میڈیا میں لوگوں کو جس طرح سے سیاسی طور پر گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس نے رسمی میڈیا کی اہمیت کو کم کرکے ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت بڑھا دی ہے۔
پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ یہاں کے طاقت کے مراکز کا کنٹرول ان کے اپنے ہاتھ میں ہے، وہ جب چاہیں اس ریاستی اور حکومتی نظام کو اپنے ریموٹ کنٹرول سے چلا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج قومی سیاست میں عوام کی حکمرانی یا ان کے حقِ حکمرانی کا پہلو کمزور ہوگیا ہے، ریاست طاقت کے ذریعے لوگوں سے نمٹنا چاہتی ہے جبکہ لوگ اپنی چھوٹی بڑی مزاحمتوں کے ساتھ اس نظام کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ ان کا گلہ کسی ایک سیاسی جماعت یا سیاسی قیادت سے نہیں ہے، اور نہ ہی وہ کسی ریاستی ادارے پر اپنا غصہ نکال رہے ہیں، بلکہ ان کو تو لگتا ہے کہ مجموعی طور پر ہمارا ریاستی اور حکومتی نظام اپنی اہمیت کھو چکا ہے اور اس کی ساکھ پر کئی طرح کے سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے ہیں۔
ہمارا بحران صرف حکومتی بحران نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ریاستی بحران کی نشاندہی کرتا ہے جہاں طاقت کے مراکز ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں، اور بداعتمادی کے اس ماحول میں ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے مرض کی صحیح تشخیص نہیں کر پا رہے اور مرض کو معمولی نوعیت کا مسئلہ سمجھ کر نظرانداز کرنے کی کوشش کررہے ہیں، یا پھر ردعمل کے سیاست میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں -کہ ایک دوسرے کے وجود سے بھی انکاری ہیں اور اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
یہ جو اداروں پر قبضوں کی جنگ ہے اس میں آئین اور قانون کی حکمرانی مذاق بن گئی ہے، ہر کوئی سمجھتا ہے کہ وہی ملک چلانے کا مستحق ہے۔
سیاست، جمہوریت، معیشت، سیکورٹی اور گورننس کے بحران نے سیاسی طور پر ہمیں تنہا کردیا ہے۔
داخلی اور خارجی معاملات میں سنگین نوعیت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور ہم ان مسائل کو نظرانداز کرکے اپنی ریاستی ترجیحات میں بگاڑ پیدا کرنے کے ذمہ دار بن گئے ہیں۔
جب ہر ادارہ ایک دوسرے کی حدود سے باہر نکال کر کام کرے گا تو ریاست کا نظام کیسے چل سکے گا؟ اور لوگ اگر ہم پر انگلیاں نہ اٹھائیں تو کیا کریں؟
اس پورے کھیل کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ پاکستان اپنی درست سمت سے دور ہوچکا ہے۔ عام آدمی کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے۔ لوگوں کو پریشانی ہے کہ یہ ریاستی اور حکومتی نظام اب کیسے چل سکے گا، اور کیا ہم ایک اچھی حکمرانی کے خواب کی تکمیل کو ممکن بنا سکیں گے؟ اس وقت بنیادی اور اہم مسئلہ لوگوں کے اعتماد کی بحالی کا ہے جس کے بغیر پاکستان ایک مضبوط ریاست کے طور پر سامنے نہیں آسکے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس بحران کے سامنے بند کون باندھ سکے گا؟ کیونکہ طاقتور اشرافیہ نے جس طرح سے ملک پر قبضہ کیا ہوا ہے اور عوامی مفادات کو پامال کرکے اپنے مفادات تک خود کو محدود کرلیا ہے ایسے میں ہمارا بحران مزید سنگین ہوگیا ہے۔ ریاستی نظام بھول رہا ہے کہ یہ 1970ء کا پاکستان نہیں بلکہ 2025ء کا پاکستان ہے جہاں بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے اور بہت کچھ تبدیل ہونے جارہا ہے۔ یہ مسئلہ روایتی طور طریقوں سے حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے غیر روایتی اور سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہوگی۔ اس کام کے لیے ایک مؤثر اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے، جس کے تحت لوگ مل بیٹھ کر مسئلے کی اہمیت کو تسلیم کریں اور اس کا حل تلاش کریں۔ لیکن یہ جو سیاسی تعطل ہے اس نے آگے بڑھنے کے امکانات کو محدود کر دیا ہے۔
پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کا کھیل بتدریج کمزور ہورہا ہے، اور صرف سیاست اور جمہوریت ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کا مقدمہ، آزادیِ اظہارِ رائے اور قانون کی حکمرانی کا پہلو بھی کئی طرح کی کمزوریاں دکھا رہا ہے۔ میڈیا کو یک طرفہ بناکر لوگوں کو سیاسی طور پر گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ہماری قومی سیاست شخصیات کے گرد کھڑی ہے اور ہم شخصی ٹکراؤ میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم پر افراد کی بالادستی ہوگئی ہے اور ہم اپنے قومی مسائل کے حل سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
