حاجی لق لق، جن کا اصل نام عطا محمد تھا، 1898ء میں مشرقی پنجاب کے قصبے میٹی میں پیدا ہوئے۔ زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے1919ء میں فوج میں شامل ہوئے اور مشرق وسطیٰ کا سفر کیا، جہاں کے مشاہدات اور تجربات نے ان کی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا۔ 1933ء میں وطن واپسی پر وہ صحافت سے وابستہ ہوئے اور ”ابوالاعلیٰ چشتی“ کے قلمی نام سے رسالہ ”زمیندار“ کے لیے لکھنے لگے۔ لیکن یہ 1934ء میں ”حاجی لق لق“ کے نام سے ان کی مزاحیہ شاعری اور نثر کی دنیا میں آمد تھی جس نے انہیں ہمیشہ کے لیے اردو ادب میں زندہ کردیا۔
ان کی ایک تصنیف ”ادبِ کثیف“ ان کی ذہانت اور طنز و مزاح کا شاہکار ہے۔ وہ اپنے انوکھے خیالات کے ذریعے قاری کو حیران بھی کرتے ہیں اور ہنساتے بھی ہیں۔
حاجی لق لق کے مطابق ”ادب لطیف“ شاید کسی عبداللطیف کا کام ہو، لیکن ان کے نزدیک لطافت اور کثافت کا امتزاج ضروری ہے۔ ایک رات مرزا غالب نے ان کے خواب میں آکر فرمایا:
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینہ باد بہاری کا
یہ وہ محرک تھا جس نے حاجی لق لق کو ”ادبِ کثیف“ کا سنگِ بنیاد رکھنے پر آمادہ کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”ادبِ کثیف کے بغیر ادبِ لطیف کیا معنی؟“ اور پھر انہوں نے ”ادبِ لطیف“ کے تخلیق کاروں کو للکارا: ”ادب کثیف میں ہے کوئی ان سا، ان سا ہو تو سامنے آئے“۔
وہ لکھتے ہیں کہ
کثیف ادب کا ہوں موجد، میرا ہے لق لق نام
ادیب مجھ کو ”کثافت مآب“ کہتے ہیں
حاجی لق لق کی حسِ مزاح، اور زندگی کے مسائل کو تخلیقی انداز میں بیان کرنے کی مہارت ان کے الفاظ میں جھلکتی ہے۔ اس زمانے میں بھی وہ مصنف اور پبلشر کے تعلقات پر ایسی دلچسپ روشنی ڈالتے ہیں کہ قاری مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان کے نزدیک کتابت اور طباعت کے تکلفات اور معاملات اکثر جھگڑے کا باعث بنتے ہیں، اور اس جھگڑے میں ہمیشہ پبلشر جیت جاتا ہے۔
شب بیداری کا ذکر کرتے ہوئے وہ اپنی راتوں کے ساتھیوں یعنی مچھر اور اُلّو کا ذکر کرتے ہیں، جو نہ خود سوتے ہیں اور نہ انہیں سونے دیتے ہیں:
آہ! مچھر کے نیند شکن نغمے
وہ موسیقار
زاہدِ شب بیدار ہے
وہ حقیقت کی آنکھیں رکھتا ہے
ورنہ اندھیرے میں، گھٹا ٹوپ اندھیرے میں
میرے کان کیسے ڈھونڈتا
ان کی شگفتگی اُس وقت اور بھی نکھر جاتی ہے جب وہ اپنی ”جان“ کو دعوتِ شیراز پر مدعو کرتے ہیں، جہاں مینو میں آرزوؤں کا قیمہ، تمناؤں کا قورمہ، حسرتوں کا شوربہ، اور التجاؤں کی چٹنی پیش کرنے کا عندیہ دیتے ہیں۔ یہ فقرے ان کے تخلیقی اور مزاحیہ انداز کے عکاس ہیں، جو ان کے ادبِ کثیف کی اصل روح کو بیان کرتے ہیں۔
پھولوں کی بات کریں تو محبوب کے گل رخسار کا ذکر کرتے ہوئے وہ گلقند بنانے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ یہ خواہش بظاہر مزاحیہ ہے، لیکن ان کے منفرد عنوان ”ادبِ کثیف“ کی چغلی بھی کھاتی ہے۔
ایک فوجی پس منظر رکھنے والا یہ مزاح نگار عشق کو بھی جنگی استعاروں میں بیان کرنے سے نہیں چوکتا۔ وہ لکھتے ہیں:
”آؤ میرے دل کی خندقوں میں، میرے جگر کے تہہ خانوں میں، یہاں غنیم کا ڈر نہیں۔ میدانِ جنگ سے دور، آؤ میری آنکھوں کے ریسٹ کیمپ میں“۔؎
یہ بیان مزاحیہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی جذباتی پیچیدگی اور تخلیقی بصیرت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
پجاری پریم کا ہوں اور تمہاری نگری کو
