غزہ میں امن معاہدہ تین گھنٹہ تاخیر سے عملدرآمد

سابق اور موجودہ امریکی صدور کے درمیان ’کریڈٹ‘ کی جنگ

چار سواکہتر (471) دن بعد غزہ پر برستی موسلا دھار بمباری میں وقفہ آگیا۔ جنگ بندی اسرائیل حماس معاہدہ ِامن کا پہلا مرحلہ ہے۔ طویل مذاکرات کے بعد گزشتہ ہفتے یہ معاہدہ قطر میں طے پایا۔ اس حوالے سے ہم گزشتہ نشست میں حماس کے جاری کردہ مسودے کی تفصیل دے چکے ہیں۔ بدھ 15 جنوری کو صدر بائیڈن نے نائب صدر کملا ہیرس اور اپنے وزیرخارجہ کے ہمراہ معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ غزہ میں قیام امن تین مرحلوں میں ہوگا:

٭پہلا مرحلہ: 6 ہفتوں پر مشتمل پہلے مرحلے میں عارضی فائربندی ہوگی اور خواتین، بیمار و ضعیف قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔ اس دوران میں غزہ کو امدادی سامان پر عائد تمام پابندیاں اٹھالی جائیں گی۔

٭دوسرا مرحلہ: پہلا مرحلہ مکمل ہونے پر پائیدار امن کے لیے مذاکرات ہوں گے۔ صدر بائیڈن نے یقین دلایا ہے کہ ان مذاکرات کے دوران جنگ بند رہے گی۔ تاہم ہفتے کو قوم سے خطاب میں وزیراعظم نیتن یاہو نے غیر مبہم انداز میں کہا کہ اگر پہلا مرحلہ مکمل ہونے پر پائیدار امن پر معاہدہ نہ ہوسکا تو اسرائیل جنگ دوبارہ شروع کرسکتا ہے اور ہمارے اس مؤقف سے صدر بائیڈن اور نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پوری طرح اتفاق کرتے ہیں۔

٭تیسرا مرحلہ: لاشوں اور باقی قیدیوں کے تبادلے کے ساتھ اسرائیلی فوج غزہ سے واپس چلی جائے گی، جس کے بعد غزہ کی تعمیرنو کا کام شروع ہوگا۔

جمعہ 17 جنوری کو اسرائیلی کابینہ نے 8 کے مقابلے میں 24ووٹوں سے معاہدہِ امن کی توثیق کردی۔ عظمتِ یہود (Otzma Yehudit)اور دین صہیون (Religious Zionism)کے ساتھ وزیراعظم کی لیکڈ پارٹی کے دو وزرا نے مخالفت میں ہاتھ بلند کیے اور وزیراطلاعات سلام کرہی نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ حکومت کے مذہبی اتحادیوں پاسبان توریت (Shas) اور یونائیٹڈ توریت پارٹی نے معاہدے کی حمایت کی۔ قرارداد منظور ہوتے ہی وعدے کے مطابق وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر نے استعفیٰ دے کراپنی جماعت عظمتِ یہود کو حکمراں اتحاد سے الگ کرلیا۔ 120 رکنی کنیسہ (پارلیمان) میں عظمت یہود کے پاس 6 نشستیں ہیں، جن کی علیحدگی کے بعد بھی نیتن یاہو کو 62 ارکان کی حمایت حاصل رہے گی۔ وزیر خزانہ کی دین صہیون جماعت نے معاہدے کی شدید مخالفت کے باوجود حکومتی اتحاد نہیں چھوڑا۔ جماعت کے ایک سینئر رکنِِ کنیسہ وی سکّت (Zvi Sukkot)نے جماعتی فیصلے سے بغاوت کردی۔ اپنے بیان میں سکّت صاحب نے کہا کہ نیتن یاہو کو امریکی صدر جوبائیڈن اور نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس خوفناک معاہدے پر مجبور کیا، اور میں وطن فروشی کے معاہدے کا حصہ نہیں رہ سکتا۔ اسرائیلی پارلیمانی ضابطے کے تحت اُن کی اسمبلی کی رکنیت ختم کردی گئی۔

