ورک فرام ہوم آج بھی دنیا بھر میں اپنایا جانے والا ایک اچھا رجحان ہے
دنیا بھر میں معاشیات کے حوالے سے انتہائی نوعیت کی صورتِ حال پیدا ہوچکی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، افلاس یہ سب کچھ اپنی جگہ اور انفرادی سطح پر معاشی معرکہ آرائی اپنی جگہ… اِس وقت کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس میں ’’گلا کاٹ‘‘ قسم کی مسابقت نہ پائی جاتی ہو۔ کئی شعبوں کا تیا پانچا ہوچکا ہے اور دوسرے بہت سے شعبے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ مسابقت بہت زیادہ ہے اور خطرناک بھی۔ متعدد شعبوں کی جڑ اکھڑ چکی ہے اور کئی شعبے بقا کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ بحرانی کیفیت کا گراف دن بہ دن بلند تر ہوتا جارہا ہے۔
یہ سب کچھ ماضی میں نہیں تھا۔ بیشتر شعبے اس قدر مستحکم تھے کہ اُن کے وجود کے لیے انتہائی نوعیت کا بحران پیدا نہیں ہوتا تھا۔ لوگ بے فکر ہوکر کام کرتے تھے۔ معاشی جدوجہد تو تب بھی تھی مگر خیر، یہ آج کی سی غیر یقینی نہیں تھی۔ لوگ تھکن سے چُور کرنے والی محنت کرنے سے گھبراتے نہیں تھے کیونکہ اُنہیں اس بات کا یقین ہوتا تھا کہ بھرپور محنت کا معاوضہ بھی ملے گا اور کام کے جاری رکھنے کی گنجائش بھی رہے گی۔
اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غیر یقینی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ کسی ایک شعبے کے بارے میں بھی پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ ٹیکنالوجیز کے محاذ پر گھمسان کی جنگ ہورہی ہے۔ ٹیکنالوجیز میں پیش رفت کی رفتار اِتنی زیادہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل جاتا ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرے، ٹیکنالوجیز میں پیش رفت کے ساتھ خود کو ہم آہنگ رکھنے میں کامیاب نہیں ہوپاتا۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ فطری علوم و فنون کے ہر شعبے میں انتہائی جوش و خروش کے ساتھ ہوش رُبا نوعیت کی تحقیق ہورہی ہے۔ یہ تحقیق وسیع بھی ہے اور وقیع بھی۔
ایک زمانہ تھا جب سوچا جاتا تھا کہ کبھی ٹیکنالوجیز اِس قدر ہوں گی کہ زندگی آسان ہوجائے گی اور انسان اپنی مرضی کے مطابق جی سکے گا۔ وہ دور آچکا ہے، یعنی ٹیکنالوجیز انتہائی عروج کی حامل ہوچکی ہیں مگر اِس کے نتیجے میں جو کچھ بھی ہوسکتا تھا وہ بھی ہورہا ہے۔ ٹیکنالوجیز نے آسانیاں ضرور پیدا کی ہیں تاہم اُن سے کہیں زیادہ تو مشکلات کو جنم دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ٹیکنالوجیز نے انسان کی ضرورت گھٹادی ہے۔ خودکاری کو تیزی سے فروغ مل رہا ہے۔ دس افراد کا کام ایک کمپیوٹر کے ذریعے دو افراد کررہے ہیں۔ یہ کیفیت بے روزگاری کا گراف بلند کررہی ہے۔
دنیا بھر میں آجر نتائج کی بنیاد پر کام کروانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کسی کو ملازمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ آئے، بیٹھے، کھائے پیے اور چلا جائے۔ اگر کوئی کسی دفتر، فیکٹری یا دکان میں نوکری کرے، روزانہ آٹھ دس گھنٹے دے اور کام صفر کے برابر ہو تو ایسے شخص سے اُس ادارے، دفتر، فیکٹری یا دکان کو کیا فائدہ؟ نوکری کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ انسان طے شدہ اوقات کے مطابق آئے اور کچھ کیے بغیر یا تھوڑا سا کام کرکے چل دے۔ کسی بھی شخص کی صلاحیت و سکت سے مستفید ہونا ہی تو نوکری کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی لوگ اپنے اوقاتِ کار کے مطابق حاضر رہنے کو کافی سمجھتے ہیں، جبکہ اِس کی کچھ بھی ویلیو نہیں ہے۔ ویلیو تو دراصل اِس بات کی ہے کہ طے شدہ اوقاتِ کار کے مطابق آکر کسی نے آخر کِیا کیا ہے، یعنی سوال باٹم لائن کا ہے۔
