شماریات کی ساتویں، اور پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق ملک کی کل آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ 90 ہزار ہے، جس میں51.5 فیصد مرد اور 48.5 فیصد خواتین ہیں۔ پاکستان اِس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں دیہی آبادی61 فیصد، جبکہ شہری آبادی 39 فیصد ہے۔ آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح 2.55 فیصد ہے جو کہ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے، اور اگر یہ شرح اِسی طرح برقرار رہی تو 2050ء تک پاکستان کی آبادی دوگنا ہونے کا امکان ہے۔ ویسے تو پاکستان میں مجموعی طور پر خواندگی کی صورت حال حوصلہ افزا نہیں ہے لیکن خواتین میں یہ شرح انتہائی کم ہے۔ ملک میں خواندگی کی شرح 61 فیصد ہے جس میں 68 فیصد مرد اور 53 فیصد خواتین پڑھی لکھی ہیں، ان میں اُن لوگوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے جو صرف اپنا نام لکھنا جانتے ہیں۔ خواندگی سے متعلق معاشی سروے 23-2022ء کے مطابق خواتین میں سب سے کم شرح خواندگی بلوچستان میں 36.8 اور مردوں میں 69.5 فیصد ہے، خیبر پختون خوا میں خواتین کی شرح خواندگی 37.4، مردوں میں 72.8 فیصد، سندھ میں خواتین کی شرح خواندگی49.7، مردوں میں 72.9 فیصد اور پنجاب میں خواتین کی شرح خواندگی 58.4 فیصد اور مردوں میں 74.2 فیصد ہے۔ یہاں پرائمری اسکول جانے کی عمر کی تقریباً 32 فیصد لڑکیاں اسکول سے باہر ہیں اور اِس تعداد میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔
تعلیم کی اہمیت مرد و عورت کے لیے یکساں ہے، اِس کا کسی صنف سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن پاکستان میں صورتِ حال ذرا مختلف ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی شرح لڑکوں سے بڑھتی نظر آرہی ہے، لیکن تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملکی تعمیر و ترقی میں وہ کیا کردار ادا کررہی ہیں؟ اِس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد خوش آئند ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی آزادی بھی حاصل ہوسکے۔ روشن مستقبل کے لیے آج سے اقدامات کرنا ہوں گے، ورنہ کل آج سے زیادہ مشکل ہوسکتا ہے۔ ’’مسلم معاشروں میں خواتین کی تعلیم، چیلنج اور مواقع‘‘ جیسے اہم موضوع پر اسلام آباد میں دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس ہوئی، یہ پاکستان کے لیے بلاشبہ ایک بڑا اعزاز ہے۔ اس کانفرنس میں 47 مسلم اور دوست ممالک کے وزیروں، سفیروں، ماہرین تعلیم اور اسکالرز سمیت 150 سے زائد ممتاز شخصیات شریک ہوئیں۔ کانفرنس سے کلیدی خطاب میں وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا کہ مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم بڑا چیلنج ہے جس کے لیے مسلم ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا، خواتین قومی و عالمی معیشت میں مؤثر کردار ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں، لڑکیوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی سے معاشرہ مضبوط اور ترقی یافتہ ہوگا، اس بنا پر مخیر حضرات اور کاروباری ادارے لڑکیوں کی تعلیم کو یقینی بنانے میں حکومت کی معاونت کریں، آئندہ دہائی میں لاکھوں لڑکیاں جاب مارکیٹ میں داخل ہوں گی جس سے سماجی ترقی اور معاشی خوشحالی کے بے پناہ امکانات ہیں، خواتین میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ نہ صرف اپنے خاندانوں اور قوم کو غربت سے نکال سکتی ہیں بلکہ عالمی معیشت میں کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اختراعی حل تلاش کرسکتی ہیں، پاکستان میں تعلیمی تفاوت کو دور کرنے کی طرف ایک بڑا قدم دانش اسکولوں کا قیام ہے، جبکہ فلیگ شپ یوتھ پروگرام کے ذریعے حکومت معیاری تعلیم فراہم کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے پُرعزم ہے جس میں مصنوعی ذہانت، ڈیٹا اینالیٹکس اور سائبر سیکورٹی کی فراہمی اور اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والوں کو لیپ ٹاپ اور اسکالرشپ کی فراہمی سمیت پیشہ ورانہ تربیت شامل ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم موجودہ وقت کا اہم چیلنج ہے، مسلم دنیا کو اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے شعبے میں درپیش چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ غریب ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی ممکن بنانا ہوگی۔ اسلام بھی خواتین سمیت معاشرے کے ہر طبقے پر علم حاصل کرنے پر زور دیتا ہے، عالمی کانفرنس کا انعقاد پاکستان کے لیے اعزاز ہے۔ شہبازشریف نے اپنی تقریر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تجارت کے لیے کی گئی کوششوں کا حوالہ بھی دیا۔
وزیراعظم نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مقاصد اور اُمتِ مسلمہ کی اجتماعی اُمنگوں کی عکاسی کرتے ہوئے اسلام آباد اعلامیے پر دستخط کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کانفرنس کی حمایت اور سرپرستی پر خادم حرمین الشریفین شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے میں خدمات پر مسلم ورلڈ لیگ کا شکریہ ادا کیا۔ کانفرنس سے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حسین ابراہیم طہٰ، رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ، پاک فوج کی پہلی خاتون لیفٹیننٹ جنرل (ر) نگار جوہر اور نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے بھی خطاب کیا۔ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ لڑکیوں کو بلاخوف تعلیم کے مساوی مواقع دستیاب ہونے چاہئیں، جبکہ اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حسین ابراہیم طہٰ نے ملکی مشکلات اورگھریلو مجبوریوں کی وجہ سے خواتین کی تعلیم سے محرومی کو باعثِ تشویش قرار دے کر صورتِ حال کی حقیقی عکاسی کی۔ اس تناظر میں یہ امر بہت خوش آئند ہے کہ اس بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز 57 مسلم ملکوں پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم اور رابطہ عالم اسلامی کے درمیان لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسٹرے ٹیجک شراکت داری کے مفاہمت ناموں پر دستخطوں سے ہوا۔ امید ہے کہ اب ان کے مطابق ضروری اقدامات بھی ہر ممکن تیزرفتاری سے عمل میں لائے جائیں گے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیم سمیت ہر وہ شعبہ یا ادارہ جس میں معمولی سی بھی بے ضابطگی در آتی ہے، اُس میں بہتری لانے کے بجائے اس کا حل اسے نجی تحویل میں دے دیے جانے میں تلاش کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیل مل، پی آئی اے اور ریلوے سمیت کئی قومی اداروں کو نجی تحویل میں دیے جانے پر غور کیا جارہا ہے۔ قومی اداروں کی نجکاری کرکے انھیں منافع بخش تو بنایا جاسکتا ہے مگر اس عمل سے ان اداروں پر ریاست کی اتھارٹی بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک بھر میں ریاستی اتھارٹی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ حکومت عوام سے اسی لیے ٹیکس وصول کرتی ہے تاکہ وہ ان کو تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کر سکے، مگر المیہ یہ ہے کہ عوام کو کسی بھی شعبے میں سہولت دستیاب نظر نہیں آتی۔ سوال یہ ہے کہ جب عوام خود ہی اپنے مسائل حل کرنے پر مجبور ہوں گے تو اُن کے نزدیک ریاست اور اس کی اتھارٹی کی کیا اہمیت باقی رہ جائے گی؟ اگر حکومت عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی بنیادی ضروریات پر خرچ کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام کے مسائل حل ہوتے نظر نہ آئیں۔ اس سے ریاست کی اتھارٹی بھی مضبوط ہوگی۔ لہٰذا ایسی کانفرنسوں کو محض وعدوں اور دعووں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ان میں کیے گئے عہد و پیماں کو عملی جامہ پہنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