,آئی ایم ایف کی شرائط نے معیشت کو جکڑ رکھا ہےاسرار الحق مشوانی سے بات چیت

صنعتی، زرعی اور تجارتی ترقی کا دارومدار سیاسی استحکام پر ہے اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر ممبر
اسرار الحق مشوانی سے بات چیت

فرائیڈے اسپیشل: آپ تجارتی تنظیموں کے متعدد اہم عہدوں پر کام کررہے ہیں۔ یہ بتایئے کہ پاکستان میں کاروباری طبقہ آج کل کن مشکلات کا شکار ہے اور ملک کو معاشی مشکل سے باہر نکالنے کے حکومتی دعوے کس حد تک درست ہیں؟

اسرارالحق مشوانی: آپ کے سوال کا مختصر سا جواب تو یہ ہے کہ ’’پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ‘‘، لہٰذا ہم بھی شجر سے پیوستہ ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ کب مشکل دن ختم ہوں گے۔ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو جس قدر نقصان پہنچا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت نے بہتری کی کچھ امید دلائی ہے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ ملکی ترقی کے لیے ٹیکس اصلاحات، اور صنعتوں کے لیے بجلی اور گیس کے نرخ کم ہونے تک مسائل حل ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔ ٹیکسوں نے تو مل کر رئیل اسٹیٹ بزنس کو بھی وینٹی لیٹر پر پہنچا دیا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ خاصے مایوس دکھائی دے رہے ہیں؟

اسرار الحق مشوانی: جو حقائق ہیں ان سے کیسے جان چھڑائیں! ابھی آپ دیکھیں کہ آئی ایم ایف نے ورلڈ اکنامک آئوٹ لک رپورٹ جاری کردی ہے جس میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ رواں مالی سال پاکستان کی معاشی ترقی تین فیصد رہنے کا امکان ہے، جب کہ رواں مالی سال حکومت کا معاشی ترقی کا مقرر کردہ ہدف 3.6 فیصد ہے، آئندہ مالی سال پاکستان کی معاشی ترقی 4 فیصد تک جانے کا امکان ہے۔ اگر ہم دوسرے ملکوں کو دیکھیں تو رواں مالی سال امریکہ کی معاشی ترقی 2.7 فیصد، چین کی 4.6 فیصد اور برطانیہ کی معاشی ترقی 1.6 فیصد رہنے کا امکان ہے، لیکن پاکستان کی خوشحالی اور ترقی صنعت کار اور تاجر کو سازگار حالات ملنے سے ہی ممکن ہے۔ امید کرتے ہیں کہ حکومت ملک میں پائیدار ترقی و خوشحالی کے لیے جلد صنعت کار، تاجر دوست اقدامات کرے گی۔ صنعتوں، بازاروں اور مارکیٹوں پر ٹیکسوں کی شرح میں کمی کی جائے گی۔ صنعت و تجارت ہی ملکی معاشی ترقی کی بنیاد ہے جس سے ملک میں بے روزگاری اور غربت کی لہر میں کمی آئے گی۔ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں منفی 4 فیصد کمی ہوجانے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس طرح معاشی بہتری کے حکومتی دعووں کی قلعی کھل گئی، صنعتوں کا پہیہ رک گیا، رواں مالی سال کے دوران بڑی صنعتوں کی پیداوار مسلسل منفی رہی۔ وفاقی حکومت ایک طرف اڑان پروگرام میں لمبی لمبی اڑان کے دعوے کررہی ہے جبکہ دوسری طرف حقائق مختلف ہیں۔ وفاقی حکومت کے اپنے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں نومبر میں صنعتی پیداوار منفی 4 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ مہنگائی کم نہیں ہوئی ہے بلکہ چیزوں کی قیمتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق پہلے 5 ماہ میں بڑی صنعتوں کی پیداوار منفی ریکارڈ کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق بڑی صنعتوں کی پیداوار جولائی تا نومبر گزشتہ سال کے مقابلے میں منفی 1.25 فیصد رہی۔ ربڑ، لوہے اور اسٹیل کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی۔

