50 فیصد پاکستانی غربت کی لکیرکی دہلیز پر

وزارتِ تخفیف غربت کے منصوبے

آئینِ پاکستان کی دفعہ 38 کے تحت عوام الناس کی بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی، فلاح و بہبود اور خوشحالی کی مکمل ضمانت دی گئی ہے۔ اس دفعہ کی شق ’د‘ کے مطابق ریاست پاکستان… اُن تمام شہریوں کے لیے جو کمزوری، بیماری یا بے روزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں… بلا لحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل بنیادی ضروریاتِ زندگی، خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد فراہم کرے گی۔

لیکن افسوس، پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے 76سال گزر جانے کے باوجود بھی یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا، جس کے نتیجے میں شہریوں کی اکثریت غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

غربت (Poverty) کی اصطلاح عموماً کسی انسانی معاشرے میں شہریوں کی بنیادی ضروریات کے پس منظر میں استعمال ہوتی ہے۔ ماہرینِ اقتصادیات کے مطابق اگر کسی شخص کی یومیہ آمدنی 2.15 امریکی ڈالر (پاکستانی تقریباً 602 روپے) ہے تو وہ غریب کی صف میں شمار ہوگا۔ تاہم اگر یومیہ آمدنی اس سے بھی کم ہو تو اسے غریب ترین (Poorest in the poor) طبقے میں شمار کیا جائے گا، یعنی ایسا طبقہ جو دو وقت کے روٹی، اپنا اور اہلِ خانہ کا سرچھپانے، صحت کی دیکھ بھال اور بچوں کی تعلیم کی استطاعت نہیں رکھتا۔ ماہرین کے مطابق غربت کی لکیر(Line of poverty) مال و زر کی آخری حد ہے، اگر کوئی شخص اس لکیر کی حد میں داخل ہوجاتا ہے تو وہ غریب کی فہرست میں شمار ہوگا۔ کم ترین معیارِ زندگی (Minimum Standard of living) کسی معاشرے میں غربت کی سطح کو ناپنے کا پیمانہ ہے جسے غربت کی دہلیز (Poverty Threshold) کہاجاتا ہے۔ انسان کے انسان کے ساتھ جبر و استحصال کی مذمت کرنے والے معروف روسی ناول نگار اور فلسفی ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ غربت کی بنیادی وجہ معاشرے میں چند لوگوں کو عطا کردہ ناجائز مراعات (Monopoly) ہوتی ہیں، ورنہ ہر شخص جائز طریقے سے اپنے جینے کا بندوبست کرسکتا ہے۔ لیکن مراعات زدہ معاشرے میں انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تاکہ معاشرے میں بے روزگاری بڑھے اور سرمایہ داروں کو مارکیٹ میں سستے مزدور دستیاب ہوسکیں۔

غربت کو جرائم کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔ معاشرے میں بڑھتے جرائم، لوٹ مار، بدعنوانیاں، اور خیراتی دستر خوانوں پر پیٹ کی آگ بجھانے والے غریب ترین افراد کے جم غفیر معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت کی بھرپور عکاسی کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے دنیا کے انسانوں کو ابھی تک کوئی اچھا معاشی نظام نہیں مل سکا جس کے نتیجے میں بدترین سودی نظام کی وجہ سے انسان کا ایک گروہ امیر سے امیر تک، جبکہ اکثریت غریب سے غریب تک ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس غیر منصفانہ معاشی نظام کے نتیجے میں تقریباً نصف دنیا یعنی تین ارب سے زائد آبادی یومیہ ڈھائی امریکی ڈالر سے کم آمدنی پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔

عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس ایک کروڑ 25 لاکھ مزید پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک میں غربت کی شرح 50 فیصد سے زائد تک پہنچ گئی ہے، یعنی ملک کی نصف آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، جو پوری قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