معاہدے کی رو سے 19 جنوری کو مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے (پاکستان ساڑھے گیارہ اور ہندوستان بارہ) جنگ بندی پر عمل درآمد شروع ہونا تھا لیکن اس روز رہا ہونے والی تین خواتین کے نام نہ ملنے پر اسرائیل نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اپنے فوجی سربراہ کو پیغام بھیج دیا کہ جنگ بند کرنے کی جو ہدایت دی گئی ہے اسے معطل سمجھا جائے۔ ہدایت موصول ہوتے ہی اسرائیلی فضائیہ نے سارے غزہ پر بمباری شروع کردی۔ اہلِ غزہ نے وضاحتی پیغام قطر بھیجا کہ فہرست کی فراہمی میں تاخیر کی وجہ مسلسل بمباری ہے۔ آتش و آہن کی بارش بند ہو تب ہی رہائی کے لیے قیدیوں کو کسی جگہ جمع کیا جاسکتا ہے۔ پونے تین گھنٹے کی تاخیر سے جنگ بندی پر عمل درآمد شروع ہوا اور تین اسرائیلی خواتین اقوام متحدہ کے حوالے کردی گئیں۔ اسی کے ساتھ اسرائیلی عقوبت کدوں سے 69 خواتین، ایک بچی اور 12 کمسن لڑکوں سمیت 90 فلسطینی رہا کردیے گئے۔ پہلے مرحلے میں اسرائیل کے 33 قیدیوں کے عوض 1094فلسطینی رہا کیے کیے جائیں گے۔ رہا ہونے والے متوقع فلسطینیوں میں عمر قید کے کئی ’’مجرم‘‘ بھی شامل ہیں۔

امن بات چیت کے دوران میں اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ امریکی قائدین نے بدترین تکبر کا مظاہرہ کیا۔ معاہدے کے بعد اپنے خطاب میں جوبائیڈن نے بہت ہی فخر سے کہا کہ امریکی مدد سے اسرائیل نے حماس کے ساتھ لبنانی حزب اللہ اور ان کے سرپرست ایران کو کمزور کردیا ہے، ان کے قائدین مارے گئے اور اب یہ ہماری شرائط پر امن معاہدہ کررہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سماجی چبوترے TRUTHپر پیغام داغا کہ ’’میری قومی سلامتی کی ٹیم مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی قیادت میں اسرائیل اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرتی رہے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ غزہ دوبارہ کبھی بھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بننے پائے‘‘۔ ان کے نامزد وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنی توثیق کے لیے سینیٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران کہا کہ ’’امریکہ میں حماس کے حامیوں کے ویزے منسوخ کردینے چاہئیں‘‘۔ جناب ٹرمپ کے نامزد کردہ مشیر سلامتی مائک والٹز CBSپر گفتگو کرتے ہوئے متکبر لہجے میں بولے ’’مزاحمت کار غزہ پر اب کبھی حکومت نہیں کرسکتے۔ یہ ہمارے لیے کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں۔‘‘

اس کے ساتھ کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش جاری رہی۔ سابق صدر جوبائیڈن نے کہا کہ جو معاہدہ ہوا ہے اس کا مسودہ ہماری انتظامیہ نے گزشتہ برس مئی میں ترتیب دیا تھا۔ اس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے گرہ لگائی کہ اگر میں امریکی صدر منتخب نہ ہوتا تو یہ ممکن ہی نہ تھا۔ اپنی حلف برداری سے پہلے اتوار کو دارالحکومت میں بڑے جلسہِ عام سے خطاب کرتے ہوئے جناب ٹرمپ نے یہ دعویٰ دہرایا کہ ’’اگر میں انتخاب نہ جیتتا تو غزہ میں جنگ بند نہ ہوتی۔‘‘

کریڈٹ کی اس امریکی جنگ میں اسرائیلی وزیراعظم دبائو میں رہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدے پر عمل درآمد اتوار سے شروع ہونا تھا، جبکہ امریکہ میں ٹرمپ پیر کو حلف اٹھا رہے تھے۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12کے مطابق، آخری مرحلے پر نیتن یاہو نے بہانہ کیا کہ وہ سبت کی وجہ سے جمعہ کی شب کابینہ کا اجلاس طلب نہیں کرسکتے، لہٰذا معاہدے پر عمل درآمد کی تاریخ 20کردی جائے۔ بائیڈن اپنی پکائی ہانڈی ٹرمپ کے پاس کیسے لے جانے دیتے؟ فوراً پاسبانِ توریت پارٹی کے قائد، ربائی آریہ مخلوف درعی سے فتویٰ لے لیا گیا کہ ہنگامی صورتِ حال میں سبت کی کچھ پابندیاں معطل کی جاسکتی ہیں۔ یونائیٹڈ توریت پارٹی کے قائد ربائی اسحاق گولڈنوف نے جناب درعی کے فتوے کی توثیق کردی اور بائیڈن کے دباؤ پر جمعہ کی شب کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا گیا۔

امن معاہدے پر اسرائیل کے انتہا پسند سخت مشتعل ہیں۔ جمعہ کو مظاہرین نے تل ابیب میں دھرنا دیا۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے ایک سپاہی کے بھائی نے جذباتی انداز میں کہا ’’وزیراعظم صاحب! آپ فرماتے تھے کہ یہ نور کے بیٹوں اور تاریکی کی اولاد کا مقابلہ ہے۔ کیا صورتِ حال اب تبدیل ہوگئی ہے کہ نور کے علَم بردار تاریکی کے پچاریوں سے مذاکرات کررہے ہیں؟ مزاحمت کاروں سے معاہدہ ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔ اسرائیلی جیل سے آزاد ہونے والے دہشت گرد کل ہمارے بچوں کے گلے کاٹیں گے‘‘۔ کچھ مظاہرین نے اپنے چہرے فلسطینی کفیہ سے چھپائے ہوئے تھے، یعنی معاہدے کے نتیجے میں کفیہ والے تل ابیب آرہے ہیں۔

