سیکریٹری خارجہ وکرم مسری اور امیر خان متقی کی ملاقات ،ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے انڈیا کے ساتھ تجارت بڑھانے پر بات چیت
جب سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات تناؤ کا شکار ہیں، تب سے طالبان مسلسل بھارت کے ساتھ دو طرفہ روابط کو فروغ دینے کی راہ پرگامزن نظرآتے ہیں، اور یہی وہ صورتِ حال ہے جس نے نہ صرف پاکستان کی جھنجھلاہٹ میں اضافہ کیا ہے بلکہ اس حوالے سے پاکستان کی تشویش کو بھی واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ جب اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کے انخلا کے بعد ڈاکٹر اشرف غنی حکومت کے اچانک خاتمے پر طالبان کابل سمیت سارے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے تو اس موقع پر اکثر ماہرین کی رائے تھی کہ اس بڑی تبدیلی کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان کی افغانستان میں گرفت مضبوط ہوجائے گی بلکہ اس سے افغانستان سمیت پورے خطے میں بھارت کا اثر رسوخ بھی محدود ہوجائے گا۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے افغانستان کے حالات انتہائی دگرگوں اور مایوس کن نقشہ پیش کررہے ہیں۔ پاکستان اس دوران طالبان حکومت سے مطالبہ کرچکا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کرے جو افغان سرزمین پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کررہی ہے، لیکن طالبان پاکستان کے اس مطالبے پر نہ صرف مسلسل سرد مہری کا مظاہرہ کررہے ہیں بلکہ وہ متعدد مرتبہ ٹی ٹی پی کے خلاف کسی کارروائی سے انکار بھی کرچکے ہیں، جس کے بعد بتدریج پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان تعلقات تلخی اور تنائو کا شکار ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس دسمبر کے اواخر میں پاکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقوں پکتیکا اور خوست میں انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کیا تھا، جبکہ افغان طالبان حکومت نے اس کارروائی پر اسلام آباد سے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا تھا اور خبردار کیا تھا کہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری حکمران اسلامی امارت کے لیے سرخ لکیر ہے اور وہ اس کا جواب دے گا۔ جس کے بعد پاکستان کی حدود میں واقع سرحدی چوکیوں پر فائرنگ کے واقعات پیش آئے تھے۔
دراصل افغانستان میں اشرف غنی حکومت کے خاتمے پر ایسا لگتا تھا کہ انڈیا نے غنی دورِ حکومت میں افغانستان میں جو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے وہ ضائع ہوجائے گی، لیکن گزشتہ چند مہینوں میں انڈیا کے طالبان کے ساتھ رابطے بڑھے ہیں اور ایک بار پھر افغانستان اور انڈیا کے تعلقات میں گرمجوشی نظر آرہی ہے۔ انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے 8 جنوری کو دبئی میں طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی ہے جس میں دونوں ممالک نے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ طالبان کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان انڈیا کو ایک اہم علاقائی اور اقتصادی شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔ افغانستان کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے انڈیا کے ساتھ تجارت بڑھانے پر بات چیت ہوئی ہے۔
افغانستان کی وزارتِ خارجہ نے وکرم مسری سے ملاقات کے بعد جاری کردہ بیان میں مزید کہا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی متوازن ہے اور معیشت کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہے۔ ہمارا مقصد انڈیا کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی شراکت داری کو مضبوط بنانا ہے۔ دوسری جانب اس ملاقات کے بعد انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے پر غور کیا جارہا ہے اور تجارت بڑھانے پر بھی بات ہوئی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بھارت پاکستان کی جانب سے افغانستان میں فضائی کارروائی کی مذمت بھی کرچکا ہے۔ دوسری جانب دبئی میں طالبان اور بھارت کے درمیان ہونے والی ملاقات پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے کوئی باضابطہ ردعمل تو ظاہر نہیں کیا ہے، تاہم خارجہ امور کے ماہرین اس پیش رفت کو طالبان کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک اہم پیغام قرار دے رہے ہیں۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے ٹوئٹر پراپنے ایک تازہ بیان میں لکھا ہے کہ انڈین سیکریٹری خارجہ وکرم مسری کی طالبان کے وزیر خارجہ سے ملاقات پاکستانی منصوبہ سازوں کے لیے ایک سبق ہے، جو یہ سوچ رہے تھے کہ افغانستان میں طالبان کی آمد سے پاکستان کو فائدہ ہو گا اور انڈیا کا اثر رسوخ ختم ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام سوچ رہے تھے کہ کابل فتح کرنے کے بعد طالبان وہاں آجائیں گے اور پاکستان کا مستقبل محفوظ ہوجائے گا، لیکن وہ ہمارے گلے پڑ گئے ہیں۔
