خالقِ کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا ہے، سبب جس کا یہ بتایا ہے کہ انسان ’’علم‘‘ کی دولت سے فیض یاب ہے۔ اسی شرف کے باعث اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ سب انسان کے حضور سجدہ ریز ہوجائیں۔ اپنے نبیِ آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اپنی آخری ہدایت قرآن حکیم کے نزول کا آغاز بھی رب رحیم و کریم نے ’’اقرا‘‘ یعنی ’’پڑھو‘‘ سے فرمایا۔ ’’پڑھو! (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ، جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو! اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ جانتا نہ تھا‘‘ (العلق: آیت 1 تا 5)۔ اسی پر بس نہیں کیا بلکہ قرآنِ عظیم الشان میں انسان کو بار بار تاکید کی گئی کہ وہ علم حاصل کرے کیونکہ ’’جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی یکساں نہیں ہوسکتے‘‘۔ نبیِ رحمتؐ اور آپؐ کے ماننے والوں کو واضح الفاظ میں ہدایت کی گئی کہ ’’اور دعا کرو کہ اے پروردگار! مجھے مزید علم عطا کر‘‘۔ خاتم النبیین رحمۃ للعالمین، محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کو اپنے لیے باعثِ فخر قرار دیا کہ ’’بُعثتُ مُعْلِّمْ‘‘۔ ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔ چنانچہ آپؐ نے اپنے پیروکاروں پر بھی دوٹوک الفاظ میں واضح فرما دیا کہ ’’ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے‘‘۔
قرآن و سنت کی ان واضح تعلیمات کے باوجود یہ امر حیران کن ہے کہ امتِ مسلمہ آج حصولِ علم میں دنیا بھر کے معاشروں میں پسماندہ ترین ہے، اور معلوم نہیں کہ کہاں سے یہ تصور دین دار معاشروں میں در آیا ہے کہ خواتین کے لیے تعلیم شجرِ ممنوعہ ہے۔ ظاہر ہے یہ تصور بنیادی انسانی حقوق کی نفی ہے حالانکہ اسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اُس دور میں خواتین کو عزت و احترام کا مقام دیا جب جاہلی معاشرے عورت کو انسان تسلیم کرنے ہی کے لیے تیار نہیں تھے، اسلام نے اس ماحول میں مرد اور عورت کے مابین حقوق کے معاملے میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی بلکہ حقوق کے معاملے میں عورتوں کو ترجیحی سلوک کی مستحق قرار دیا گیا، مگر افسوس کہ آج بہت سے مسلم ممالک میں مذہب کے نام پر خواتین کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں۔
مسلم دنیا کے اس پس منظر میں یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ اسلام آباد میں دو روزہ عالمی تعلیمی کانفرنس منعقد کی گئی جس کا موضوع ’’معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم، درپیش چیلنج اور مواقع‘‘ تھا۔ کانفرنس میں 47 ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا پاکستان میں انعقاد یقیناً ایک اعزاز ہے، اس کانفرنس سے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور ہمسایہ برادر اسلامی ملک افغانستان میں ایک مثبت پیغام پہنچے گا۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے شرکاء کو بجا طور پر توجہ دلائی کہ لڑکیوں کی تعلیم وقت کا بڑا چیلنج ہے، مسلم ممالک کو اس حوالے سے وسیع پیمانے پر کام کرنا ہوگا، لڑکیوں کے لیے پائیدار تعلیمی مواقع کی فراہمی کے لیے اجتماعی کاوشیں درکار ہیں۔ وزیراعظم نے اپنی حکومت کے عزائم کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتِ پاکستان لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اقدامات کے ساتھ تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے کیونکہ تعلیم حاصل کرنا ہر معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے، اور اس شعبے میں درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ اقدامات سے غریب ملکوں میں بچیوں کی تعلیم تک رسائی کو ممکن بنانا ہوگا۔ اسلام نے خواتین سمیت معاشرے کے تمام طبقات کے لیے علم حاصل کرنے کی اہمیت اجاگر کی ہے، اسلام کے ابتدائی دور میں حضرت خدیجہؓ کی خدمات نمایاں ہیں، انہوں نے تجارت میں کامیابی کی مثال قائم کی۔ خواتین کو بنیادی تعلیم فراہم کرنے سے معاشرہ مضبوط، اور ترقی کی جانب گامزن ہوگا۔ پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی خواتین پر مشتمل ہے مگر ان کی شرحِ خواندگی صرف 49 فیصد ہے، اور دو کروڑ سے زائد پاکستانی بچے ابھی تک اسکولوں سے باہر ہیں جو بلاشبہ تشویش کا باعث ہے۔
کانفرنس کے دوسرے روز اختتامی اجلاس میں ’’اعلانِ اسلام آباد‘‘ کے نام سے مشترکہ اعلامیے کی منظوری دی گئی جس میں مسلم ممالک کی حکومتوں، نجی اداروں اور بین الاقوامی اداروں پر زور دیا گیا کہ وہ قومی ایجنڈوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو ترجیح دیں۔ غربت، تنازعات اور سماجی چیلنجز سے متاثرہ لڑکیوں کے لیے تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لیے تعلیمی وظائف دینے کی تجویز بھی دی گئی۔ کانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ لڑکیوں کی تعلیم صرف ایک مذہبی فریضہ ہی نہیں بلکہ ایک اہم معاشرتی ضرورت بھی ہے، قراردادوں پر عمل درآمد ہونا چاہیے، پڑھی لکھی عورت دنیا میں امن و سکون دینے اور سماج کو انتہا پسندی، تشدد اور جرائم سے بچانے میں معاون ثابت ہوتی ہے، اسلام کو بدنام کرنے اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کی کوششیں بند ہونی چاہئیں، اب وقت آگیا ہے کہ اسلام کی غلط تشریح اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کو ختم کیا جائے۔ تعلیم بنیادی حق ہے، اسلامی تعلیمات نے اسے لازم قرار دیا، عالمی معاہدوں نے اسے مضبوط کیا اور قومی آئین نے اس کو استحکام بخشا۔ کانفرنس میں انتہا پسندانہ نظریات اور ثقافتی اصولوں سے لڑنے کی اہمیت پر زور دیا گیا جو خواتین کے لیے تعلیمی مواقع میں رکاوٹ ہیں۔
کانفرنس کے مقاصد اور اس کے دوران خصوصاً مشترکہ اعلامیے میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے ظاہر کیے گئے عزائم سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، تاہم اس حقیقت سے بھی صرفِ نظر ممکن نہیں کہ تعلیمی اداروں کا ماحول اور ان میں دی جانے والی تعلیم بھی ایسی ہونا لازم ہے کہ والدین اپنی بچیوں کو ان میں بھیج کر ان کی اخلاقی و دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے فکرمند نہ ہوں اور اکبر الٰہ آبادی یہ کہنے پر مجبور نہ ہوں کہ:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اس وقت ہمارے تعلیمی اداروں خصوصاً مخلوط تعلیمی اداروں کا یہ عالم ہے کہ والدین اپنی بچیوں کو ان میں بھیجتے ہوئے ایک خوف سے دوچار رہتے ہیں، اور بہت سے والدین اسی خوف کے پیش نظر بچیوں کو ان اداروں میں نہ بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں بے راہ روی، بے حیائی اور بچوں میں منشیات کے استعمال کی عادات پروان چڑھنے کی شکایات عام ہیں۔ اسی طرح ان اداروں میں پڑھائے جانے والے تعلیمی نصاب کے بارے میں بھی اکبر الٰہ آبادی مرحوم کی یہ رائے صائب معلوم ہوتی ہے کہ ؎
ہم ایسی کُل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
جنہیں پڑھ کے بیٹے باب کو خبطی سمجھتے ہیں
(حامد ریاض ڈوگر)