اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ سیاسی بندوبست یا حکومت کو لمبے عرصے تک چلایا جا سکتا ہے تو وہ غلطی پر ہے
عمومی طور پر جب سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے درمیان مفاہمت اور سمجھوتے کی سیاست کا کھیل جاری ہو تو اس میں دونوں طرف سے اتار چڑھاؤ کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہی صورتِ حال اس وقت قومی سیاست پر غالب ہے، جہاں حکومت، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات میں رسّاکشی کا منظر غالب ہے۔ ایک طرف حکومت اور اپوزیشن سیاسی میز سجائے ہوئے ہیں جہاں سب کے سامنے مذاکراتی عمل جاری ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پسِ پردہ بہت سے معاملات پر بھی گفتگو کا سلسلہ چل رہا ہے۔ لیکن اس کھیل کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اپنی شرائط پر پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتی ہیں۔ اس لیے جو بھی سیاسی آپشن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو دے رہی ہیں، اس میں محدود سوچ غالب ہے۔ پی ٹی آئی کے لوگوں خاص طور پر چیئرمین بیرسٹرگوہر اور خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سخت دباؤ ہے کہ وہ عمران خان کو مفاہمت کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے پر مجبور کریں۔ لیکن اس کھیل کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایسے سازگار حالات پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ،جہاں پی ٹی آئی کا اعتماد بحال ہو۔
ایک طرف عمران خان کو ریلیف دینے کی بات کی جاتی ہے، اور دوسری طرف ان کو عدالتوں سے سزائیں سنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ القادریہ ٹرسٹ مقدمے میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو دی جانے والی سزاؤں نے بھی مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے عمران خان کو واضح پیغام دیا گیا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنی مہم میں سختی سے گریز کریں، خاص طور پر بیرونِ ملک رہنے والے پی ٹی آئی کے حامیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ریاست یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذ آرائی سے گریز کریں یا ان کے خلاف کوئی منفی مہم نہ چلائیں۔ جو لوگ اس وقت جیلوں میں ہیں ان کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ فوری طور پر پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف دینے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی کوشش یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کے ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ ابھی تک 9 مئی اور 27 نومبرکے واقعات پر عدالتی کمیشن کی بات بھی آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان بہت جلدی میں ہیں اور وہ فوری طور پر اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت چاہتے ہیں۔ اسی بنیاد پرکہا گیا کہ عمران خان پر بھی دباؤ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کریں۔ حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کی آرمی چیف سے ملاقات کا بھی عمران خان نے خیرمقدم کیا تھا۔ لیکن القادریہ ٹرسٹ کیس میں سزا کے بعد عمران خان نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ پر سخت الفاظ میں تنقید کی ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ عمران خان دباؤ میں ہیں، اور وہ اس دباؤ میں اسٹیبلشمنٹ کی تمام شرائط پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیار ہیں، مکمل سچ نہیں۔ عمران خان کو اچھی طرح احساس ہے کہ وہ اِس وقت بہتر پوزیشن میں ہیں، اور مفاہمت اور مذاکرات خود حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی بھی مجبوری ہیں۔ اس لیے اگر ایک طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی پر دباؤ بڑھا رہی ہیں تو دوسری طرف عمران خان بھی اپنی سیاسی حکمت عملی کی مدد سے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ عمومی طور پر ہوتا ہے، کہ مذاکراتی عمل میں شامل فریقین ایک دوسرے پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جس طرح سے عمران خان نے ایک دفعہ پھر اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی ہے اس سے مذاکراتی عمل متاثر ہوسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بہت زیادہ تنقید نہ کریں،کیونکہ ایسا کرنے سے مذاکراتی اور مفاہمتی عمل متاثر ہوسکتا ہے۔
