جمعیت کا سفر اور نئے دور کا چیلنج

جمعیت نے نظریاتی آویزش کے اس دور میں وہ کام کیا جو ریاستیں اور فوجیں کیا کرتی ہیں

ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے۔ جس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان اسلامی نظریات کا علم لے کر تعلیمی اداروں کے افق پر ابھرے، ملک کی نوجوان نسل لبرل اور اشترا کی نظریات کے طوفان میں گھری ہوئی تھی۔ جمعیت اس طوفانِ بلاخیز میں تنکا بن کر بھی ابھرتی تو غنیمت ہوتا، لیکن جمعیت تنکے کے بجائے ایک کشتی بلکہ ایک مضبوط سفینہ بن کر ابھری، اور اس نے ایسے لاکھوں نوجوانوں کو فکری سلامتی کے ساحل تک پہنچا دیا جو لبرل اور اشتراکی نظریات کے گرداب یا طوفان میں پھنسے ہوئے تھے، یا اس کی نذر ہوسکتے تھے۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس پر خدا کے حضور شکر کے ہزار سجدے گزارے جاسکتے ہیں اور انکسار آمیز فخر کی دس باتیں کی جاسکتی ہیں۔ شکر کے سجدے اس لیے کہ جمعیت سے وہ کام لیا گیا جس کے لیے وہ برپا ہوئی تھی، اور فخر کی باتیں اس لیے کہ دنیا کے بہت سے گوشوں میں جو کام صدیوں میں ہوئے، جمعیت نے وہ کام برسوں میں کرکے دکھا دیا۔

یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ جمعیت نے بے سروسامانی کے عالم اور نہایت نامساعد حالات میں کام شروع کیا تھا۔ معلوم نہیں کہنے والے یہ بات کس تناظر میں کہتے ہیں، لیکن یہ بات کئی وجوہ کی بنا پر اچھی نہیں لگتی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حق کی جدوجہد بے سروسامانی کے عالم میں ہی شروع ہوتی ہے اور نامساعد حالات ہی اس کے آغاز کا جواز ہوتے ہیں۔ یہ تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، تاہم ایک اور اعتبار سے دیکھیے تو جمعیت کو اپنے کام کی ابتدا کے لیے ایک نہایت سازگار زمانہ فراہم ہوا تھا۔ ایک ایسا معاشرہ اور ایک ایسا دور جس میں نظریات کی کشمکش برپا ہو، کسی نظریاتی تنظیم کے لیے انتہائی سودمند ہوتا ہے، کیونکہ اس عہد اور معاشرے میں اپنا مقدمہ دلائل کی بنیاد پر لڑا جاسکتا ہے اور خیالات و نظریات کی بنیاد پر افرادِ معاشرہ کو متحرک کیا جاسکتا ہے۔ 1960ء اور1970ء کی دہائیاں جن میں جمعیت کے اثرات تیزی کے ساتھ پھیلے، پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا دور تھا جب نظریاتی آویزش عروج پر تھی، خیال سے خیال ٹکرا رہا تھا، جذبہ جذبے کے مقابل تھا۔ جمعیت کے پاس ایک گہری فکری بنیاد موجود تھی اور اس کا مقابلہ ایسے نظریات سے تھا جن کے فکری اور تاریخی حوالے کمزور تھے، اور جو بہت سے لوگوں نے فیشن کے طور پر اپنائے تھے۔ اس لیے جمعیت کی کامیابی یقینی تھی۔ چنانچہ جلد ہی وہ وقت آگیا جب مغرب پرست لبرل اور اشتراکی، جمعیت کے خلاف ایک کیمپ بناکر کھڑے ہوگئے۔ یہ صورتِ حال بجائے خود جمعیت کے لیے خراجِ تحسین اور اس کی اہمیت کے اعتراف کے مترادف تھی۔ جمعیت نے نظریاتی آویزش کے اس دور میں وہ کام کیا جو ریاستیں اور فوجیں کیا کرتی ہیں۔

جمعیت کے لیے ایوب کی فوجی آمریت اور بھٹو کی سول آمریت ایک آزمائش کا زمانہ تھی، لیکن جمعیت کی حقیقی آزمائش جنرل ضیا الحق کے دور میں شروع ہوئی۔ طلبہ یونینوں پر پابندی سے ایک سال پہلے جمعیت نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی، اور صوبہ سرحد میں بھی اس کے اثرات بڑھ رہے تھے۔ ملک وقوم کی بدقسمتی کہ جنرل ضیا الحق نے اسے اپنے اقتدار کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھا اور انھوں نے تعلیمی اداروں میں سیاست کو تعلیم کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کردی، لیکن یہ پابندی طلبہ تنظیموں پر نہیں صرف جمعیت پر عائد کی گئی تھی۔ یہ سیاست کی مخالفت کے نام پر ایک اور قسم کی سیاست تھی جو بڑی حد تک کامیاب رہی۔ اس اقدام سے جنرل ضیا الحق کا اقتدار تو بے شک مضبوط ہوا لیکن ملک کی نظریاتی اساس کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ آج پھر ہم ملک کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بے سمتی کے جس مرض کو پھیلتے دیکھ رہے ہیں، اس کی ابتدا جنرل ضیا الحق کے دور میں ہوئی تھی۔ وہ جمعیت ہی کے نہیں، پاکستان کی تاریخ کے بھی مجرم تھے۔