فرائیڈے اسپیشل: حکومت کہہ رہی ہے کہ اس نے ملک کو نادہندہ ہونے سے بچایا؟

اسرار الحق مشوانی: چلیے مان لیتے ہیں یہ بات ٹھیک ہے، مگر اب عوام کو بھی تو زندہ رہنے دیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دستاویز کے مطابق نومبر 2024ء تک وفاقی حکومت کا قرضہ 70 ہزار 366ارب روپے رہا جو فروری 2024ء میں 64 ہزار 810 ارب روپے تھا۔ دستاویز کے مطابق موجودہ حکومت کے پہلے 9 ماہ میں مقامی قرض میں 5ہزار 556 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ یہ سارا بوجھ عوام پر ہی آئے گا۔ آج معاشی ماحول چند ماہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ غیر مستحکم اور غیر یقینی ہے، کیونکہ سارا نظام ہی دو طرفہ قرضوں کی واپسی اور آئی ایم ایف کی بیساکھیوں پر منحصر ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ترقی کچھ برسوں تک غیر یقینی رہے گی۔ معیشت ابھی بحال نہیں ہوئی ہے، حکومت بھی اصلاحات نافذ کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ پالیسی سازوں کو توقع ہے کہ بہتری آجائے گی، لیکن یہ خدشہ موجود ہے کہ آئی ایم ایف اور اے ڈی بی جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر امریکہ کے نمایاں اثر رسوخ کے ساتھ، خلیجی ممالک سے اقتصادی امداد اور ترسیلاتِ زر کو پاکستان کو تعمیل حکم پر مجبور کرنے کے لیے ہتھیار بنایا جا سکتا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: ملکی ترقی میں نجی شعبے کی اپنی ایک اہمیت ہے، اس کی کوئی وجہ؟

اسرار الحق مشوانی: نجی شعبہ ملک کا ایک اہم شعبہ ہے جو بے روزگاری اور غربت کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ اسٹارٹ اپس اور چھوٹے کاروباروں کو سپورٹ کرکے جدت طرازی اور انٹرپرینیورشپ کو فروغ دیتا ہے، نئی صنعتوں اور مواقع کی تخلیق کو آگے بڑھاتا ہے۔ ٹیکسٹائل، فارماسیوٹیکل، کانوں اور معدنیات، فوڈ پروسیسنگ، اور آئی ٹی جیسی صنعتوں میں زرمبادلہ کی کمائی کو بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے۔ عوامی خدمات اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی اہمیت تسلیم کی جانی چاہیے، ایسی پالیسیاں لائی جائیں جو انٹرپرینیورشپ، اختراعات اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں۔ حکومت اور نجی شعبے کے باہمی تعاون سے پاکستان کی اقتصادی صلاحیت کو بڑھاوا دیا جا سکتا ہے، ترقی کو فروغ مل سکتا ہے اور ایک خوشحال مستقبل کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ نجی شعبے کی جدت اور مارکیٹ کے بدلتے ہوئے رجحانات سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت پاکستان کو عالمی معیشت میں مسابقتی رہنے میں مدد دے سکتی ہے۔ اب دیکھیں کہ دبئی نے مسلسل دوسرے سال گلوبل پاور سٹی انڈیکس میں شاندار مقام حاصل کرلیا ہے۔ جاپان کی موری میموریل فاؤنڈیشن کے مرتب کردہ اس انڈیکس میں دبئی عالمی سطح پر آٹھویں اور مشرق وسطیٰ میں پہلے نمبر پر موجود ہے۔ دبئی کی یہ پوزیشن پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ دبئی کی تیز رفتار ترقی اور کاروبار دوست ماحول پاکستانی اسمال میڈیم انٹرپرائزز کے لیے شاندار مواقع فراہم کرتا ہے۔ پاکستانی سرمایہ کار پارٹنرشپس، ٹریڈ ایکسپوز اور فری زونز کے ذریعے دبئی کے گلوبل نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے اپنی کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔ دبئی نے اسٹارٹ اپس کی ترقی، ملازمت کے مواقع، ہنرمند ملازمین کی شمولیت اور مثالی معیارِ زندگی فراہم کرکے عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مزید مضبوط کی ہے۔ یہ کامیابیاں دبئی کے کاروباری اور تخلیقی آئیڈیاز کو پروان چڑھانے کے لیے فراہم کردہ سازگار ماحول کا نتیجہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں یہ سب کچھ پاکستان میں ہو اور یہاں بھی عام آدمی خوشحال ہو۔ یہاں کاروبار ہوگا تو عام آدمی خوش حال ہوگا۔

