شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے اہلِ ہند کو مغرب کی متعارف کرائی جمہوریت کے بنیادی خدوخال سے روشناس کراتے ہوئے کم و بیش ڈیڑھ صدی قبل فرمایا تھا کہ ؎
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
یہ اسی جمہوریت کا ثمر ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کی دعویدار، بھارت نامی مملکت میں ایک ایسا شخص وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر تیسری بار براجمان ہے جو یہ منصب سنبھالنے سے قبل دنیا میں ’’گجرات کا قصاب‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، اور ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام میں ملوث ہونے کے باعث امریکہ سمیت مغربی دنیا نے اس کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں نمایاں جگہ درج کررکھا تھا اور اسی سبب ان ملکوں میں اس کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ مگر اسے جمہوریت کی برکات ہی میں شمار کیا جائے گا کہ آج امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں اس ’’دہشت گرد‘‘ کا نہایت گرم جوشی اور تپاک سے استقبال کیا جاتا ہے۔
جمہوریت ہی کی برکت یہ بھی ہے کہ یک محوری دنیا کی مدارالمہام ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایک ایسا شخص دوسری بار سیاہ و سفید کا مالک بنادیا گیا ہے جس کے پہلی بار ایوانِ صدر کا مقیم ہوتے ہوئے دماغی معائنے کی ضرورت پیش آگئی تھی کہ شاید اس کو ’’خلل ہے دماغ کا‘‘۔ مگر اس نے دوسری بار دنیا کے طاقت ور ترین اور با ختیار صدر کے منصب کا حلف اٹھاکر امریکی ایوانِ صدر ’’سفید محل‘‘ میں رہائش اختیار کرلی ہے، حالانکہ اس کے انتہا پسندانہ خیالات کسی سے پوشیدہ ہیں اور نہ اسے ان خیالات پر کوئی عار و شرمندگی محسوس ہوتی ہے، بلکہ وہ نہایت ڈھٹائی سے انسانیت کے وقار کے منافی ان افکار پر عمل درآمد کا دعوے دار اور پرچارک ہے۔ دوسری بار صدارت کا منصب سنبھالنے سے قبل ہی امریکی عدالت نے اسے مجرم قرار دے دیا ہے۔ گزشتہ ماہ نیویارک کی عدالت میں 34 سنگین جرائم کے ارتکاب پر نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر مقدمہ چلایا گیا اور عدالت نے اپنے فیصلے کے ذریعے اسے ملزم سے مجرم قرار دے دیا ہے۔ امریکی صدر پر فحش اور برہنہ فلموں کی امریکی اداکارہ اسٹارمی ڈینیلز سے ناجائز تعلقات اور اُسے غیر قانونی و خفیہ طریقے سے ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر کی ادائیگی کا الزام تھا جو 2016ء کے صدارتی انتخابات کے موقع پر اداکارہ کو اس لیے ادا کیے گئے تھے کہ وہ ٹرمپ سے اپنے تعلقات کے معاملے کو پوشیدہ رکھے گی۔ اداکارہ کے اس اقدام کے نتیجے میں ڈونلڈٹرمپ 2016 ء میں انتخابات جیت گئے۔ اسے بھی امریکہ کے عدالتی نظام کا ہی شاہکار قرار دیا جائے گا کہ جیوری نے ڈونلڈ ٹرمپ پر عائد کیے گئے تمام 34 الزامات کو درست تسلیم کیا، تاہم عدالت نے مجرم کو قید کی سزا سنائی نہ جرمانہ عائد کیا البتہ خفیہ طور پر رقم کی ادائیگی کا معاملہ ریکارڈ کا حصہ ضرور بنادیا گیا ہے۔ گویا ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی تاریخ کے مجرمانہ ریکارڈ کے حامل صدارتی منصب سنبھالنے والے پہلے صدر کا اعزاز ضرور بخش دیا گیا ہے۔
