ٹرمپ کی تقریب ِحلف برداری

ایک قوم، ایک خدا، دو جنس (مرد اور عورت) خلیج میکسیکو کا نام تبدیل، نہر پاناما پر قبضے کا عزم

ڈونلڈ جے ٹرمپ نے امریکہ کے 47 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ یہ لمحہ کئی اعتبار سے تاریخی قرار دیا جاسکتا ہے۔

٭ڈونلڈ ٹرمپ 1892ء کے بعد پہلی مدت کے بعد ہارکر دوبارہ جیتنے والے پہلے صدر ہیں، جناب کلیولینڈ 1884ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر صدر منتخب ہوئے اور چار سال بعد 1888ء میں انھیں صدر بن یامین ہیریسن (Benjamin Harrison) نے ہرا دیا۔ 1892ء کے انتخابات میں وہ ایک بار پھر سامنے آئے اور صدر بن یامین ہیریسن کو ہراکر انھوں نے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا۔

٭ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جنھیں دوبار مواخذے کا سامنا کرنا پڑا، اور 47 ویں امریکی صدر عدالت سے 32 الزامات میں ’مجرم‘ ثابت ہوچکے ہیں۔

٭ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے دو بارخواتین کو شکست دی اور مرد سے ہارگئے۔

٭جناب ٹرمپ امریکی صدر کا حلف اٹھانے والے معمرو امیر ترین صدر ہیں۔ ان کی کابینہ میں ارب پتی وزرا کی تعداد 13 ہوگی۔

٭حلف اٹھانے کے فوراً بعد انھوں نے 200 سے زیادہ صدارتی احکامات یا Executive Orders جاری کیے جو بذاتِ خود ایک ریکارڈ ہے۔

٭چالیس سال بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی صدر کی تقریبِ حلف برداری Indoor ہوئی۔ خراب موسم کی وجہ سے 20 جنوری 1985ء کو آنجہانی رونالڈ ریگن نے بھی گنبدِ کانگریس (Capitol Rotunda) میں حلف اٹھایا تھا۔

ٹرمپ انتظامیہ کو مقننہ اور عدلیہ دونوں کی مکمل حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے انھیں قانون سازی میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، اور اگر صدارتی احکامات کے خلاف ان کے مخالفین عدالت گئے تو فیصلہ ٹرمپ صاحب کے حق میں ہونے کی توقع ہے۔

موجودہ انتخابی مہم کے دوران میں 2016ء کے مقابلے میں صدر ٹرمپ نے مسلمانوں کے بارے میں براہِ راست کوئی منفی بات نہیں کی، بلکہ کامیابی کے بعد حامیوں سے خطاب میں انھوں نے مسلمانوں کی حمایت کا فخریہ اعتراف کیا۔ تاہم انھوں نے انتظامیہ کے لیے جن افراد کا انتخاب کیا ہے وہ سب کے سب مسلمانوں اور فلسطینیوں کے بارے میں نہ صرف منفی رویہ رکھتے ہیں بلکہ اس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لہجے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں۔

مارک روبیو ان کے وزیر خارجہ، پیٹ ہیگسیتھ (Pete Hegseth)وزیردفاع، کاش پٹیل FBIکے سربراہ اور جان ریٹکلف (John Ratcliffe) سی آئی اے کے ڈائریکٹر ہوں گے۔ محترمہ تلسی گیببورڈ کو نیشنل انٹیلی جنس کی سربراہی سونپی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ محترمہ ایلس اسٹیفانک (Else Stefanic)کو سفیر برائے اقوام متحدہ اور مائک ہکابی کو اسرائیل میں امریکہ کا سفیر مقرر کیا گیا ہے۔

بلا استثنیٰ یہ سب کے سب انتہائی متعصب، اسرائیل کے پُرجوش حامی اور مسلم مخالف ہیں۔ مائک ہکابی صاحب نے اسرائیل پہنچتے ہی کہا کہ ’’فلسطینی کوئی لسانی و معاشرتی اکائی نہیں، اسرائیل چار ہزار سال سے بنی اسرائیل کا وطن ہے، عربوں کے بہت سارے ممالک ہیں، پائیدار امن کے لیے سب سے مناسب بات یہ ہے کہ خود کو فلسطینی کہنے والے اردن، شام، لبنان اور مصر چلے جائیں‘‘۔ کچھ ایسے ہی خیالات اسٹیفانک صاحبہ کے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ میں اسرائیل مخالف مظاہروں کی کوئی جگہ نہیں۔ جن لوگوں کو فلسطینی حقوق کا خیال ہے وہ مشرق وسطیٰ جاسکتے ہیں۔‘‘

جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں، صدر ٹرمپ پتّے چھپانے کے قائل نہیں، اور وہ ہر بات ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر کا حلف اٹھاتے ہی انھوں نے 200 صدارتی احکامات (ایگزیکٹو آرڈر) جاری کرکے نئے امریکہ کی نظریاتی سمت متعین کردی۔ غیر ملکی تارکین وطن کا راستہ روکنے کے اقدامات کے ساتھ انھوں نے انسدادِ دہشت گردی کے عنوان سے جو حکم جاری کیا اس کے مطابق اسرائیل کے خلاف مظاہرہ کرنے والے غیر ملکیوں کے امریکی ویزے منسوخ کیے جاسکیں گے۔ حکم کے تحت سفارت خانوں اور ویزہ مراکز کو اس بات کا پابند بنایا جارہا ہے کہ وہ درخواست کنندگان کے نظریاتی تجزیے اور تفصیلی چھان بین کے بعد ویزے جاری کریں گے۔ ایک اور صدارتی حکم کے تحت صدر ٹرمپ نے غربِ اردن میں فلسطینیوں پر دہشت گرد حملوں میں ملوث اسرائیلی قبضہ گردوں پر امریکی پابندی کالعدم کردی۔ یہ پابندی سابق صدر بائیڈن نے عائد کی تھی۔ اس قسم کے مزید احکامات بہت جلد جاری ہونے کی توقع ہے۔

ٹرمپ کا امریکہ کیسا ہوگا، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے، تاہم ٹرمپ سرکار مسلمانوں کے لیے اچھی نظر نہیں آرہی۔ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اسرائیل کو عرب و اسلامی دنیا سے تسلیم کرانا ان کی ترجیح اوّل ہے اور وہ اس معاملے میں جبر کا ہر ہتھکنڈا استعمال کریں گے۔ حلف اٹھانے کے بعد جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات کب تک متوقع ہیں؟ تو وہ بے دھڑک بولے ’’اب یہ دن نہیں تو مہنیوں کی بات ہے، زیادہ سے زیادہ اس سال کے آخر تک‘‘۔ نامزد وزیرخارجہ مارکو روبیو نے توثیق کے لیے سینیٹ میں سماعت کے دوران کہا کہ اسرائیل سے اسلامی دنیا کے تعلقات مشرق وسطیٰ کے امن اور علاقے کے استحکام کے لیے ضروری ہیں۔ خیال ہے کہ اس معاملے میں سعودی عرب، پاکستان اور انڈونیشیا پر شدید دبائو ڈالا جائے گا۔

گفتگو کے اختتام پر حلف برداری کے بعد صدر ٹرمپ کے افتتاحی خطاب سے اہم اقتباسات، جس سے قارئین اندازہ لگا سکیں گے کہ اگلے چار برس چچا سام کی ترجیحات کیا ہوں گی:

٭’’سب سے پہلے امریکہ‘‘، ہم دنیا کی حفاظت کے لیے ٹیکس دہندگان کی رقم اڑا رہے ہیں جبکہ ہماری اپنی سرحدیں غیر محفوظ ہیں۔ ملک کو کرپشن کا سامنا ہے۔ ہمارے اساتذہ بچوں کو ملک سے نفرت سکھا رہے ہیں۔

٭میرے حلف اٹھاتے ہی امریکہ کے انحطاط کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ راستہ روکنے کے لیے میری زندگی ختم کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن میرے خدا نے مجھے زندہ رکھا تاکہ میں امریکہ کو عظیم تر بنائوں۔ امریکی عوام کے لیے 20 جنوری 2025ء اصلی یوم آزادی ہے۔ ہم جنگ لڑنے کے بجائے دنیا سے جنگ ختم کرنے کو ترجیح دیں گے۔

٭جنوبی سرحد پر ہنگامی حالت کا اعلان کرتا ہوں۔ ہم جنوبی سرحد پر فوج بھیجیں گے تاکہ غیر قانونی تارکین وطن کا راستہ روکا جاسکے۔

٭توانائی میں خودکفالت کے لیے Drill Baby Drillہماری حکمت عملی ہے۔ ہم ساری دنیا کو تیل اور گیس برآمد کریں گے۔

٭سینسر شپ کے مکمل خاتمے کے ساتھ آزادیِ اظہار کو یقینی بنایا جائے گا۔

٭خلیج میکسیکو کا نام اب خلیج امریکہ ہوگا۔ ہم نہر پاناما واپس لیں گے۔ مریخ پر امریکی جھنڈا لہرایا جائے گا۔

٭ہم اپنے خدا کو کبھی نہیں بھولیں گے، امریکی ایک خاندان، ایک قوم، ایک ملک اور ایک رب کے ماننے والے ہیں۔ آج سے امریکہ میں بس دو جنس ہیں مرد اور عورت۔

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