فرائیڈے اسپیشل: کیا یہاں بھی اچھے کاروباری دن نہیں آئیں گے؟

اسرار الحق مشوانی: نہیں ایسی بات نہیں ہے، لیڈرشپ کے ویژن کی بات ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ معاشی چیلنجز کے باوجود پاکستان معاشی استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پاکستان نے کڑے چیلنجز کے باوجود درست اقدامات کی بدولت معاشی کامیابیاں حاصل کیں۔ پاکستان ماحولیاتی طور پر سب سے زیادہ متاثر ممالک میں سے ایک ہے جہاں بار بار آنے والے سیلاب، ہیٹ ویوز اور پانی کی قلت جیسے عوامل خوراک کی سلامتی، بنیادی ڈھانچے کے استحکام اور لوگوں کے روزگار کے لیے خطرہ ہیں۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی اور سماجی پولرائزیشن ختم ہونی چاہیے، تب ہی بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تنازعات، بگڑتے ہوئے معاشی عدم استحکام اور ماحولیاتی بحران ختم ہوں گے۔ دیگر ترقی پزیر معیشتوں کی طرح پاکستان کو بھی پیچیدہ خطرات کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے اسٹرے ٹیجک لچک اور پالیسی میں جدت ضروری ہے۔ مہنگائی، کرنسی کی قدر میں کمی اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ سے پاکستان کی معیشت کمزور ہوسکتی ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: حکومت تو کہہ رہی ہے کہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام آخری ہوگا؟

اسرار الحق مشوانی: کہہ تو یہی رہی ہے۔ پاکستان چین کی مالیاتی منڈیوں تک رسائی کے لیے تیار ہے، پاکستان اپنے یوان بانڈ مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہانگ کانگ میں کارپوریٹ اسٹاک لسٹنگز کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے تیار ہے۔ رواں مالی سال کے آخر تک پانڈا بانڈ کا ابتدائی اجرا متوقع ہے۔ پاکستان چین مشترکہ منصوبے کی ہانگ کانگ میں لسٹنگ متوقع ہے، پاک چین تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے سی پیک ایک اہم قدم ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو کا فلیگ شپ منصوبہ ہے۔ اگر ملک میں قائم جمہوری نظام سبک خرامی کے ساتھ تسلسل سے چل رہا ہو، امن و امان کی صورتِ حال مثالی ہو، اور صنعت و تجارت کے فروغ کے لیے تمام وسائل دستیاب ہوں، جن میں تیل، بجلی، گیس کی سستے داموں وافر دستیابی بھی شامل ہے تو اس سے تاجروں اور صنعت کاروں کی ہی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی اور کسانوں کے لیے اپنی پیداوار بڑھانے کے راستے ہی نہیں کھلتے بلکہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے بھی سرمایہ کاری کے آسان اور محفوظ مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی سے ملک میں جاری سیاسی محاذآرائی، انتقام اور بدلے کی سیاست نے ملک کو سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کے راستے پر ڈالے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کا ناسور بھی ہمارے گلے پڑا ہوا ہے جس کے باعث عدم تحفظ اور غیریقینی کی فضا کے ملک کی معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے اور ملک کے اندر سرمایہ کاری کی مثالی فضا استوار نہیں ہوسکی۔ آئی ایم ایف کی ناروا شرائط نے پہلے ہی ملک کی معیشت کو جکڑ رکھا تھا۔ آنے والی اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کی ناراضی دور کرنے کے لیے اُس کی مزید کڑی شرائط قبول کرکے بجلی، تیل، گیس، ادویہ اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیاء کے نرخ تسلسل کے ساتھ بڑھانا شروع کردیے اور مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرکے اور انواع و اقسام کے نئے ٹیکس لگا کر عوام کے لیے تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی مشکل بنادیا، چنانچہ عوام کے بڑھتے اضطراب کے نتیجے میں حکومت کو گورننس اور سسٹم کے استحکام کے لیے بھی چیلنج درپیش ہوگئے۔ اسی فضا میں ملک کی اقتصادی سمت درست کرنے کا عزم باندھا جارہا ہے۔ حکومت عوام کو خاطرخواہ ریلیف دے کر انہیں مطمئن کرے گی تو ان کی توجہ انتشار کی سیاست سے خودبخود ہٹتی چلی جائے گی۔

