نوجوانوں کی جائز محرومیوں کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے ان کے جذبات کو معتدل رکھنا اور مثبت راستوں پر لگانا ایک بڑا چیلنج ہے
آزادکشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عبدالقیوم خان ایک اصطلاح بہت تواتر سے استعمال کرتے تھے، وہ تھی ’’فکری لام بندی‘‘۔ بالخصوص 1980ء کی دہائی میں جب اُن کی سیاست کو آزادکشمیر کے تعلیمی اداروں میں قوم پرست طلبہ تنظیموں کی منہ زور لہر کا سامنا تھا تو وہ اس لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے کی جانے والی اپنی سرگرمیوں کو ’’فکری لام بندی‘‘ کا نام دیتے تھے۔
اب دہائیوں بعد یہ بھولی بسری اصطلاح ایک بار پھر عوام کی سماعتوں سے ٹکرانے لگی ہے۔ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے اتوار کو کوہالہ کے مقام پر ایک تاریخی کنونشن کا انعقاد کیا، جس میں قرب وجوار سے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ شرکاء میں خواتین کی ایک معقول تعداد بھی تھی۔ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے اس کنونشن اور کوہالہ کے مقام کے انتخاب میں گہری معنویت تھی۔ پُرجوش شرکاء ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘، اور ’’پاکستان کا مطلب کیا… لاالٰہ الااللہ‘‘ کے نعرے بلند کررہے تھے۔ بہت سے شرکاء کے ہاتھوں میں سردار محمد عبدالقیوم خان اور سردار عتیق احمد خان کی تصویریں تھیں۔ کنونشن میں آزادکشمیر کے شہریوں کے ساتھ ساتھ کوہالہ پار کے عوام اور سیاحوں نے بھی شرکت کی۔ کنونشن میں کُل جماعتی حریت کانفرنس کا وفد چیئرمین آزاد کشمیر شاخ غلام محمد صفی کی قیادت میں شریک تھا۔
کوہالہ آزادکشمیر کا وہ انٹری پوائنٹ ہے جہاں مبینہ طور پرکچھ ہی عرصہ قبل سردار عبدالقیوم خان کی تصویر اور پاکستان کے پرچم کو کھرچنے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اب اسی ناخوش گوار واقعے کی شدت کم کرنے کے لیے سردار عتیق احمد خان نے یہاں ایک بڑے جلسے کے انعقاد کا فیصلہ کیا تھا اور اسے ’’کشمیر بنے گا پاکستان کنونشن‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔
اس کنونشن کے ذریعے مسلم کانفرنس نے کئی اہداف کامیابی سے حاصل کیے۔ مسلم کانفرنس نے آزادکشمیر کے غیر سیاسی ماحول اور جمود کی فضاء میں عوام کی بڑی تعداد کو جمع کرکے اُن لوگوں کو جواب دینے کی کوشش کی جو مسلم کانفرنس کو مُردہ گھوڑا قرار دیتے تھے۔ سردار عتیق نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسلم کانفرنس آج بھی آزادکشمیر کی زندہ قوت ہے۔ مگر اس دعوے کا اصل بیرومیٹر انتخابات ہوں گے، صرف اسلام آباد کے ناموافق ہوا کے جھونکوں کے تھمنے کی دیر ہے۔ دوسرا ہدف یہ حاصل ہوا کہ سردار عتیق احمد خان نے اہلِ پاکستان کو بتادیا کہ یہاں پاکستان کے ساتھ مخاصمت کے جذبات پر محبت اور موافقت کے جذبات حاوی ہیں۔ سردار عتیق احمد خان نے آزاد کشمیر کے عوام کو یہ پیغام دیا کہ مسلم کانفرنس اگلے انتخابات میں ایک متبادل ریاستی انتخابی قوت کے طور پر موجود ہوگی، اس لیے سیاسی کارکنوں کو ابھی سے اپنی نئی صف بندی کرنی ہوگی، جس کے بعد انتخابات کے موقع پر مسلم کانفرنس کا مال ِمسروقہ نجانے کہاں کہاں سے برآمد ہوگا۔
کوہالہ کنونشن سے سردار عتیق احمد خان نے ایک طویل خطاب کیا۔ انہوں نے آزادکشمیر کے قوم پرستوں پر کڑی تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم کانفرنس کے روایتی اور تاریخی مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر آج بھی پاکستان کا دفاعی حصار ہے، اور اس خطے کی حیثیت اور اہمیت جغرافیہ اور آبادی کے بجائے اس کی نظریاتی شناخت کی وجہ سے ہے۔ سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ کوہالہ کنونشن نظریۂ پاکستان کی تجدید ہے، اور اس بات کا ثبوت ہے کہ آزادکشمیر کے لوگ مملکتِ خداداد پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور اپنے ہاں پاکستان کے پرچم کو بلند دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں اور پاکستان کا خون کے عقیدے، تجارت، دفاع اور فکر کا رشتہ ہے، اس رشتے کو آسانی سے کمزور نہیں ہونے دیا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے کو بلند سے بلند تر ہونا چاہیے۔