بدترین پروپیگنڈے کے باوجود عالمی رائے عامہ اسرائیل کے بارے میں منفی ہوتی جارہی ہے۔ عالمی صہیونی تنظیم Anti-Defamation League یا ADLکے ایک عالمی جائزے میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے نصف کے قریب لوگ یہود مخالف یا Antisemitic جذبات رکھتے ہیں۔ جائزے کے دوران 103 ممالک کے 58000 افراد سے رائے لی گئی اور نتیجے کے مطابق کرہ ارض کے 46 فیصد لوگ اسرائیل کے بارے میں معاندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں غزہ مزاحمت کاروں کی حمایت 59 فیصد، اور 75 فیصد لوگ سام مخالف ہیں، جبکہ فلسطین میں یہ تناسب 97 فیصد ہے۔ ایران میں سام مخالف جذبات نسبتاً کم ہیں اور صرف 49 فیصد خود کو Antisemitic سمجھتے ہیں۔ (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)

دنیا بھر میں نسل کُشی کے ذمہ داروں کا تعاقب بھی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے اٹلی کے دورے پر آئے ہوئے اسرائیلی میجر جنرل غسان ایلین (Ghassan Alian)کی گرفتاری کے لیے عدالت کو درخواست دے دی گئی (حوالہ:Ynet)۔ گزشتہ ہفتے جب سابق امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن واشنگٹن کے مرکزِ دانش اٹلانٹک کونسل میں تقریر کرنے آئے تو وہاں موجود لوگوں نے ’’غزہ نسل کُشی بند کرو‘‘ کے نعرے لگائے۔ پولیس نے ان لوگوں کا ہال سے باہر نکال دیا۔ دوسرے دن موصوف کی الوداعی پریس کانفرنس کے دوران کئی نامہ نگاروں نے غزہ میں صحافیوں کے قتلِ عام پر آواز اٹھائی۔ جب وزیر باتدبیر نے جان چھڑانے کے لیے کہا کہ امریکہ آزادیِ اظہار پر یقین رکھتا ہے اور صحافیوں سے بدسلوکی کی ہر سطح پر مذمت کی جاچکی ہے، تو ایک صحافی صائم حسینی نے چیخ کر کہا ’’تم جھوٹے ہو، غزہ میں صحافیوں کو قتل کرنے کے لیے ایک ایک گولی، گولہ، ڈرون، بم اور بمبار، حتیٰ کہ قاتلوں کے ڈائپر بھی امریکہ نے فراہم کیے ہیں‘‘۔ اس پر سوال اٹھانے والے صحافی کو اٹھا لیا گیا۔

احتجاج صرف فلسطینی صحافیوں تک محدود نہیں، بلکہ اسرائیلی قلم کار بھی جناب بلینکن کے جھوٹ کا پردہ چاک کررہے ہیں۔ ہفتہ 18 جنوری کو سابق امریکی وزیرخارجہ نے CNN سے باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’غزہ جنگ پر وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کو 70، 80 بلکہ 90 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے‘‘، اس کے بعد امریکی جریدے ’نیویارکر‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا: ’’ہم نے 7 اکتوبر سے اسرائیل میں جو کچھ دیکھا ہے وہ وزیراعظم یا ان کی کابینہ کے انفرادی ارکان کی عکاسی نہیں ہے بلکہ حقیقی معنوں میں اسرائیلی معاشرے کے 70، 75 فیصد اور 80 فیصد کی عکاسی کرتا ہے۔‘‘

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹائمز آف اسرائیل کے سینئر تجزیہ نگار یعقوب میگڈ (Jacob Magid)نے ایک تفصیلی کالم تحریر کیا جس کا سرنامہ کلام کچھ اس طرح ہے: ’’غزہ جنگ پر نیتن یاہو کو عوامی حمایت کے حوالے سے ٹونی بلینکن کا جھوٹا دعویٰ‘‘۔ فاضل کالم نگار نے اسرائیلی ٹیلی ویژن 12، اور چینل 13 کے، لیے گئے جائزے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’چینل 13 کے مطابق صرف 22 فیصد اسرائیلیوں نے حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، جبکہ چینل 12 کے ایک سروے سے پتا چلا ہے کہ 64 فیصد عوام کو یقین نہیں ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت ملک کو کیسے چلا رہی ہے؟‘‘ (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