خالص معروضی سوچ اپنائی جائے تو آپ اِسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ کسی کو ملازمت دینے سے کچھ فائدہ نہیں اگر کام مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں۔ کسی بھی آجر کو اس بات سے کچھ غرض نہیں ہوتی کہ اُس نے جسے کوئی کام سونپا ہے وہ کیسے کپڑے پہنتا ہے، کس طور بات کرتا ہے، کتنے بجے آتا ہے اور کتنے بجے جاتا ہے۔ یہ تمام معاملات ضمنی ہیں۔ اگر کوئی شخص مقامِ کار کو یومیہ دس گھنٹے دیتا ہے اور کوئی دوسرا شخص محض چار گھنٹے میں آجر کی مرضی کے مطابق کام کرکے چلا جاتا ہے تو سیدھی سی بات ہے کہ آجر کے نزدیک وہ شخص بہتر ہے جو صرف چار گھنٹے میں دیا ہوا کام کرکے چل دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں آجر اب کام یعنی نتیجے کی بنیاد پر کسی کو کام سونپتے ہیں۔ اُنہیں اس بات سے بھی کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ کوئی کسی بھی کام کو کس طور کرتا ہے۔ وہ تو صرف نتیجہ چاہتے ہیں۔
ملازمت سے نتائج کو جوڑنے کی ذہنیت تیزی سے پنپ رہی ہے۔ آجر چاہتے ہیں کہ جسے کام سونپا جارہا ہے وہ پوری آزادی اور خودمختاری سے یعنی اپنی مرضی کے مطابق کام کرے۔ ایسی حالت میں وہ زیادہ کام کرتا ہے اور معیار بھی بلند رہتا ہے۔
ملازمت دینے کا تصور کیوں کمزور پڑگیا ہے؟ اِس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ ایک طرف تو معاملہ یہ ہے کہ اوور ہیڈ اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ اوور ہیڈ اخراجات کا گراف نیچے لایا جائے۔ ایک دور وہ بھی تھا جب لوگ اس بات کو لازم سمجھتے تھے کہ کہیں کوئی دفتر لیا جائے، وہاں بیٹھک جمائی جائے، میز کرسی رکھی جائے، کام کرنے والوں کے لیے ایک خدمت گار بھی ہو جو اُنہیں چائے پانی دے، کھانا گرم کردیا کرے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بیشتر آجر یہ بھی نہیں سوچتے تھے کہ جو کام وہ کروا رہے ہیں اُس کے لیے دفتر وغیرہ رکھنا لازم بھی ہے یا نہیں۔
وقت نے انسان کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ آجر بھی انسان ہی ہوتے ہیں۔ وہ بھی حالات و واقعات سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ملازمین کے لیے کوئی مقام اگر ہونا بھی چاہیے تو محض ضرورت ہونے کی صورت میں اور ضرورت کے مطابق۔
آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ بہت سے دفاتر اپنی اصل میں غیر ضروری ہوتے ہیں۔ اگر کوئی کام گھر سے کیا جاتا ہے تو اُس کے لیے دفتر کرائے پر لینے کی کوئی خاص ضرورت نہیں، اور اگر ایسا کرنا نچلی سطح پر لازم بھی ہو تو محض رابطے کے لیے کوئی چھوٹی سی جگہ کرائے پر لی جاسکتی ہے۔
چار سال قبل پھیلنے والی کووڈ کی وبا نے انسان کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ اگر کوئی سیکھے ہوئے کو رُوبہ عمل نہ لائے تو اور بات ہے۔ ورک فرام ہوم کا تصور دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہوا تھا اور آجر بھی خوش تھے کہ دفتر میں ہونے والا کام اگر گھر بیٹھے ہوجایا کرے تو اِس سے بڑھ کر اُنہیں کیا چاہیے۔