اقوام متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق اس وقت دنیا کی تقریباً 734 ملین آبادی غربت کی لپیٹ میں ہے۔ جبکہ عالمی بینک نے دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی غربت و افلاس اور کم آمدنی کی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ستمبر 2022ء میں غربت کی عالمی لکیر (International Poverty Line) کے عالمی پیمانے پر نظرثانی کی تھی، جس کے تحت شہریوں کی مساوی قوتِ خرید(Purchasing Power Parity) کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لیے کم از کم 2.15 امریکی ڈالر یومیہ آمدنی،کم اوسط آمدنی والے ممالک کے کارکنوں کے لیے 3.65 امریکی ڈالر یومیہ آمدنی، اور بالائی اوسط آمدنی والے ممالک کے کارکنوں کے لیے 6.85 امریکی ڈالر یومیہ آمدنی مقرر کی گئی تھی۔ تادم تحریر ایک امریکی ڈالر کی قیمت پاکستانی 280 روپے کے مساوی ہے، جبکہ ملک میں غیر ہنرمند کارکنوں کی سرکاری کم از کم اجرت 37,000روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے جو یومیہ 1,193 روپے بنتی ہے، جس سے پاکستانی شہریوں کی اکثریت کے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب حکومت ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے۔ اس مقصد کے تحت پاکستان تخفیفِ غربت فنڈ (PPAF) کا قیام فروری1997ء میں ایک غیر منافع بخش ادارے کی حیثیت سے عمل میں آیا تھا تاکہ معاشرے میں منصفانہ مساوات پیدا کرکے غریب افراد کی زندگیاں تبدیل کی جاسکیں۔ تخفیفِ غربت فنڈ غریب ترین افراد کو ذریعہ معاش کی فراہمی، تنوع اور شمولیت، قدرتی آفات میں مدد، صنفی مساوات، غربت کی درجہ بندی، موسمیاتی تبدیلی، ادارہ جاتی ترقی، تعلیم و صحت کی فراہمی اور پانی اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل میں مصروفِ عمل ہے۔ پاکستان تخفیفِ غربت فنڈ(PPAF) اپنے دو دہائیوں پر مشتمل تجربے کی بنیاد پر ’’جہاں سب سے زیادہ ضرورت مند ہیں‘‘ کے تحت غیر وابستگی اور غیر جانب داری کے ذریعے ملک کے طول و عرض کے 150 اضلاع میں 158 شراکتی تنظیموں کے ساتھ غربت کے خاتمے کا پروگرام پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہے، جس کے تحت بلاسودی قرضوں کے پروگرام کے ذریعے 3,385,800 مستحق افراد مستفید ہوئے جن میں خواتین 65 فیصد ہیں۔ صحت، تعلیم، آب رسانی اور بنیادی ڈھانچے کے 39,700 منصوبے مکمل ہوچکے ہیں، جبکہ 8.4 ملین روپے کے مائیکرو کریڈٹ قرضے فراہم کیے گئے، ملک کے 63 غریب ترین اضلاع کے 203،400 کمزور غریب افراد میں (63 فیصد خواتین) پیداواری اثاثہ جات کی منتقلی کی گئی،کمیونٹی آرگنائزیشنز میں440,000 کریڈٹ/کامن انٹرسٹ گروپوں میں 152,000روپے تقسیم کیے گئے، جبکہ 1,162,200 غریب افراد نے روزگار کے لیے مختلف ہنر کی تربیت حاصل کی (48 فیصد خواتین)، چھوٹے کاروبار چلانے والے 1,275 افراد کو پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی گئی(47 فیصد خواتین)، اور قدرتی آفات سے متاثرہ 1.8ملین مستحق افراد کی مدد کرنے کے علاوہ 2005ء کے 122,000 زلزلہ متاثرین کے گھروں کی تعمیرنو کی گئی۔

حکومتِ پاکستان نے ملک میں غربت کی سطح کم کرنے اور بنیادی حقوق سے محروم طبقے کو ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے لیے 2020ء میں وفاقی سطح پر وزارتِ تخفیفِ غربت اور سماجی بچاؤ قائم کی تھی، تاکہ زندگی کی بنیادی ضروریات اور معاشی مواقع فراہم کرکے معاشرے کے کمزور ترین طبقات کو غربت کی دلدل سے باہر نکالا جاسکے۔ وزارت کے تحت ملک میں غریبوں میں غریب ترین افراد (Poorest in the poor) کو روزمرہ خوراک اور مالی کفالت کی فراہمی کے لیے چار بڑے قومی فلاحی ادارے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، پاکستان بیت المال، پاکستان تخفیف غربت فنڈ(PPAF) اور ٹرسٹ فار والنٹیئر آرگنائزیشنز(TVO) نمایاں طور پرخدمات انجام دے رہے ہیں۔جبکہ وزارت کوچاروں صوبوں میں زکوٰۃ کی وصولیابی اور مستحق افراد میں تقسیم کرنے کی ذمہ داری بھی سپرد کی گئی ہے۔

وزارتِ تخفیف ِغربت اور سماجی بچاؤ حکومت ِپاکستان اپنے قیام کے مقاصد کے تحت بہتر طرزِ حکمرانی، دیانت داری، شفافیت اور جواب دہی کے عمل کو بہتر بنانے کے ایک تفصیلی منصوبے پر عمل درآمد کررہی ہے۔ اس تفصیلی فلاحی منصوبے میں 9 زود اثر فلاحی اقدامات شامل ہیں جن میں بے نظیر کفالت پروگرام، بے نظیر نشو و نما پروگرام، بے نظیر انڈر گریجویٹ اسکالرشپ منصوبہ، بے نظیر تعلیمی وظائف، نیشنل پوورٹی گریجویشن پروگرام، بلاسودی قرضہ جات منصوبہ، نیشنل سوشیو اکنامک رجسٹری اور بے نظیر کفالت پروگرام میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے لیے نیو پیمنٹ سسٹم اور میکانزم کی تیاری شامل ہیں۔

وزارت نے ملک میں غربت میں کمی کے لیے سات اہداف مقرر کیے ہیں جن میں ایک کروڑ گھرانوں کے لیے سیفٹی نیٹ کی تشکیل، 3.8ملین غریب ترین افراد کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنا، ایک کروڑ گھرانوں کی طبی دیکھ بھال کے لیے مالی رسائی کو ممکن بنانا، پانچ ملین طلبہ(50 فیصد طالبات) کے لیے وظائف اور تعلیمی مراعات کی فراہمی، سات ملین افراد(90 فیصد خواتین) کے لیے مالی اور ڈیجیٹل شمولیت کے مواقع فراہم کرنا، غربت میں کمی کے لیے ماحول سازگار بنانا اور کثیرالشعبہ جاتی شراکت داری اور جدت کی مساوات کا فروغ شامل ہیں۔ وزارتِ تخفیفِ غربت اور سماجی بچاؤ ملک بھر میں غریب ترین افراد کو ضروری خوراک اور پناہ گاہوں کی فراہمی، محفوظ ذریعہ معاش کی فراہمی، انسانی سرمایہ (Human Capital) میں سرمایہ کاری کرنے کے علاوہ وفاقی اور صوبائی فلاحی اداروں کی تخفیف ِغربت کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی مؤثر نگرانی کا قومی فریضہ انجام دے رہی ہے۔