوروبا (Yoruba)، ایبو (Ibo) اور فلانی (Fulani) بھی بڑی زبانیں ہیں۔ انگریزی کے علاوہ ان چاروں زبانوں میں رسالہ ’’دینیات‘‘ کا ترجمہ ہوگیا ہے اور ’’خطبات‘‘کے اجزا کے علاوہ چھوٹے کتابچے ’’مسئلہ ختمِ نبوت‘‘، ’’شہادتِ حق‘‘، ’’کلمۂ طیبہ کے معنی‘‘ وغیرہ بھی ان زبانوں میں دستیاب ہیں۔ مجھے نائیجیریا میں ایک بار ہی دورہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
کینیا مشرقی افریقہ میں واقع ہے، مگر تحریکِ اسلامی کے کام کے لیے یہ پورے افریقہ کے لیے کبھی رول ماڈل ہوا کرتا تھا۔ کینیا میں اسلامک فائونڈیشن کا دفتر شہر کے مرکز میں بہت بڑی بلڈنگ ’’قرآن ہائوس‘‘ میں تھا۔ یہ بلڈنگ بیسمنٹ شامل کرکے چھ منزلہ تھی جو اسلامک فائونڈیشن کی ملکیت تھی۔ اس میں فائونڈیشن کے دفاتر، لائبریری، مہمان خانہ اور اجلاسوں کے لیے ایک مناسب ہال موجود تھا۔ گرائونڈ فلور پر اسلامی کتابوں کی چھوٹی سی دکان اور تہہ خانے میں کتابوں اور دیگر سامان کا اسٹور اپنے پاس تھا۔ باقی سب فلور کرائے پر دیے ہوئے تھے۔ گرائونڈ فلور پر بھی مختلف تجارتی اداروں نے دکانیں کرائے پر لے رکھی تھیں۔ اسلامک فائونڈیشن کی بڑی اور مستقل آمدنی کا ذریعہ یہی عمارت تھی۔ اس کے علاوہ اندرون اور بیرون ملک عطیات جمع کرنے کے لیے مہمات بھی چلائی جاتی تھیں۔ (جاری ہے)