جنرل ضیا الحق کی جانب سے عائد کی گئی پابندی نے بہت جلد طلبہ تنظیموں کو زوال سے دوچار کردیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ بھی اگر کوئی تنظیم ہوتی تو اس کا حشر شاید دوسری تنظیموں سے مختلف نہ ہوتا، لیکن جمعیت تنظیم نہیں تھی، تحریک تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام تر ابتر حالات کے باوجود نہ صرف یہ کہ زندہ ہے بلکہ اپنے ماضی کو حال، اور حال کو مستقبل سے مربوط کرتے ہوئے اپنی زندگی اور توانائی کا ثبوت دینے کے لیے بھی تیار ہے۔ لیکن سچ پوچھیے تو اس کے سامنے ماضی سے کہیں زیادہ بڑا چیلنج ہے۔ ہمارا معاشرہ تیزی کے ساتھ صحرا میں تبدیل ہورہا ہے، بہروں اور گونگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لوگ اپنی انفرادی اور اجتماعی شخصیت کے پست ترین گوشوں میں پناہ لینے کے لیے دوڑ رہے ہیں۔ صحرا میں اذان دینا مشکل کام ہے۔ بہروں تک اپنی بات پہنچانا محنت طلب مرحلہ ہے۔ گونگوں کا ردعمل معلوم کرنا دشوار ہوتا ہے، اور اپنی شخصیت کے پست ترین گوشوں میں پناہ ڈھونڈھنے والوں سے گفتگو اور کلام کا سلسلہ استوار کرنے کے لیے جان مارنی پڑتی ہے۔ اب نوجوانوں کا کیا، عدلیہ کے عمر رسیدہ جج صاحبان کا یہ حال ہوگیا ہے کہ انھیں بار بار جھنجوڑا جائے اور بتایا جائے کہ دراصل انھیں کیا کرنا چاہیے۔ ایک ایسے معاشرے میں نظریات کی بنیاد پر جدوجہد کرنے والوں کی مشکلات بہت بڑھ جایا کرتی ہیں۔ جمعیت کے سامنے حقیقی معنوں میں اب ایک نیا اور بڑا چیلنج ہے، اور اس چیلنج کے مقابلے کے لیے ضروری ہے کہ ایک نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ نظریاتی تنظیموں کی منصوبہ بندی ڈاکٹر کی منصوبہ بندی کی طرح ہوتی ہے۔ مرض بدل جائے تو ڈاکٹر دوا بدل دیتا ہے۔ نئی منصوبہ بندی کیا ہو؟ اس بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، لیکن سرِدست اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ہم ایک بحرانی کیفیت کا شکار ہیں اور ایک خاص طرح کی ہنگامیت ہم پر مسلط ہوگئی ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ ہم اس صورتِ حال کو جیسی ہے ویسی ہی تسلیم کریں اور اس اعتراف و ادراک کے حوالے سے اپنی منصوبہ بندی کریں۔

یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جمعیت کے دامن میں بہت سی کامیابیاں ہیں، لیکن اگر اس کے دامن میں کامیابیاں نہ بھی ہوتیں، صرف جدوجہد ہوتی تو بھی کافی تھا۔ اس لیے کہ تحریکیں کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے نہیں، جدوجہد کرنے کے لیے برپا ہوتی ہیں۔ کامیابیاں تو جدوجہد کی By Products ہوتی ہیں۔ لیکن بہرحال تحریکوں کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ جدوجہد کی سمت واضح رکھنے کے لیے درپیش مسائل و معاملات کا ادراک کریں۔ جدوجہد کی سمت واضح اور درست رہے تو پچاس کیا ایک ہزار سال کا سفر بھی معنی خیز ہوسکتا ہے۔

بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی اہمیت کا تعین ان کی موجودگی سے نہیں، عدم موجودگی کے مفروضے سے ہوتا ہے۔ ہم آنکھیں رکھتے ہیں، لیکن فرض کیجیے ہماری آنکھیں نہ ہوتیں۔ ہم قوتِ سماعت رکھتے ہیں، لیکن فرض کیجیے ہماری قوتِ سماعت نہ ہوتی۔ جمعیت نہ ہوتی تو شاید لاکھوں انسان وہ نہ ہوتے جو ہیں۔