ووٹ کے واؤ کے بل پر

پچھلے کالم میں ہم نے ’’شوروغل‘‘ مچایا تو شور سن کر حاصل پور منڈی، بہاول پور کے استاد گلزار احمد صاحب ہڑبڑا گئے۔ اُن کے سکون میں خلل پڑا توآپ نے وہیں سے ’’ہُوں‘‘کہہ کر تنبیہی صدا بلند کی۔گلزار صاحب کو اعتراض ہمارے غل غپاڑے پر نہ تھا۔ غصہ اس بات پر تھا کہ اس قسم کی ہائے وائے کرتے ہوئے ’’واؤ‘‘ کیوں استعمال کیا گیا۔ ’’واؤ‘‘ پر یاد آیا کہ ایک زمانے میں کچھ خاص لوگ خاص کرکے فقط اپنی ٹھوڑی تلے ڈاڑھی رکھتے تھے۔ اپنے لڑکپن میں ہم اُس ڈاڑھی کو دیکھتے ہی’’واؤ‘‘ کی صدا بلند کیا کرتے تھے۔ اس صدا سے ہماری مراد ’’و‘‘ ہی ہوتی تھی، “Wow”نہیں۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔گلزار احمد صاحب حاصل پوری کے خط کا ماحصل یہ ہے:

’’محترم بھائی احمد حاطب صدیقی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔آج کا کالم ’’پی آئی اے کی اُردو‘‘ یقیناً اس شعر کا مصداق ہے:

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اُردو بول سکتے ہیں

اس کالم میں موجود ایک سہوِ قلم کی طرف آپ کو متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اُمید ہے آپ بُرا نہیں مانیں گے۔

’یہ ’ہڑبونگ‘ کیا ہے؟ جلدی، گھبراہٹ، بے قراری، بوکھلاہٹ، بے چینی، افراتفری اور بد نظمی مع شور و غل۔‘

یادش بخیر، بہ قول آپ کے آج پھر ’وہ اُنگلی ہی پھسل گئی جو اصلاح کے باب میں دوسروں کی طرف اُٹھ اُٹھ جایا کرتی ہے۔‘

عرض یہ ہے کہ اس جملے میں ’شوروغل‘ کے درمیان حرفِ عطف ’واؤ‘ لانا درست نہیں ہے۔ درست ترکیب ’شور غل‘ ہے۔

جس طرح ’چاق چوبند‘،’چیخ پکار‘ اور ’خط کتابت‘کے درمیان حرفِ عطف ’و‘ نہیں آتا، اسی طرح لفظ ’شور غل‘ کے درمیان بھی ’و‘ بہ طور حرفِ عطف نہیں آتا۔ آپ کا بھائی گلزار احمد، حاصل پور‘‘۔

ہم اپنے بھائی گلزار کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے ہمیں ’شورغل‘ مچانے کی درست ترکیب بتادی۔ ان سے پکا وعدہ کہ آیندہ ’شوروغل‘ نہیں مچائیں گے۔ مچانا ہوا تو ’واؤ‘ نکال کر مچایا کریں گے۔ شاید اس طرح شور کی شدت میں کچھ کمی آجائے۔

مگر یہ ’مچانا‘ کیا ہوتا ہے؟فرہنگِ آصفیہ کہتی ہے کہ اس کا مطلب ہے ’رچانا، کرنا یا عمل میں لانا ‘۔ جیسے غُل مچانا، دنگا مچانا، ہولی مچانا، دُند مچانا، اندھیر مچانا اور راڑ مچانا‘‘۔

اب تک تو ہم یہی جانتے تھے کہ ’ہولی منائی جاتی ہے‘۔ لیکن اگر مولوی سید احمد دہلوی یہ فرماتے ہیں کہ ’ہولی مچائی جاتی ہے‘ تو ٹھیک ہی فرماتے ہوں گے۔ دہلی میں اُنھوں نے لوگوں کو ’ہولی مچاتے‘ ہوئے ہی دیکھا ہوگا۔

لغت دیکھنے کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ نقصان یہ ہے کہ ایک لفظ کے معنی جاننے ہوں تو کئی الفاظ کے معانی دیکھنے پڑتے ہیں۔ فائدہ یہ ہے کہ ایک لفظ کے معانی دیکھنے کو لغت کھولیے تو کئی الفاظ کے معانی جھونگے میں معلوم ہوجاتے ہیں۔ ’جھونگا‘ سودے کے ساتھ ملنے والی اُس زائد چیز کو کہتے ہیں جو دکان دار (عموماً بچوں کو) مفت دے دیا کرتے ہیں۔ ’جھونگے‘ کو’روکن‘ بھی کہتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ ’دُند‘ کے معنی ہیں ’بہت بڑا نقارہ یا دھونسا‘۔ ’دُند مچانا‘ اُودھم مچانا یا شور غوغا کرنا ہے۔ دُند مچانے کے ایک معنی ’ظلم ڈھانے کے‘ بھی ہیں۔ ہم نہیں کہتے، مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم کہتے ہیں کہ ’’سپاہیوں نے عجیب دُند مچا رکھا ہے‘‘۔

’راڑ‘ کے معنی جھگڑا، فساد یا تکرار ہیں۔ بچوں کا کسی چیز کے لیے مچلنا بھی ’راڑ کرنا‘ ہے۔ ضدی بچے یا ضدی فقیر کو (جو ٹالے نہ ٹلتا ہو) ’’راڑیا‘‘کہا جاتا ہے۔ نواب مصطفیٰ خان شیفتہؔ اعتراف کرتے ہیں کہ

فسانے یوں تو محبت کے سچ ہیں پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیبِ داستاں کے لیے

لہٰذا افسانہ بڑھانے یا قصہ بڑھانے کو بھی ’راڑ بڑھانا‘ کہتے ہیں۔ یہ اصطلاح بالعموم ہندو مذہب میں استعمال ہوتی ہے۔ وہیں بات بڑھتے بڑھتے ’’مہا بھارت‘‘ تک پہنچ جاتی ہے۔ ویسے تو ہندو بھی بڑھتے بڑھتے حسن کی سرکار تک پہنچ جاتے ہیں۔ ’ہندو‘ کا مطلب ہے کالا، سیاہ۔ شیخ ابراہیم ذوقؔ شاید گورے ہونے کی وجہ سے پیچھے رہ گئے اور اسی باعث شکوہ کناں ہوئے کہ

خط بڑھا، کاکُل بڑھے، زلفیں بڑھیں، گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے

’راڑ مچانا‘ جھگڑا کرنا، فساد یا تکرار کرنا ہے۔ گویا ہمارے برقی ذرائع ابلاغ پر جو سیاسی نشریے ’’ٹاک شو‘‘ کے نام سے نشر کیے جاتے ہیں اُن کے لیے درست اصطلاح ’’راڑ شو‘‘ ہے۔ یہاں ’شو‘ انگریزی والا ‘Show’ نہیں ہوگا۔ اسے فارسی اور پشتو کا ’شُو‘ جانیے یا بچوں کی لغت میں جو ’شُو‘ ہوتا ہے وہ سمجھیے۔ ہم بھی اپنے بچپن میں ایک خاص جانور کو ہُشکارنے اور کسی کے پیچھے دوڑانے کو للکارنے کے لیے کہا کرتے تھے’’موتی! موتی! شُو‘‘۔ بس پھر’راڑ شُو‘ ہی ہوتا تھا۔ یعنی اللہ دے اور بندہ لے۔

مچانے کو تو بہت کچھ مچایا جا سکتا ہے، مگر ہمارے ہاں بالعموم شور ہی مچایا جاتا ہے۔ چوں کہ آج ’واؤ‘ کا خصوصی ذکر ہے تو بتاتے چلیں کہ ووٹ کے واؤ کے بل پر ’’چور مچائے شور‘‘ کا منظر ہماری دُنیائے سیاست میں آئے دن نظر آتا رہتا ہے۔کبھی کبھی شاعری میں بھی اس قسم کا شور مچ جاتا ہے۔ مثلاً مولانا عامر عثمانی سے (مقتول ہوجانے کے بعد) منقول ہے:

میری تازہ لاش پہ عامرؔ دنیا نے جب شور مچایا
وہ اِک سمت اشارہ کر کے خود بھی چیخے قاتل قاتل

ہم خود بھی، اے صاحبو! بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، پہلے ’چاق و چوبند‘ ہی لکھا کرتے تھے اور ہنسا کرتے تھے کہ کچھ لوگ اسے ’چاک و چوبند‘ لکھ دیتے ہیں۔ ہنستے تو خیر ٹھیک تھے، کیوں کہ ’چاک‘ پھٹے ہوئے یا تار تار کو کہتے ہیں۔’’یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک‘‘۔ مگر معلوم ہوا کہ ’چاق‘ ترکی لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے تروتازہ، تن درست، بھلا چنگا، صحیح، چالاک، چست اور پھرتیلا۔

چاق کے ساتھ جو ’چوبند‘ لگایا جاتا ہے وہ ترکی ہے نہ فارسی۔ ہندی الاصل لفظ ہے۔ سنسکرت سے آیا ہے۔ اسی وجہ سے چاق کے بعد اور چوبند سے پہلے حرفِ عطف واؤ لگانا درست نہیں سمجھا جاتا۔ ’چوبند‘ کا مطلب ہے ’چاربند‘۔ دو ہاتھ اور دو پاؤں مل کر چار بند بنتے ہیں اور ’چوبند‘ کہلاتے ہیں۔ ’چاق چوبند‘ میں ’چوبند‘ سے مراد چاروں ہاتھ پاؤں کا سلامت، درست اور فعال ہونا ہے۔ گھوڑے کے چاروں پیروں میں نعل ٹھونکنے کا عمل ’چوبندی‘ کہلاتا ہے۔کسی مجرم کے چاروں ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں تو اِسے بھی ’چوبندی‘ یا ’چوبندکسنا‘ کہتے ہیں۔ یہی عمل ’مشکیں باندھنا‘ یا ’مشکیں کسنا‘ بھی کہلاتا ہے۔ لفظ ’چَو‘ ہندی زبان میں ’چار‘ کے معنی دیتا ہے اور اکیلا نہیں مرکبات میں استعمال ہوتا ہے، مثلاً: چَو بُرجی، چَو مُکھی، چَو رنگی، چَوراہا، چَوپایہ اورچَوبارا وغیرہ۔’’جو مَجا چھجو دے چَوبارے، اوہ نہ بلخ نہ بخارے‘‘۔

’خط و کتابت‘ برقی پیغامات اور سمعی و بصری گفتگو کی جدید سہولتوں کا لقمہ بن کر اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے، مگر پھر بھی بڑے بڑے قابل لوگ ’’خط و کتابت‘‘ ہی لکھ رہے ہیں۔ کتابت کا مطلب تو لکھنا ہے۔ ‘خط و کتابت‘ کا مطلب ہوا ’خط اور لکھنا‘۔ یہ مرکب دراصل ’کتابتِ خط‘ تھا جو اُلٹ گیا ہے، یعنی اضافتِ مقلوب کا شکار ہوگیا ہے، ’خط کتابت‘ کا مطلب ہے خط لکھنا۔ لہٰذا اگر آپ کو ہم سے کرنا ہی ہے تو ’خط کتابت‘ کیجیے یعنی خط لکھیے۔ ’خط و کتابت‘ نہ کیجیے گا ورنہ خط لکھنے کے بعد کتابت کرنے کا کشٹ الگ سے اُٹھانا پڑے گا۔