لیکن جو لوگ عمران خان کو جانتے ہیں وہ یہ تسلیم کریں گے کہ عمران خان اپنی طرز کی سیاست کے خود بہت بڑے کھلاڑی ہیں، خاص طور پر سیاست کی نفسیات پر ان کا کافی کنٹرول ہے۔ انہوں نے اپنی سیاست اور مزاحمت سے ثابت کیا ہے کہ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عمران خان نے اس پوری مزاحمت میں کہیں بھی کمزوری نہیں دکھائی، یہی وجہ ہے کہ اس وقت ان کا سیاسی جادو چل رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ماضی کے مقابلے میں ایک بڑی مزاحمت کا سامنا عمران خان کی صورت میں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف جو مقدمات ہیں ان کی نوعیت قانونی سے زیادہ سیاسی ہے۔ اسی طرح سے پی ٹی آئی کے باقی لوگ بھی جو اس وقت جیلوں میں ہیں انہیں بھی سیاسی مقدمات کا سامنا ہے۔ فوجی عدالتوں سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ملنے والی سزاؤں نے بھی حالات میں تلخی پیدا کی ہے۔ بنیادی مسئلہ پی ٹی آئی کے لیے یہ ہے کہ اس کو نہ صرف سیاسی ریلیف ملے بلکہ سیاسی سرگرمیوں کی بھی آزادانہ اجازت ہو۔ لیکن ایسا ممکن نظر نہیں آرہا۔ یہ سب ریلیف اسی صورت میں ممکن ہوگا جب پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سرنڈر کردے۔ عمران خان کی حالیہ بیان بازی نے یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کو بھی مایوس کیا ہوگا، اور ساتھ ساتھ وہ لوگ جو پی ٹی آئی سے مفاہمت کی توقع کررہے تھے اور مذاکرات کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں ان کو بھی لگے گا کہ عمران خان مزاحمت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا ہوگا کہ اب حالات ماضی جیسے نہیں رہے، اور آج کا جو پاکستان ہے اس میں بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ ڈراکر، دھمکا کر اور ڈکٹیشن کی بنیاد پر سیاسی قوتوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کا معاملہ اب چلتا نظر نہیں آتا۔ اس لیے اگر اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا عمل کامیابی سے آگے بڑھانا ہے تو ایسا ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت اور سیاسی وجود کو قبول کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر یہ سمجھا جارہا ہے کہ ہم اپنی طاقت کے بل پر ایک سیاسی قوت کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تو یہ تجربہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گا۔
اس کھیل میں حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ وہ سمجھتی ہے پی ٹی آئی ایک ہی وقت میں کئی قوتوں کے ساتھ بات چیت چلارہی ہے۔ خاص طور پر پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پسِ پردہ جو بات چیت چل رہی ہے اس پر حکومت کے اندر خاصے تحفظات ہیں، کیونکہ اس کی تفصیلات کا بہت زیادہ علم حکومت کو نہیں ہے، اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ بہت سے معاملات پر معلومات کا تبادلہ کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت میں شامل بہت سے ارکان نے اس بات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو پس پردہ بات چیت چل رہی ہے اس پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جارہا۔ حکومت یہ بنیادی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کھیل میں اُس کی حیثیت محض سہولت کار کی ہے۔ کیونکہ جو بھی معاملات طے ہونے ہیں وہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہی طے ہوں گے۔ حکومت کو تو صرف ایک سیاسی چھتری کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، اور یقینی طور پر اس میں حکومت کو بھی کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور دیا جائے گا۔ حکومت کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت کامیابی سے آگے بڑھتی ہے تو اس کا اصل فائدہ پی ٹی آئی کو ہوگا۔ اسی طرح سے حکومت میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو چاہیں گے کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پسِ پردہ مذاکراتی عمل متاثر ہو اور اس میں مسائل پیدا ہوں۔ اس لیے مسئلہ محض عمران خان یا پی ٹی آئی نہیں بلکہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں بھی ایسے لوگ غالب نظر آئیں گے جو چاہیں گے کہ مذاکراتی عمل کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکے۔ جو بھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو ان حالات میں لاکر مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ موجودہ سیاسی حکومتی بندوبست کو قبول کرلیں اور کم سے کم دو سال تک نئے انتخابات کا انتظار کریں تو یہ ممکن نظر نہیں آتا۔