دوسری بار امریکی صدر کی نہایت نازک ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کیا گل کھلاتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر حلف اٹھانے سے قبل ہی مسٹر ٹرمپ نے اپنے خوفناک اور انتہا پسندانہ عزائم کے اظہار میں کسی ہچکچاہٹ یا شرم و حیا کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ’’خلیج میکسیکو‘‘کا نام تبدیل کرکے ’’خلیج امریکہ‘‘ رکھ دیں گے۔ صرف یہی نہیں، وہ کینیڈا، گرین لینڈ اور نہر پاناما کے بارے میں واضح توسیع پسندانہ ارادوں کا بھی کھل کر اظہار کررہے ہیں۔ انہوں نے ڈنمارک کے زیر کنٹرول جزیرے ’’گرین لینڈ‘‘ اور ’’نہر پاناما‘‘ کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے فوجی کارروائی سے بھی گریز نہ کرنے کا اعلان کرکے اپنی جارحانہ سوچ اور حکمتِ عملی سے دنیا کے امن پسند حلقوں کو پریشان کردیا ہے۔ مسٹر ٹرمپ نے ان دونوں علاقوں کو امریکہ کی معاشی سلامتی کے لیے نہایت اہم قرار دیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ ’’نہر پاناما کا انتظام دراصل چین سنبھالے ہوئے ہے جب کہ امریکہ نے کئی دہائیوں کے مذاکرات کے بعد 1999ء میں اسے پاناما کے سپرد کیا تھا، ہم نے اسے چین کے حوالے نہیں کیا تھا، پاناما کے حکام نے ہمارے اس تحفے کا غلط استعمال کیا ہے‘‘۔ مسٹر ٹرمپ کا دعویٰ اپنی جگہ، مگر سرکاری اعداد و شمار اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے۔ نہر پاناما اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق اس نہر سے گزرنے والے مال بردار ٹریفک میں امریکہ کا حصہ 72 فیصد ہے جب کہ چین اگرچہ نہر سے استفادہ کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے تاہم اس کا حصہ صرف 22 فیصد ہے جسے ٹرمپ نے پاناما کے بجائے چین کا کنٹرول بتایا ہے۔ نومنتخب امریکی صدر نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ یہ دھمکی بھی دے ڈالی ہے کہ کینیڈا کو امریکہ میں شامل کرنے کے لیے معاشی دبائو کا حربہ استعمال کیا جائے گا۔ ٹرمپ کے ان بیانات، دھمکیوں اور گیدڑ بھبھکیوں پر متعلقہ ممالک کا شدید ردعمل فطری ہے، چنانچہ براہِ راست متاثر ملکوں کے علاوہ فرانس کے وزیراعظم فرانسوا ہائیرو نے بھی خبردار کیا ہے کہ فرانس اور یورپ کو مل کر نئے امریکی صدر ٹرمپ اور اُن کی پالیسیوں کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا ورنہ امریکہ ہم پر غلبہ پا لے گا، ہمیں دیوار سے لگا دیا جائے گا اور یورپ کو کچل دیا جائے گا۔
نومنتخب صدر نے حلف برداری کے بعد اپنے خطاب میں سطورِ بالا میں درج شدہ عزائم کے علاوہ بعض خوش کن اعلانات بھی کیے ہیں جن میں ’جنگیں ختم کرنے اور امن کا داعی بننے‘ کا اعلان سب سے اہم ہے۔ مگر امریکہ کس طرح کے امن کا علَم بردار ہے اور کس طرح جنگیں ختم کرنے پر یقین رکھتا ہے اس کی بعض جھلکیاں ماضیِ قریب میں غزہ میں مسلمانوں کی نسل کُشی میں اسرائیل کی اندھی سرپرستی، افغانستان میں ’’دہشت گردی‘‘ کے خاتمے اور عراق میں ’’کیمیائی ہتھیاروں‘‘ کے انسداد کے لیے کی گئی ظالمانہ، جارحانہ کارروائیوں کے آئینے میں بآسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اسی طرزِعمل کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا تھا ؎
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
(حامد ریاض ڈوگر)