فرائیڈے اسپیشل: امریکی صدر کی پالیسیاں کہاں تک پاکستان کو نقصان پہنچا سکتی ہیں؟

اسرار الحق مشوانی: ابھی حال ہی میں امریکی پابندیاں ایران کے لیے پاکستانی برآمدات کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئیں۔ گزشتہ مالی سال ایران کے لیے پاکستانی برآمدات محض 20 ہزار ڈالر رہنے کا اندیشہ ہے، اس کے مقابلے میں پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا، گزشتہ مالی سال ایران سے پاکستانی درآمدات ایک ارب ڈالر سے زائد رہیں۔گزشتہ 5 برسوں میں ایران کے لیے پاکستانی برآمدات مجموعی طورپر صرف ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر رہیں، جبکہ درآمدات مجموعی طور پر 3 ارب 65 کروڑ ڈالر رہیں۔

فرائیڈے اسپیشل: حکومت کچھ اصلاحات بھی لارہی ہے۔

اسرار الحق مشوانی: کیا اصلاحات لائے گی! سیلزٹیکس فراڈ کیسز میں 77 ایف آئی آرز کا اندراج کیا گیا ہے، سیلز ٹیکس فراڈ کی کُل رقم 411 ارب 77 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ کسٹمز فراڈ کے 299 مقدمات میں کُل 30 ارب روپے سے زائد کا فراڈ کیا گیا ہے۔ حکومت کو علم ہی نہیں کہ ملک میں کپاس کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی ہوگئی ہے، 10 سال میں پیداوار 14 ملین گانٹھوں سے 5 ملین گانٹھوں تک رہ گئی ہے جس کی وجہ سے 2 سے 3 ارب ڈالر کی کپاس امپورٹ کرنا پڑ رہی ہے اور ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ ملکی پیداوار پر سیلز ٹیکس ہے اور امپورٹڈ کاٹن پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ امپورٹڈ کاٹن پر کسٹم ڈیوٹی لگائی جائے،کپاس پر حکومتی سپورٹ پرائس مقرر کی جائے۔ کاٹن پر ریسرچ کا فقدان ہے۔ کاٹن کی بڑے پیمانے پر فصلیں لگانے کی حوصلہ افزائی کی جانی جائے۔ یہ پاکستان کو غیر ملکی زرِمبادلہ کما کر دے سکتی ہے۔ رئیل اسٹیٹ بزنس جسے اپنا گھر اور اپنی چھت دینی ہے یہ شعبہ پس رہا ہے، ہر حکومت نے اپنی چھت کا نعرہ تو لگایا لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہے۔ اب اس حکومت سے امید کی جارہی ہے کہ ہوسکتا ہے کچھ بہتری آجائے۔