ورک فرام ہوم آج بھی دنیا بھر میں اپنایا جانے والا ایک اچھا رجحان ہے۔ ساتھ ہی ساتھ نتائج کی بنیاد پر کام لینے کا رجحان بھی پنپ رہا ہے۔ اِس کی مثال یہ ہے کہ اگر کسی اخبار کو مترجم کی ضرورت ہے تو وہ کسی کی خدمات حاصل کرے گا اور چاہے گا کہ وہ روزانہ کم از کم دو مضامین کا ترجمہ کیا کرے۔ ہفتے میں 6 دن کام کرنے کی صورت میں 12 مضامین کا ترجمہ کرایا جانا چاہیے۔ اگر کوئی شخص روزانہ مقررہ اوقات کے دوران دفتر میں حاضر ہوتا ہے اور پورے ہفتے میں زیادہ سے زیادہ 4 مضامین کا ترجمہ کرتا ہے تو ایسے شخص کے ہونے سے کچھ خاص فائدہ نہیں۔ اُس سے بہتر وہ شخص ہے جو گھر بیٹھے یومیہ دو مضامین کا ترجمہ کردیا کرے۔ ایسا شخص ادارے یا دفتر کے لیے زیادہ سُودمند ٹھیرے گا۔
پاکستان جیسے ممالک میں نتائج کی بنیاد پر ملازمت کا تصور ابھی تک خام ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ اِس کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے ہاں آج بھی ملازمت کو آرام و سکون کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے، یعنی اگر کسی ادارے نے ملازمت دے دی ہے تو روزانہ کام پر آنا یعنی ڈیوٹی دینا کافی ہے، کام کا کیا ہے وہ تو ہوتا ہی رہے گا۔
نتائج یا پیداوار (productivity) کی بنیاد پر ملازمت دینے کا تصور کسی بھی صورت بے انصافی پر مبنی نہیں۔ کسی بھی آجر کو حتمی تجزیے میں تو اپنا کام ہی کروانا ہوتا ہے۔ اگر وہ ملازمت دیتے وقت نتائج طے کروائے تو ایسا کرنے میں حرج ہی کیا ہے! بہت سے شعبوں میں ایک زمانے سے ایسا ہی ہورہا ہے۔ مثلاً سیلز کا کام کرنے والے اِسی بنیاد پر تو نوکری کرتے ہیں کہ وہ ایک خاص مدت میں متعین کیا ہوا ہدف حاصل کریں گے۔ ایسی حالت میں ملازمت دو سطحوں پر ہوتی ہے۔ ایک طرف تو بنیادی تنخواہ ہوتی ہے اور دوسری طرف کمیشن۔ ادارہ سیلزمین کو ایک لگی بندھی تنخواہ دے گا اور ساتھ ہی ساتھ اُسے سیلزکی بنیاد پر کمیشن بھی دیا جائے گا، ایسی صورت میں سیلزمین کو زیادہ سے زیادہ سیل کی فکر لاحق ہوگی اور وہ دل لگاکر کام کرے گا۔
آج کی نئی نسل کو گزرے ہوئے زمانوں میں ملازمتوں کے پیٹرن کا زیادہ علم نہیں مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ وہ بھی چاہتی تو یہی ہے کہ نوکری ہو تو بس نوکری ہو، یعنی نتائج کے بارے میں زیادہ سوچے بغیر آجر بس تنخواہ دیتا رہے۔ یہ اب ممکن نہیں۔ دنیا بہت بدل چکی ہے۔ آجروں کو آپس میں شدید مسابقت کا سامنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تنخواہوں کا بل بھی کم سے کم ہو اور اوور ہیڈ اخراجات کا گراف بھی نیچے رہے۔ اِس کے لیے وہ نتائج کی بنیاد پر کام لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ طریقہ چونکہ دنیا بھر میں رائج ہوتا جارہا ہے اس لیے کسی کو بھی اس حوالے سے حیران ہونے کی ضرورت ہے نہ پریشان ہونے کی۔ سوال اپنے آپ کو تبدیل کرنے اور نئے سانچے میں ڈھالنے کا ہے۔ نئی نسل یہ سب کچھ دیکھتی آرہی ہے اس لیے اُسے نئے طریقے اپنانے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ جو لوگ عمر کی چوتھی یا پانچویں دہائی میں ہیں اُن کے لیے ایڈجسٹمنٹ ایک اہم مرحلہ ہے۔ اِس مرحلے سے گزرے بغیر وہ زندگی کے معاشی پہلو کو متوازن رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ تین دہائیوں کے دوران دنیا پوری کی پوری بدل چکی ہے۔ اِس نئی دنیا میں مستعمل اور مقبول اطوار سیکھے بغیر چارہ نہیں، گزارا نہیں۔ بیشتر آجر زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لیے وہ تمام طریقے اپنا رہے ہیں جو ٹیکنالوجی کی بدولت آسانی سے اپنائے جاسکتے ہیں، اور یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ خود آجروں کے لیے مسابقت بہت بڑھ چکی ہے۔