آزادکشمیر کا نوجوان اِس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور جدید ذرائع ابلاغ کے باعث برپا ہونے والے طوفان کی لہروں میں بہہ رہا ہے۔ یہ نوجوان اُس عالمگیر تحریک کا حصہ ہے جو جدید ذرائع ابلاغ کی دین ہے اور جس میں نوجوانوں کا مرکزی کردار ہے۔ نوجوان انقلابات برپا کرنے اور کچھ کرگزرنے کو ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں، بس ایندھن کو دیا سلائی دکھانے کی دیر ہوتی ہے۔ دنیا میں جا بجا ایسے ہی حالات پیدا ہوتے نظر آتے ہیں جہاں نوجوان کچھ جائز محرومیوں اور ریاستوں کی جابرانہ پالیسیوں کے ردعمل میں جدید ذرائع ابلاغ کو ہتھیارکے طور پر استعمال کرکے اتھل پتھل میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ نوجوانوں کی جائز محرومیوں کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے ان کے جذبات کو معتدل رکھنا اور مثبت راستوں پر لگانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ آزادکشمیر کی آج کی سوسائٹی کو بھی یہ چیلنج درپیش ہے۔ ایک طرف حالات کے باعث معاشرے سے برین ڈرین کا عمل تیزی سے جاری ہے، تو دوسری طرف حالات سے عاجز آکر جانے والے نوجوان اپنی محرومیوں، اور مواقع اور امکانات نہ ہونے کی وجہ سے ایک ردعمل کا شکار ہیں اور اپنی سوسائٹی میں ردعمل کی لہروں کو تیز کرنے میں کوشاں ہیں۔ اس طرح آزادکشمیر حالات کی دو دھاری تلوار پر ہے۔ بے چینی اور اضطراب کی لہریں اگر حد میں نہ رہیں تو قریب تاک میں اور گھات لگائے بیٹھا دشمن حالات سے فائدہ اُٹھانے میں کوئی تاخیر نہیں کرے گا۔ ایسے میں آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے قائد سردار عتیق احمد خان نے آزادکشمیر کے نوجوانوں کے جذبات کو اعتدال کا راستہ دکھانے کا بارِ عظیم اپنے سر لیا۔ انہوں نے آزادکشمیر بھر میں ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ ریلیوں کے انعقاد کے بعد کوہالہ کنونشن کے ذریعے فکری لام بندی کا سلسلہ ایسے وقت میں شروع کیا جب آزادکشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور حکومت کے ٹکرائو کے باعث نوجوانوں کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ کیل سے بھمبر تک نوجوانوں کی سوچ کے دھارے ایک ہی انداز میں بہہ رہے تھے۔ سوسائٹی میں کھلے بندوں پاکستان اور حکومتِ پاکستان کی پالیسیوں کا دفاع کرنے والا یا تو کوئی نہیں تھا، یا ہر کوئی اس کام سے احتراز اور اغماض برت رہا تھا۔ بہت سے سیاست دان دفاعی پوزیشن اختیار کرچکے تھے یا پھر حالات کے آگے بے بس دکھائی دیتے تھے۔ ان حالات میں سردار عتیق احمد خان نے آگے آکر ایک تلخ مگر جرات مندانہ فیصلہ کیا انہوں نے کیل سے بھمبر تک نہ صرف مسلم کانفرنس کے نظریاتی کارکنوں کو موجودہ حالات کے اُلٹے رخ بہنے اور نظریۂ پاکستان کا علَم اُٹھانے پر آمادہ کیا بلکہ عام آدمی کو بھی تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی حکمتِ عملی اختیار کی، جس سے معاشرے کے اُن طبقات کو حوصلہ اور ولولہ ملا جو نظریاتی طور پر الحاقِ پاکستان پر تو یقین رکھتے تھے مگر موجودہ حالات کی لہر کے باعث مدافعانہ پالیسی یا خاموشی اور لاتعلقی کا رویہ اپنائے ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں یک طرفہ نظریاتی ٹریفک چل رہا تھا۔ حالات کے اس دھارے کو موڑنے کا سردار عتیق احمد خان کا فیصلہ بھاری پتھر کو اُٹھانے کے مترادف ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس پتھر کو اُٹھا پاتے ہیں یا اسے چوم کرچھوڑ دیتے ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں جنرل حیات خان اور جنرل عبدالرحمان کی حکومتوں کے دوران پیدا ہونے والے فکری انتشار کا مقابلہ کرنے کے لیے سردارعبدالقیوم خان بالکل اسی انداز سے میدان میں اُترے تھے، انہوں نے سال بھر میں کیل سے بھمبر تک نوجوانوں کو منظم کیا تھا، اور یوں وقت کا دھار ا بڑی حد تک مڑ گیا تھا۔ اس راہ میں اُن کی مزاحمت ہوئی تھی۔ ڈڈیال حملہ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی تھا، مگر سردار عبدالقیوم خان جیسی جرأت مند شخصیت نے حالات کا دھارا موڑ کر ہی دم لیا تھا۔