دارالمؤلفین جامعہ فتحیہ (لاہور) ایک علمی و تحقیقی ادارہ ہے جس کی بنیاد مولانا میاں محمد اسلم جان مجددی نے1954ء میں رکھی تھی۔ اس ادارے کے مقاصد میں سے ایک اہم ترین مقصد حکمت ِدین اور عصری تفقہ کی حامل ایسی کتب کی اشاعت تھی جو عہدِ حاضر کی فکری اور علمی الجھنوں کا حل پیش کرسکیں۔ علاوہ ازیں منتخب و نایاب کتب اور مخطوطات کی تحقیق وتدوین کے ساتھ اشاعت بھی اس کے بنیادی مقاصد کا حصہ رہی۔ حال ہی میں اس ادارے کا دوبارہ احیا کیا گیا ہے اور برصغیر کے نامور عالم مولانا محمد تقی امینی ؒ (1926ء۔ 1991ء)کی شہرۂ آفاق تصنیف’’احکامِ شرعیہ میں حالات وزمانہ کی رعایت‘‘ کو نئے، اور تحقیق و تدوین کے ساتھ نہایت عمدہ انداز میں شائع کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے بارے میں حافظ میاں محمد نعمان (مہتمم جامعہ فتحیہ، لاہور) رقم طراز ہیں:
’’مولانا محمد تقی امینی کی کتاب ’’احکامِ شرعیہ میں حالات و زمانہ کی رعایت‘‘ حقیقتاً اپنے وقت کی ایک شاہکار تصنیف ہے جس کے توسط سے مولانا مرحوم، شاہ ولی اللہؒ کی فکر کو روبہ عمل لاتے ہوئے امت کو آج کے فکری، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی زوال سے چھٹکارا حاصل کرکے ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہونے کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں اور اس ضمن میں حالات و زمانہ کی رعایت کو مسلم معاشرے کی تشکیل ِنو کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ مولانا اپنی مذکورہ کتاب میں معاشرے کو شریعت سازی کی بنیاد قرار دیتے ہیں اور احوال و مصالح یعنی حالات و مصلحتوں کو عمارت تعمیر کرنے کا سامان۔‘‘
جیسا کہ خود مولانا امینی نے اس ضمن میں لکھا:
’’جب معاشرے میں تبدیلی ہوگی تو لازمی طور سے احکام شرعیہ کی شکل صورت بدلے گی، اور جب مصلحتیں و حالات باقی نہیں رہیں گے تو ان سے بنی ہوئی عمارت بھی ختم ہوجائے گی۔ ہدایتِ الٰہی نے ہمیشہ ’’شرائع‘‘ کے نزول میں بنیاد و سامان دونوں کا لحاظ کیا ہے اور اسی وجہ سے شرائع یعنی اصولی ہدایت اور مناہج یعنی عملی طریقہ کار کے اختلاف کو برقرار رکھا ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر کسی زمانے میں ان کا لحاظ نہ کیا گیا تو شریعت اور معاشرے کا رشتہ منقطع ہوجائے گا۔ پھر شریعت زندگی سے کنارہ کشی پر مجبور ہوجائے گی یا اس کی چاکری میں مشغول رہے گی۔‘‘
مولانا نے اس کتاب میں بالترتیب قرآن و سنت، صحابہ کرامؓ کی زندگی اور فقہاء کے کارناموں سے احکامِ شرعیہ میں حالات و زمانہ کی رعایت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ اس تالیف میں ایک طرف وہ روایت سے جڑے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف عصر ِحاضر کی عقلی الجھنوں اورفکری مغالطوں کا بھرپور ادراک رکھتے ہیں اور کمال ِحکمت وفراست کے ساتھ ان کا جواب بھی دیتے ہیں۔ اس وقیع تالیف میں قرآن وسنت سے استفادے کے ساتھ ساتھ محدثین اور بالخصوص فقہاء و مفکرینِ اسلام کے افکار سے رہنمائی کا التزام بھی نظر آتا ہے۔
مولانا نے اپنی مجموعی فکر میں بالعموم اور اس کتاب میں بالخصوص ثابت کیا ہے کہ دین کا قانونی، فقہی اور تہذیبی سرمایہ محض ’’تاریخی تبرک‘‘ نہیں ہے بلکہ یہ دینِ فطرت، سماج کے زندہ مسائل کو پُرحکمت طریقے سے حل کرتا ہے۔ مولانا کی اس کتاب کا عنوان ہی ایک پہلو سے عصرِ رواں کے فکری چیلنج کا جواب ہے۔ آپ اپنی اس کتاب کے عنوان کی معنویت پر بھی روشنی ڈال کر ایک غلط فہمی دور کرتے ہیں:
’’دعوت سے مقصود حفاظتِ دین واقامت ِدین ہے اور مطلوب شرعی احکام ہیں۔ اگر جواب دہی کا تصور اور تعلق باللہ کا جذبہ سرد پڑگیا تو یہ مقصود و مطلوب دونوں فوت ہوجائیں گے۔ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ دو صورتیں ہیں: (1) احکامِ شرعیہ میں حالات و زمانہ کی رعایت، (2) حالات و زمانہ کی رعایت میں شرعی احکام۔ پہلی صورت میں فطرت کی جہاں بینی ہے اور دوسری میں کسی ’’جمشید‘‘ کا ساغر بننا ہے۔ پہلی میں اصل شرعی احکام ہیں اور دوسری میں اصل حالات و زمانہ کی رعایت ہے۔‘‘
پیشِ نظر کتاب درجِ ذیل 6 ابواب پر مشتمل ہے:
1۔ قرآنِ حکیم سے حالات و زمانہ کی رعایت کا ثبوت، 2۔ سیاستِ شرعیہ کی بحث، 3۔ سنت سے حالات و زمانہ کی رعایت کا ثبوت، 4۔ صحابہ کرامؓ کی زندگی سے حالات و زمانہ کی رعایت کا ثبوت، 5۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی اصلاحات اور اقدامات، 6۔ خلافتِ فاروقیؓ میں حالات و زمانہ کی رعایت کا ثبوت۔
مولانا امینی کی اس کتاب کی تحقیق و تدوین کا فریضہ مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف(صدر شعبہ اسلامیات، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، لاہور) نے بڑی عرق ریزی اور بہت خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیش ِ نظر ایڈیشن متعدد معنوی خصوصیات اور ظاہری جمال کا حامل ہے۔ جیسا کہ فاضل محقق نے حوالہ جات کا اصل کتب سے موازنہ کرکے تصحیح ِمتن کا اہتمام کیا ہے۔ کتب متداولہ کی روایات کے علاوہ کتاب میں مذکور اہم روایتوں کو حاشیے میں مکمل متن کے حوالے سمیت درج کیا ہے۔ کئی مقامات پر مولانا کی مراد کو واضح کرنے کے لیے ان کے مخدوفات کو قوسین میں بیان کردیا ہے۔ اس سے تفہیم ِعبارت میں آسانی ہوگئی ہے۔ مشکل الفاظ و اصطلاحات کی وضاحت بھی کردی ہے۔ علاوہ ازیں کتاب کی ابتدا میں مولانا امینی کا سوانحی و علمی خاکہ اور آخر میں کتا ب کا جامع اشاریہ (Index) بھی دیا گیا ہے۔