میں سومناتھ کا مندر سمجھ کر آیا ہوں
وہ بطور صحافی اُس زمانے کی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اُس زمانے میں خدائی خدمت گار آزادیِ ہند کی ایک تحریک جو عدم تشدد کے فلسفے پر برطانوی راج کے خلاف صوبہ خیبر پختون خوا کے پشتون قبائل نے شروع کی تھی۔ اس تحریک کی سربراہی خان عبدالغفار خان نے کی جو مقامی طور پر باچا خان یا بادشاہ خان کے نام سے معروف تھے۔ بنیادی طور پر یہ تحریک پشتون علاقوں میں سماجی و فلاحی کاموں کے لیے ترتیب دی گئی تھی جس کا مقصد تعلیم کے متعلق شعور اور خوں ریزی کے خلاف بیداری پیدا کرنا تھا۔
اس تناظر میں حاجی لق لق نے 1938ء میں انجمن حمایت اسلام کی گولڈن جوبلی کی تقریب میں ایک نظم پڑھی، جس کا ایک بند مصنف اس کتاب میں شامل کرتے ہیں:
”چھڑی نے مسلمان کی تلوار چھینی
ادھر ہیٹ نے اس کی دستار چھینی
بڑی چیز چھینی جو اس بار چھینی
کہ دھوتی نے آغا کی شلوار چھینی
میں تو صوبہ سرحد کے پٹھان کی شلوار چھن جانے ہی کو بڑی چیز سمجھتا تھا، لیکن کیا معلوم تھا کہ اس سے بھی بڑی بڑی چیزیں چھن جانے والی ہیں۔ آج کے اخبارات میں خبر شائع ہوئی تھی کہ خدائی خدمت گاروں کا ایک گروہ میراں بہن سے چرخہ چلانا سیکھنے اتمانزئی روانہ ہو گیا ہے اور مجھے اپنی نظم میں ایک بند بڑھانا پڑے گا جس کا ایک مصرع یہ ہوگا:
کہ میراں نے آغا کا پستول چھینا
معلوم ہوا ہے کہ خدائی خدمت گاروں کا ”چرخہ کورس ایک ماہ میں ختم ہوگا، اور جب وہ امتحان پاس کرکے واپس جائیں گے تو تحصیل پشاور میں چرخہ کاٹنے کا مرکز قائم کریں گے۔ وہ منظر بھی کیا ہی شاندار ہوگا کہ آغا صاحبان اپنی اپنی شرعی داڑھیوں کے ساتھ رنگ رنگیلے چرخے کات رہے ہوں گے اور ساتھ ساتھ ”زلفے بہ زلفے“ کی دھن پر آہستہ آہستہ یہ گائیں گے۔
کت چرخہ شام منائے گا
خواس کھیڈن سے پچھتائے گا“
”ادبِ کثیف“ نہ صرف انیسویں صدی کے طنز و مزاح کا ایک مرقع ہے بلکہ یہ کتاب اُس زمانے کی انسانی زندگی کے پیچیدہ رویوں، سیاسی اور سماجی مسائل پر گہری روشنی ڈالتی ہے، اور حاجی لق لق کی شگفتہ طبیعت، برجستہ زبان، اور انسانی جذبات کی بھرپور عکاس بھی ہے۔ ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے قاری نہ صرف مسکراتا ہے بلکہ انسانی رویوں اور معاشرتی تضادات پر غور کرنے پر بھی مجبور ہوتا ہے۔ حاجی لق لق کا یہ کارنامہ اردو ادب میں ایک اضافہ ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ زبان اور انداز میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ اس لیے آج کے قاری کو حاجی لق لق کی تحریروں کو سمجھنے میں کچھ دشواری ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بیسویں صدی نے بڑے بڑے قد آور مزاح نگار پیدا کیے جنھوں نے اردو مزاحیہ نثر اور شاعری کو جدت بخشی۔ اس لیے فی زمانہ حاجی لق لق کی تحریریں اتنی مشہور نہیں رہیں جتنی پہلے تھیں۔
مجموعی طور پر میں یہ کہوں گا کہ حاجی لق لق کی تحریریں ہمارے ادبی ورثے کا ایک اہم حصہ ہیں اور اس کتاب کو پڑھنے کا صحیح لطف اُس وقت آئے گا جب اسے اُن کے دور کے تناظر میں رکھ کر پڑھا جائے۔
ان کی مزید تصانیف :
”حاجی لق لق کے افسانے“، ”پروازِ لق لق“، ”درانتی“،”القلق“، ”منقارِ لق لق“۔
یہ نایاب کتاب مجھے محترم محمد زبیر صاحب نے پی ڈی ایف کی شکل میں ارسال کی۔ زبیر صاحب، شرف آباد کراچی میں واقع ایک قدیم مشہور و معروف ”بیدل لائبریری“ کے لائبریرین ہیں۔ میں تہہ دل سے ان کا ممنون و مشکور ہوں۔