اگرچہ عسکری قیادت اور پی ٹی آئی کے درمیان جو ملاقات ہوئی ہے اسے سیکیورٹی کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے، لیکن حکومت کے اپنے ایوانوں میں اس بات پر تشویش پائی جاتی ہے کہ اس ملاقات کا مقصد کہیں سیاسی معاملات میں مفاہمت تو نہیں؟ اور کیا ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر مستقبل کے تناظر میں نیا نقشہ کھینچا جارہا ہے؟ اسی لیے شریف خاندان کی کوشش ہوگی کہ ایک متبادل حکمتِ عملی پر بھی کام کیا جائے، جس کا مقصد مذاکراتی عمل کو خراب کرنا ہے۔ اس کے لیے وہ اپنے حمایت یافتہ میڈیا کا بھرپور استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ اعتماد کا فقدان ہو اور بات چیت آگے نہ بڑھ سکے۔ سب سے بڑا مسئلہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو خاص طور پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ہے جہاں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذ آرائی غالب پے۔ بنیادی بات یہ سمجھنا ہوگی کہ اگر پی ٹی آئی کو کنٹرول کرنا مقصد ہے تو پھر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو بھی کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ صرف پی ٹی آئی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کریں جبکہ خود ہر وہ چیز کریں جو نہیں ہونی چاہیے۔ جہاں تک نئے انتخابات کا تعلق ہے تو ان کے حوالے سے پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر نیا ایجنڈا تیار کرنا پڑے گا، اور نئے انتخابات کا راستہ اختیار کرکے ملک کو سیاسی طور پر مستحکم کرنا ہوگا۔ کیونکہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ سیاسی بندوبست یا حکومت کو لمبے عرصے تک چلایا جا سکتا ہے تو وہ غلطی پر ہے۔
پی ٹی آئی کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ہمارے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات طے ہوئے بغیر ہمیں کچھ نہیں مل سکے گا۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان ہمیشہ سے حکومت کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت چاہتے تھے۔ اب جبکہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بات چیت کا دروازہ کھلا ہے تو یقینی طور پر عمران خان کے مخالفین کو یہ صورت حال آسانی سے ہضم نہیں ہوگی۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ القادریہ ٹرسٹ کیس میں عمران خان کو جس طرح سے سزا دی گئی ہے اُس پر بھی دنیا بھر میں اور بالخصوص میڈیا میں پاکستان کے عدالتی نظام کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔ ممکن ہے امریکہ کے نئے صدر کی جانب سے بھی عمران خان کے تناظر میں پاکستان پر دباؤ بڑھے ۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اہلِ دانش کی سطح پر بھی عمران خان سے بہت زیادہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ سیاسی لچک کا مظاہرہ کریں۔ ان کے بقول عمران خان کے سخت مزاج کی وجہ سے بھی مفاہمت ممکن نظر نہیں آرہی۔ لیکن یہی لوگ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو کوئی مشورہ دینے کے لیے تیار نہیں، اور جو کچھ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے محاذ پر ہورہا ہے اس سے بھی جو حالات خراب ہیں اس کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟ اس لیے مسئلہ محض عمران خان نہیں بلکہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بھی ہیں۔
اصل میں عمران خان کے اوپر جو سب سے زیادہ دباؤ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ہے وہ بنیادی طور پر ان کی طرف سے نئے انتخابات کا مطالبہ تھا جسے اسٹیبلشمنٹ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ عمران خان فوری طور پر نئے انتخابات کے مطالبے سے دست بردار ہوجائیں اور جو انتخابات ہوئے ہیں انھی کو قبول کرکے اپنا سیاسی کردار ادا کریں۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی کہ عمران خان 9 مئی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کریں اور قوم کے سامنے اس پر شرمندگی کا اظہار کردیں یا معافی مانگ لیں۔ مگر عمران خان اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوئے اور انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا کہ اگر عدالتی کمیشن یہ ثابت کردے کہ پی ٹی آئی 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہے تو وہ معافی مانگنے کے لیے تیار ہیں۔ جب عمران خان نے ان شرائط کو ماننے سے انکار کردیا تو یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ میں عمران خان کے لیے نرم گوشہ نہیں رہا۔ اسی وجہ سے عمران خان کو جو سزائیں دی گئی ہیں ان کا خاص تناظر عمران خان کی مزاحمت ہے۔ مگر یہ بھی طے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی مزاحمت ہی میں سے تعطل یا ڈیڈلاک کو ٹوٹنا ہے، اور یہ تعطل لمبے عرصے تک برقرار نہیں رہ سکے گا۔ ویسے بھی کھیل حکومت کے ہاتھ میں کم اور پسِ پردہ قوتوں کے ہاتھ میں زیادہ ہے، اور بات چیت بھی وہیں ہورہی ہے جہاں ہونی چاہیے، اور یہ بات حکومتی سطح پر تشویش کے طور پر دیکھی جارہی ہے۔ لیکن اگر یہ تعطل برقرار رہتا ہے اور کسی بھی قسم کا عدالتی کمیشن نہیں بنتا اور لچک نہیں دکھائی جاتی تو یہ مذاکراتی عمل اپنی اہمیت کھودے گا۔