یہاں یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بھارت نے گزشتہ ساڑھے تین برس کے دوران طالبان کے نمائندوں کے ساتھ کئی مرتبہ بات چیت کی ہے۔ اس ضمن میں بھارتی وزارتِ خارجہ میں پاکستان، ایران اور افغانستان ڈیسک کے جوائنٹ سیکریٹری جے پی سنگھ بات چیت کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے نومبر میں کابل کا دورہ کیا تھا اور طالبان حکومت کے وزیرِ دفاع مولوی محمد یعقوب سے ملاقات کی تھی۔ جے پی سنگھ نے امیر خان متقی اور سابق صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی تھی۔ اس سال ان کا یہ کابل کا دوسرا دورہ تھا۔ اس وقت بھی فریقین نے بالخصوص انسانی بنیادوں پر باہمی تعاون کو فروغ دینے اور دونوں ملکوں میں مذاکرات کا عمل تیز کرنے پر زور دیا تھا۔ اس تناظر میں سیکریٹری خارجہ وکرم مسری اور امیر خان متقی کی ملاقات کو خاصی اہمیت دی جارہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس اعلیٰ سطحی رابطے کا مطلب یہ نہیں نکالنا چاہیے کہ بھارت کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے پر غور کررہا ہے، کیونکہ اس بات کا امکان کم ہے۔ ماہرین کے خیال میں اس اعلیٰ سطحی ملاقات کو حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ تعلقات، اور بنگلہ دیش کی طرف سے بھارت کے حوالے سے سخت مؤقف اختیار کیے جانے کے تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی وزارتِ خارجہ یا طالبان کے بیان میں خواتین کے حقوق کا کوئی ذکر نہیں ہے جو آگے جاکر دونوں ممالک کے ممکنہ تعلقات کی بہتری میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔
افغان بھارت تعلقات پر بات کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ماضی میں افغانستان اور بھارت کے دوطرفہ تعلقات روایتی طور پر مضبوط اور دوستانہ رہے ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کی پشت پناہی سے بننے والی افغان حکومت کو جنوبی ایشیا میں صرف بھارت نے تسلیم کیا تھا، البتہ 1990ء کی دہائی میں افغان خانہ جنگی اور طالبان حکومت کے دور میں یہ تعلقات گھٹ گئے تھے۔ بھارت نے افغانستان میں طالبان کی بے دخلی میں مدد کی تھی اور بعد میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کے دوران افغانستان کے لیے انسان دوست، اور تعمیراتی امداد کا سب سے بڑا علاقائی فراہم کنندہ بن گیا تھا۔ بھارت اس عرصے میں افغانستان کی تعمیروترقی کے منصوبوں میں کام کرتا رہا ہے۔ انھی دو طرفہ روابط کو بنیاد بناتے ہوئے2007ء میں حامد کرزئی کے ایک قریبی رشتے دار نے بیان دیا تھاکہ بھارت افغانستان کا محبوب ترین ملک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت علاقائی سطح پر افغانستان کو امداد دینے والا سب بڑا ملک ہے، جب کہ 3 بلین ڈالر کی اس امداد کے ساتھ بھارت عالمی سطح پر پانچواں بڑا ملک ہے جو افغانستان کی مالی معاونت کررہا ہے ۔
واضح رہے کہ بھارت نے افغانستان میں 200 سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں اور بعض اسپتالوں کی تعمیر کے علاوہ افغان پارلیمنٹ کی عمارت کی تعمیر بھی کی ہے اور ایک ہزار طلبہ و طالبات کو تعلیمی وظائف دینے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک میں 16 ہزار افغان طلبہ و طالبات کو تعلیمی اداروں میں داخلہ بھی دیا ہے۔ لہٰذا ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر افغان حکومت اور بھارت کے درمیان مذاکرات آگے بڑھتے ہوئے دونوں ملکوں کے دو طرفہ تعلقات خوشگوار رخ اختیار کرتے ہیں تو اس کا سب سے بڑا دھچکا یقیناً پاکستان کو لگے گا، جس پر طالبان کو سپورٹ کرنے کے سنگین الزامات کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی جانب سے ڈبل گیم کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں، اور شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی وزارتِ خارجہ پچھلے دنوں یہ وضاحت کرچکی ہے کہ پاکستان امریکہ کا کبھی نان نیٹواتحادی نہیں رہا ہے جس سے بھارت کی نظر میں پاکستان کی سبکی ہوئی ہے۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان اس صورتِ حال کو کیسے ڈیل کرتا ہے، کیونکہ اس حوالے سے کوئی بھی بلنڈر پاکستان کو… جو پہلے سے بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں بدامنی کے حوالے سے مسائل سے دوچار ہے… بھارت کے افغانستان میں پنجے گاڑنے سے مزید مسائل اور مشکلات کا شکار کرسکتا ہے۔