تاریخ کا عجیب المیہ

پاکستانی علاقوں میں جاگیردارانہ نظام کئی منہ والے سانپ کی طرح رہا ہے۔ اس کا ایک منہ زمین کے مالک اور مزارعین کے لیے خداوند نعمت کا ہے، دوسرا روحانی پیر مخدوم سجادہ نشین کا ہے، تیسرا چہرہ مجلسِ شوریٰ یا اسمبلیوں کے رکن اور سیاسی لیڈر کا ہے، چوتھی صورت یہ ہے کہ اس کے اعزہ، اقارب، اہلِ خاندان اور سفارشی لوگ ہی سول اور فوجی بیوروکریسی میں مقام پاتے ہیں اور ان کے تقرر و تبادلوں میں اس کی مرضی دخیل ہوتی ہے۔ جاگیردار اور اس کا خاندان علاقے کا سب سے دولت مند، سب سے زیادہ تعلیم و تہذیب سے آشنا، سب سے زیادہ سیاست کرنے والا اور سب سے زیادہ انتظامی اثر رسوخ رکھنے والا ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئی نہیں ہوتا، کیونکہ پاکستانی علاقوں کی صنعتی، تجارتی، تعلیمی ترقی سے نہ انگریز کو دلچسپی تھی نہ خود مسلمانوں کو۔ اس بنا پر جیسا بڑا اور طاقتور سرمایہ دار یا متوسط طبقہ یا مزدور طبقہ ہندوستان میں پیدا ہوگیا وہ یہاں نہیں ہوسکا۔ اگر کچھ سرمایہ داری یا تجارتی طاقت تھی تو وہ غیر مسلموں کے پاس تھی جو چلے گئے، اور ان کے جانے کے بعد صرف بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار ہی رہ گئے۔ متوسط طبقہ کراچی، لاہور وغیرہ میں موجود ضرور تھا اور یہی تحریکِ پاکستان کی اصل طاقت تھی، لیکن وہ اپنی ذات میں طاقتور نہیں تھا۔ اس کی طاقت کا سبب ہندوستان کا متوسط طبقہ تھا جو آل انڈیا مسلم لیگ یا دوسری جماعتوں میں تھا، اور اس ہندوستانی متوسط طبقے کی وجہ سے پاکستانی علاقوں کا بھی متوسط طبقہ خاصا طاقتور اور جان دار نظر آتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سندھ، پنجاب، سرحد، بلوچستان کے متوسط طبقے نے مختصر عرصے میں ایسی طاقت حاصل کرلی کہ کانگریس کے حامی سردار اور یونینسٹ جاگیرداروں کا تختہ الٹ دیا۔

تقسیم سے پہلے پنجاب کی حکومت یونینسٹوں کے ہاتھ میں تھی۔ سرحد میں غفار خاں کے زمیندار خاندان کی کانگریس نواز حکومت چل رہی تھی۔ سندھ میں بھی وڈیرے ہی اسمبلیوں میں تھے اور ان کا کوئی اعتبار نہیں تھا۔ جی ایم سید نے ”آرگنائزر“ کو دیے گئے انٹرویو میں صحیح کہا تھا کہ خاصی تعداد آزاد امیدواروں کی تھی اور اگر مسلم عوام یا مسلم متوسط طبقے کا دباؤ نہ ہوتا تو یہ وڈیرے اور آزاد امیدوار کانگریس کے پاس جانے کے لیے بھی تیار ہوجاتے، لیکن جس چیز نے سندھ میں وڈیروں کو جنبش نہیں کرنے دی، پنجاب میں خضر حیات ٹوانہ کی وزارت کو گرایا اور سرحد میں ڈاکٹر خان سے نجات حاصل کی وہ مسلمانوں کے متوسط طبقے کی طاقت تھی، اور بلوچستان میں بھی سردار لوگ اور اُن کے ساتھی جس آزاد ریاست کا خواب دیکھ رہے تھے اسے قاضی عیسیٰ اور متوسط طبقے کے دوسرے افراد نے ناکام بنایا۔

تاریخ کا عجیب المیہ ہے کہ جو جاگیردار، ملک، سردار اور خوانین قیامِ پاکستان سے پہلے اپنی جنگ ہار چکے تھے انھیں قیام پاکستان کے بعد فتح پر فتح حاصل ہوتی چلی گئی اور سیاست متوسط طبقے کے ہاتھوں سے نکل کر جاگیردار اور سردار طبقے کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔ اس کا ایک سبب جیسا کہ پہلے بتایا گیا، یہ تھا کہ اِس علاقے کا متوسط طبقہ صرف اِس علاقے کا نہیں تھا، وہ سارے برصغیر کے مسلمان متوسط طبقے کی طاقت کا مظہر تھا اور تنہا نہیں تھا۔ اس کی پشت مضبوط تھی جس پر قائداعظم اور مسلم لیگ جیسی شخصیت اور ادارے تھے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد پاکستانی متوسط طبقہ ہندوستانی متوسط طبقے سے کٹ گیا اور اس سے فائدہ اٹھاکر زمیندار، جاگیردار عناصر سیاست میں آگے آتے چلے گئے۔

(عبدالکریم عابد/سیاسی،سماجی تجزیے)

صبح

یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا