قصہ یک درویش! نیروبی میں قرآن ہائوس کی تعمیر

میں نے رائو صاحب کے سامنے جب یہ مشکل پیش کی تو فرمانے لگے کہ یہ حالتِ اضطرار ہے، مگر میں نے اُن کی رائے سے اتفاق نہ کیا۔ رائو صاحب کی طبیعت جلالی تھی، مگر اللہ ان کے درجات بلند فرمائے کہ میرے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ نرمی اور محبت کا رہا۔ وہ مجھ سے جب مخاطب ہوتے تو کہتے ’’میرے چاند! یہ کام یوں کرو اور اس مسئلے کو یوں حل کرو… وغیرہ وغیرہ۔‘‘ بہرحال میرے کورے جواب کی وجہ سے اس موقع پر وہ ذرا سے ناراض تو ہوئے، مگر میں نے حتمی طور پر کہہ دیا کہ حضرت یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ ان حالات میں اللہ ہی واحد سہارا ہے اور وہ اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا۔

دن رات اسی کشمکش میں لمحات گزر رہے تھے۔ سنا تھا کہ راتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں، اب اس کا براہِ راست تجربہ ہوا تھا۔ یہی صورتِ حال تھی کہ میں اگلے روز صبح اپنے رہائشی کمرے سے دفتر میں آیا تو ٹیلی فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ دفتر کے آپریٹر نے بتایا کہ کوئی شخص عربی زبان میں بات کررہا ہے۔ میں نے ٹیلی فون اٹھایا تو دوسری طرف سے ایک شخص عربی میں بولا کہ ہم کویت سے سیاحت کے لیے آئے ہیں اور ہلٹن (Hilton) ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے ہیں۔ ہم نے فون ڈائریکٹری میں دیکھنا چاہا کہ کوئی اسلامی ادارہ یہاں پر ہے تو آپ کے ادارے کا نمبر ہمارے سامنے آیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کے ادارے کا وزٹ کریں۔ میں نے بڑی محبت کے ساتھ ان کو خوش آمدید کہا اور عرض کیا کہ ہمارا ادارہ بہت معروف جگہ پر ہے جسے ’’قرآن ہائوس‘‘ کہا جاتا ہے، اور یہ ہلٹن ہوٹل سے پانچ چھ منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں گاڑی بھیج دوں؟

انھوں نے کہا کہ نہیں! ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے اور مقامی ڈرائیور جو ہمیں سیروسیاحت کے لیے میسر ہے، اس کے ساتھ ہم تھوڑی دیر میں آپ کے پاس پہنچ جائیں گے۔ میں نے اپنے اسٹاف سے کہا کہ وہ سب تیار ہوجائیں، کچھ معزز مہمان آرہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک مرد اور دو نوجوان خواتین دفتر میں تشریف لائے۔ مرد ان کا ذاتی سیکرٹری تھا جب کہ خواتین کویت کے ایک بہت مالدار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ دونوں بہنیں تھیں۔ مجھے ایک کا نام سارہ تو پوری طرح یاد ہے اور دوسری کا شاید عائشہ تھا۔ وہ کویت سے عربی زبان میں ایک ماہانہ رسالہ نکالتی تھیں جس کا نام ’’اسرتی‘‘ (میرا خاندان) تھا۔ ان کے والد کویت کے بہت بڑے تاجر تھے۔ باہمی گفتگو کے دوران انھوں نے ہمارے ادارے کی تفصیلات جاننا چاہیں تو میں نے زبانی اور تحریری طور پر انھیں پوری معلومات فراہم کیں۔

اس ملاقات سے دونوں بہنیں بہت خوش ہوئیں اور انھوں نے کہا کہ ہمارا سیاحتی پروگرام اور اس کا پورا شیڈول تو پہلے سے طے شدہ ہے، اس لیے ہم آپ کے کسی ادارے کا وزٹ نہیں کرسکیں گی، البتہ یہ بتائیے کہ کیا آپ ڈرافٹ کی صورت میں رقم وصول کرکے کیش کرا سکیں گے؟ میں نے کہا بالکل! کوئی مسئلہ نہیں، تو انھوں نے ہمیں میری یادداشت کے مطابق پچیس سو ڈالر عطیہ کیے جس کی شعبہ مالیات سے ان کو رسید جاری کردی گئی۔ اس رقم نے ہمیں سانس لینے کے قابل بنادیا۔ میں نے رائو صاحب کو ٹیلی فون کرکے یہ تفصیل بتائی تو انھیں بہت خوش گوار حیرت ہوئی۔ میں نے انھیں یہ بھی بتایا کہ مہمانوں کا رسالہ ’’اسرتی‘‘ میرے سامنے ہے اور ان دونوں بہنوں نے پیش کش کی ہے کہ اگر ہم کویت جائیں اور ان سے ملاقات کریں تو وہ ہمارا تفصیلی انٹرویو اور ہمارے اداروں کا تعارف اپنے رسالے میں چھاپ دیں گی۔

رائو صاحب کچھ عرصے کے بعد کویت گئے تو اس رسالے کے دفتر بھی حاضری دی اور پھر آپ کا انٹرویو اس رسالے میں بہت آب و تاب سے چھپا۔ کویت میں ہمارے سرپرست اور مالی معاون جناب عبداللہ علی المطوّع ؒ المعروف ابوبدر تھے۔ انہی کی وساطت سے ہم کویت کے مختلف تاجروں سے ملا کرتے تھے، اور موصوف ایک فائل میں سب کے نام لکھ کر ان کے آگے اپنے قلم سے رقم بھی لکھ دیتے تھے کہ کس نے کتنے دینار دینے ہیں۔ عموماً سبھی لوگ ابوبدر صاحب کی تحریر کے مطابق ہمارے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ یہ نیا خاندان پہلی بار ہمارے رابطے میں آیا تھا جن کے پاس ہمارے جانے کے بجائے اللہ نے انھیں ہمارے پاس بھیج دیا۔ سبحان اللہ وبحمدہٖ سبحان اللہ العظیم۔

اب بہت وقت بیت گیا ہے، نامعلوم کون کہاں ہے؟ ابوبدرؒ کی وفات 3 ستمبر 2006ء کو ہوئی۔ اس سانحۂ ارتحال پر دل ٹوٹ گیا تھا۔ ایسے عظیم لوگ دنیا میں خال خال ہوتے ہیں۔ سعودی عرب میں بہت سے مخیر حضرات ہمارے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ جس دور میں مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا، اُس دور میں شیخ احمد جمجوم ہمارے سب سے بڑے معاون تھے۔ آپ بہت بڑے صنعت کار اور تاجر ہونے کے علاوہ رائل سعودی کابینہ میں بطور وزیر بھی ذمہ داری ادا کرتے رہے تھے۔ ان کے علاوہ جدہ، ریاض، مکہ اور ظہران وغیرہ میں بھی کئی عرب کھلے دل سے دستِ تعاون بڑھاتے تھے۔ اس کے ساتھ پاکستانی احباب بھی ہمارا بہت بڑا اثاثہ تھے۔

نیروبی میں قرآن ہائوس کی تعمیر چودھری غلام محمدؒ کی کاوش کا ثمرہ تھا۔ جدہ کے ایک بہت بڑے سرمایہ دار تاجر جناب حسن عباس شربتلی نے چودھری صاحب کی ترغیب پر یہ 6 منزلہ شاندار عمارت تن تنہا تعمیر کرا کے دی تھی۔ میں جب کینیا آیا اور پھر ایک سال بعد سعودی عرب جانا ہوا تو بڑی خواہش تھی کہ اس عظیم معطی سے ملاقات کروں۔ جب بھی سعودی عرب جانا ہوتا تو معلوم ہوتا کہ آپ یا تو بیرونِ ملک ہیں یا طبیعت کی خرابی کی وجہ سے دستیاب نہیں۔ آخر کئی سالوں کے بعد معلوم ہوا کہ موصوف1999ء میں وفات پا گئے ہیں۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 86سال تھی۔ آج تک قرآن ہائوس کو یاد کرتا ہوں تو مرحوم کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ یہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جو تجارۃ مع اللّٰہ کرتے ہیں۔

کینیا میں قیام کے دوران خاصی بھاگ دوڑ رہی۔ اللہ کے فضل سے اسلامک فائونڈیشن کے زیراہتمام یہاں بہت سے منصوبوں پر کام ہوا۔ سب سے اہم کام سواحلی اور لوگنڈی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ ہے۔ میں جب کینیا گیا تو اسلامک فائونڈیشن کی طرف سے سواحلی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ اس وقت تک مکمل ہوکر چھپ چکا تھا، مگر لوگنڈی زبان میں ابھی ترجمہ زیر تکمیل تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ سواحلی زبان میں ترجمہ قرآن Qurani Takatifu کو بڑے پیمانے پر سواحلی علاقوں میں پہنچانے کا فرض اسلامک فائونڈیشن نیروبی نے بطریق احسن انجام دیا۔ اس کام میں کچھ خدمات سرانجام دینے کی سعادت مجھے بھی حاصل ہوئی۔ لوگنڈی زبان میں ترجمۂ قرآن کا کام چیف قاضی یوگینڈا شیخ عبدالرزاق مٹوفو کے ذمے لگا جسے انھوں نے بڑی محنت سے دو ڈھائی سالوں میں مکمل کیا۔ اس عرصے میں موصوف سے میرا مسلسل رابطہ رہا اور دو تین مرتبہ اسی سلسلے میں یوگینڈا کا دورہ بھی کیا۔

سواحلی زبان میں قرآن مجید کے مترجم شیخ عبداللہ صالح فارسی، کینیا کے چیف قاضی تھے۔ موصوف نے سواحلی زبان میں قرآن مجید کا فصیح و بلیغ ترجمہ کیا تھا۔ وہ مولانا مودودیؒ کی شخصیت سے بے حد متاثر تھے۔ بہت بڑے شاعر، ادیب، مبلغ، خطیب، محدث اور فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مجلسی آدمی تھے۔ اپنی مجلس میں لوگوں کو وعظ و تذکیر کے ساتھ اپنی خوش گوار گفتگو اور لطائف کے ذریعے ماحول کو بڑا پُرلطف بنائے رکھتے تھے۔ مجلس میں مولانا مودودیؒ کا تذکرہ جب بھی آجاتا تو انتہائی سنجیدہ ہوجاتے اور بعض اوقات مولانا مودودیؒ کی علمی کاوشوں اور جدوجہد کے ساتھ ابتلا کے تذکرے سے ان کی آنکھیں اشک بار ہوجاتیں۔ شیخ عبداللہ صالح فارسی سے راقم کا بہت قریبی اور عقیدت مندانہ تعلق رہا۔ آپ بے پناہ محبت کرنے والی شخصیت تھے۔ آپ کی مدد اور تعاون سے اللہ نے کئی کام کرنے کی درویش کو سعادت بخشی جس کا مختصر تذکرہ آگے آئے گا۔

مولانا کی وفات پر شیخ مرحوم نے عربی میں ایک مرثیہ بھی لکھا تھا جو پاکستان کے اردو اخبارات و رسائل میں چھپا تھا۔ تفہیم القرآن کا مقدمہ (از انگریزی) شیخ عبداللہ صالح فارسی نے اپنے ترجمہ قرآن کے شروع میں بطور خاص سواحلی میں ترجمہ کرکے شائع کیا۔ وہ فرمایا کرتے تھے: ’’ساری زندگی قرآن مجید کے پڑھنے، پڑھانے اور سمجھنے سمجھانے میں صرف کی، مگر ’تفہیم القرآن‘ کے آغاز میں سید مودودیؒ کے مقدمہ کی اس تحریر کو دیکھ کر پتا چلا کہ قرآن کو سمجھنے اور اس کو آگے پہنچانے کا حقیقی اور مؤثر طریقہ کیا ہے۔‘‘

سواحلی زبان میں قرآن پاک کے ترجمے کی مقبولیت تفہیم القرآن کی طرح قابلِ رشک ہے۔ یہ بات بھی دلچسپ اور سبق آموز ہے کہ اس ترجمے سے قبل قادیانیوں نے سواحلی میں قرآن کا ترجمہ کرایا تھا۔ وہاں اُن کو اس کام سے روکنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ بہرحال اس کے مقابلے میں جب یہ درست اور اصل ترجمہ چھپا تو اسلامک فائونڈیشن نے باقاعدہ اعلان کردیا جو اخبارات میں چھپا کہ: ’’جس کسی شخص کے پاس قادیانی ترجمہ ہو وہ فائونڈیشن کے مرکزی دفتر قرآن ہائوس میں وہ نسخہ جمع کراکے شیخ عبداللہ صالح فارسی کا مستند اور اسلامی ترجمہ مفت حاصل کرلے۔‘‘ اس اعلان کے بعد بے شمار لوگوں نے قادیانیوں کا ترجمہ جمع کروایا اور درست ترجمہ حاصل کرلیا۔

صومالی علما
میرے ایک صومالی نژاد دوست عثمان عبدی شوریا، نیروبی یونی ورسٹی میں طالب علم تھے۔ کینیا کے شمال مشرقی مسلم اکثریتی صوبے سے ان کا تعلق تھا۔ یونی ورسٹی کی طلبہ تنظیم کے عہدے دار اور مخلص مسلمان نوجوان تھے۔ انھوں نے بتایا: ’’مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا مقدمہ تفہیم القرآن صومالی علما کے ہاں اس قدر مقبول ہے کہ کئی صومالی علما جو سواحلی زبان سے نابلد ہیں، اس مقدمہ کا عربی ترجمہ حاصل کرکے اسے اپنی مجالس میں طلبہ کو صومالی زبان میں پڑھاتے ہیں۔‘‘

لوگنڈی
لوگنڈی، یوگینڈا کی سرکاری اور عوامی زبان ہے۔ اس زبان میں بھی مشنری عیسائیوں اور قادیانیوں نے قرآن کا ترجمہ کررکھا تھا۔ اکتوبر 1975ء میں پاکستان آمد پر، میں نے مولانا مودودیؒ مرحوم سے ملاقات کی تو آپ نے حسبِ توقع افریقہ کے کام کے بارے میں رپورٹ طلب فرمائی۔ میں نے دیگر امور کے علاوہ لوگنڈی زبان میں قرآن مجید کے ترجمے کی بات بھی کی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہمیں تفہیم القرآن ہی کا براہِ راست ترجمہ کروانا چاہیے۔ اس پر مولانا نے بڑے حکیمانہ انداز میں فرمایا ’’اس کام پر خاصا وقت لگے گا۔ سردست کسی پختہ عالم دین کے ذریعے قرآن مجید کے متن کا مختصر حواشی کے ساتھ ترجمہ وقت کی فوری ضرورت ہے، تاکہ گمراہ کن تراجم کا جلد سدباب ہوسکے۔‘‘

میں نے عرض کیا کہ یوگینڈا کے مفتی عبدالرزاق مٹووو اسلامک فائونڈیشن کی درخواست پر یہ کام کررہے ہیں، تو فرمایا: ’’ ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرکے اس کی جلد تکمیل کی کوشش کی جائے۔‘‘ چنانچہ یوگنڈی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ جلد مکمل ہوا اور چھپا۔ یہ ترجمہ یوگینڈا کے سابق چیف قاضی شیخ عبدالرزاق مٹووو کا بہت بڑا علمی کارنامہ ہے۔ آپ نے اسے کئی سالوں کی محنت کے ساتھ مکمل کیا اور اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس ترجمے کی تقریبِ رونمائی نیروبی اور کمپالا(یوگینڈا) میں میری موجودگی میں ہوئی جس میں مقامی اسکالرز اور عام مسلمانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اہلِ علم نے ترجمے کے محاسن پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔ میں نے شیخ عبدالرزاق کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا اور ان کی کامیابی پر مولانا مودودیؒ کی طرف سے ان کو مبارک باد پیش کی۔ اخبارات میں بھی اس علمی نشست کی رپورٹنگ ہوئی۔

مولانا مودودیؒ کی کتاب ’اسلامی نظام زندگی‘ کے عربی ترجمہ نظام الحیاۃ فی الاسلام کا سواحلی میں ترجمہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ عظیم کام کینیا کے سابق چیف قاضی شیخ محمد قاسم مزروعی مرحوم نے کیا تھا۔ اس کتاب نے نہ صرف بہت سے عام عیسائیوں کو مسلمان کیا، بلکہ کئی بشپ بھی مسلمان ہوگئے۔ یہ کتاب نیروبی یونی ورسٹی میں مسلم طلبہ کے لیے اسلامک اسٹڈیز کے مضمون میں بطور نصابی کتاب شامل کرلی گئی تھی۔ رسالۂ دینیات، خطبات، شہادتِ حق، مسئلہ ختم نبوت اور کلمہ طیبہ کے معنی کے علاوہ اور بھی کئی کتابچے سواحلی میں ترجمہ ہوکر چھپ چکے تھے۔ (جاری ہے)