میں ہی کیوں؟

آرتھر رابرٹ ایشے ٹینس کا وہ امریکی کھلاڑی تھا جس نے تین بار گرینڈ سلیم(Grand slam)کا ٹائٹل جیتا۔ یوں وہ امریکہ کا ہمیشہ کے لیے مایہ ناز کھلاڑی قرار پایا۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق اگر ہر کھیل کے بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جائے تو آرتھر کا شمار دنیا کے پہلے 21 کھلاڑیوں میں کیا جاتا ہے۔ اس نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا سے بے شمار شہرت، عزت اور دولت کمائی۔

ایک سرجری کے دوران میں اُسے آلودہ خون (Infected blood) ملا جس سے وہ ایڈز کے مرض کا شکار ہوگیا اور کچھ عرصہ اس میں مبتلا رہ کر فروری 1993ء میں 50 برس کی عمر میں موت کی آغوش میں چلا گیا۔ اس کی بیماری کے زمانے میں اسے دنیا بھر سے محبت بھرے پیغامات پر مبنی ڈھیروں خطوط موصول ہوئے۔ ان میں سے ایک خط میں لکھا تھا کہ آخر اللہ نے اتنے موذی مرض کے لیے تمہارا ہی انتخاب کیوں کیا؟ آرتھر نے اس کے جواب میں لکھا: ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ہر سال پانچ کروڑ بچے ٹینس کھیلنے کا آغاز کرتے ہیں۔ پانچ کروڑ میں سے 50 لاکھ ٹینس کھیلنا سیکھ پاتے ہیں۔ ان میں سے صرف پانچ لاکھ پروفیشنل ٹینس تک پہنچتے ہیں، اور ان پانچ لاکھ میں سے 50 ہزار ہی سرکٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں، پھر صرف پانچ ہزار گرینڈ سلیم تک پہنچ پاتے ہیں، اور ان پانچ ہزار میں سے بھی صرف 50 ومبلڈن تک پہنچتے ہیں۔ پھر چار سیمی فائنل میں پہنچتے ہیں، دو فائنل میں، اور جب میں فائنل جیت کر تنِ تنہا کپ اٹھائے ہوئے تھا تو میں نے خدا سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آخر اتنی بڑی کامیابی کے لیے آپ نے پانچ کروڑ لوگوں میں سے میرا انتخاب ہی کیوں کیا؟ اس طرح جب کامیابی اور نعمت ملنے کے وقت میں نے اللہ سے یہ نہ پوچھا کہ آخر میں ہی کیوں؟ تو آج بیماری اور تکلیف میں بھی مجھے یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ آخر اس بیماری کے لیے میں ہی کیوں؟

انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ نعمت اور راحت کو تو اپنا حق سمجھ کر استعمال کرتا رہتا ہے مگر جب کوئی تکلیف یا مصیبت پہنچتی ہے تو پھر شکایت کرتا ہے کہ کیا اس مصیبت کے لیے وہی رہ گیا تھا۔ عموماً انسانوں کی زندگی میں اچھے حالات کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے لیکن برے حالات کے وقت وہ اس دورانیے کو یکسر بھول جاتے ہیں اور برے حالات کا یہ تھوڑا سا وقت اچھے حالات کے زیادہ وقت کے لیے حجاب بن جاتا ہے، اور یہ حجاب انسان کو شکر ِ نعمت سے محروم کردیتا ہے۔

ایک دوست نے دوسرے سے کہا کہ جب اللہ لوگوں کو بنگلے اور گاڑیاں تقسیم کررہا تھا تو میں کہاں تھا؟ دوسرا دوست اسے اسپتال لے گیا اور اس سے کہا: اب بتاؤ جب اللہ ان لوگوں میں بیماریاں اور تکلیفیں تقسیم کررہا تھا تو تم کہاں تھے؟ یہ تمہارے حصے میں کیوں نہیں آئیں؟ جس طرح تکلیف میں ہم پوچھتے ہیں کہ میں ہی کیوں؟ اس طرح اگر راحت میں بھی خیال کرلیا کریں کہ میں ہی کیوں تو انسان اس ناشکری سے بچ جائے گا جس کا وہ اکثر شکار ہوتا رہتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب انسان اپنا بندہ ہونا اور خدا کا خالق اور مالک ہونا بھول جاتا ہے تو اس کو اِس طرح کی شکایت پیش آتی ہے۔ مالک کو اپنی مِلک پر پورا اختیار ہوتا ہے۔ وہ اسے جیسے اور جس حال میں بھی رکھے، مِلک کو کوئی اختیار حاصل نہیں کہ وہ شکایت کرے۔ اللہ ہمارا مالک ہے۔ اگر وہ اچھے حالات میں رکھے تو یہ اس کا احسان ہے، ہمارا حق ہرگز نہیں۔ اگر وہ برے حالات میں رکھے تو یہ مالک کا حق ہے، ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ شکایت کریں۔ جس طرح اچھے حالات کو خوشی سے قبول کرنے میں ہم کوئی تامل نہیں کرتے ، اسی طرح برے حالات کو بھی تسلیم و رضا سے قبول کر کے ہمیں اس کا بندہ ہونے کا عملی اظہار کرنا چاہیے۔ یہی وہ پیغام ہے جسے آرتھر نے بہت خوبصورتی سے بیان کر دیا ہے۔ اگر چہ قرآن و حدیث بھی اس پیغام سے بھرے پڑے ہیں لیکن اکثر لوگوں کو انھیں پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ بہر حال اچھی بات جہاں سے بھی ملے، لے لینی چاہیے کہ میرے نبی کریمؐ کی تعلیم بھی یہی ہے۔
(محمد صدیق بخاری/سہ ماہی ”تدبر“ لاہور)

صدائے غیب

گرچہ برہم ہے قیامت سے نظام ہست و بود
ہیں اسی آشوب سے بے پردہ اسرار وجود
زلزلے سے کوہ و در اڑتے ہیں مانند سحاب
زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام
ہے اسی میں مشکلات زندگانی کی کشود