نوازشریف ہوں یا آصف علی زرداری.. بلاول بھٹو ہوں یا شہبازشریف.. عمران خان ہوں یا پھر مولانا فضل الرحمٰن.. یہ قومی مسائل نہیں ہیں، بلکہ ان کے بجائے ہمیں جو داخلی اور خارجی چیلنج درپیش ہیں ان پر توجہ درکار ہے۔ مشاورت سے قومی معاملات کا حل تلاش کرنا اس وقت کی ناگزیر ضرورت ہے، لیکن بدقسمتی سے مافیاز پر مبنی حکمرانی نے سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کی عوامی سطح پر اہمیت کو کم کیا ہے، اور لوگ ان شخصیات اور ان کے کردار سے نالاں ہیں۔ اس لیے جب تک سیاسی جماعتیں خود بھی اپنی سیاست کو اعتماد کی بحالی سے نہیں جوڑیں گی، لوگ ان پر اعتماد نہیں کریں گے۔ مضبوط سیاسی نظام میں ہمیشہ سیاسی جماعتوں کی اہمیت رہی ہے، مگر اب کنٹرولڈ سیاسی نظام نے سیاسی جماعتوں کو یرغمال بناکر رکھ دیا ہے، اور سیاسی جماعتیں عوام کی طرف دیکھنے کے بجائے طاقت کے مراکز کی طرف دیکھتی ہیں۔ اسی المیے نے پاکستان میں جمہوریت کا مقدمہ کمزور کیا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ جو جمہوریت اس ملک میں چل رہی ہے وہ ہمارے مسائل کا حل نہیں ہوسکتی۔
میڈیا میں لوگوں کو جس طرح سے سیاسی طور پر گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس نے رسمی میڈیا کی اہمیت کو کم کرکے ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی نظام ہو یا حکومتی نظام.. اس کے لیے سب سے بڑا خطرہ ڈیجیٹل میڈیا بن گیا ہے۔ اب حکومتی اور ریاستی ترجیحات میں اس ڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے اور جہاں طاقت کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کیا جارہا ہے، لوگوں میں غصہ ہے کہ ریاست اور حکومت کا نظام ان کی آوازوں کو سننے کے لیے تیار نہیں ہے اور وہ صرف طاقت کا استعمال کرنا جانتے ہیں۔ آج کی دنیا ایک گلوبل دنیا ہے جہاں ایک دوسرے سے کٹ کر نہیں جی سکتے۔ ہمیں جدید تصورات کی بنیاد پر نئے نظاموں کا ماڈل تلاش کرنا ہے جو حقیقی طور پر ہمارے پہلے سے موجود مسائل کا حل تلاش کرسکیں۔
شفاف حکمرانی کے لیے سب سے پہلے لوگوں کے حقِ حکمرانی کے اصول کو اختیار کرنا ہوگا، اور یہ حق لوگوں کو دینا ہوگا کہ وہ اپنے حکمران کا فیصلہ خود کرسکیں۔ لیکن اگر اس کے برعکس کرکے، لوگوں کو نظرانداز کرکے ان پر کوئی بھی نظام مسلط کیا جائے گا اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ اس وقت لوگ ملک میں اپنے مستقبل سے مایوس نظر آتے ہیں اور باہر جانے کا راستہ تلاش کررہے ہیں۔ لیکن یہ بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ مسئلے کا حل پاکستان کے داخلی معاملات کی درست تشخیص اور اس کا حل ہے، اور یہ ایک ایسا پائیدار حل ہونا چاہیے جو لوگوں کے درمیان ریاست کے باہمی تعلق کو مضبوط بنا سکے۔ لیکن اس کے لیے روایتی طرز ِحکمرانی کے نظام سے باہر نکلنا ہوگا اور ایک ایسا ماڈل اختیار کرنا ہوگا جس کی قبولیت معاشرے میں یکساں ہو۔
یہ اس لیے ضروری ہے کہ آج ہم گوناگوں مسائل میں پھنس چکے ہیں، اس سے باہر نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اداروں کی بالادستی، آئین اور قانون کی حکمرانی، مضبوط معیشت اور مضبوط سیکورٹی نظام سمیت محروم طبقوں کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنایا جائے، وگرنہ لوگوں میں اس نظام کے بارے میں جو مایوسی اور لاتعلقی بڑھ رہی ہے وہ تیزی سے نہ صرف ریاست کے نظام کو کمزور کررہی ہے بلکہ لوگوں کا باہمی تعلق بھی بگڑ رہا ہے۔ ریاست کو ایک بات بنیادی طور پر سمجھنی ہوگی کہ غیر معمولی حالات کا حل بھی غیر معمولی اقدامات سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن اس کے لیے سب سے پہلے اپنے خول سے باہر نکلنا ہوگا اور ایک دوسرے کی آوازوں کو سننا ہوگا، لوگوں کو دیوار سے لگانے کی پالیسی غیر جمہوری نظاموں میں ہوتی ہے جبکہ جمہوری نظام ریاستی نظام کی مدد کے ساتھ شہریوں سے برابری کے سلوک اور ان کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔
شہریوں کے مقابلے میں طاقتور طبقے کی حکمرانی ہے اور ایک طبقاتی قسم کا سیاسی، انتظامی، قانونی اور معاشی نظام ہم پر مسلط ہے۔ ایک مؤثر اور مضبوط نظام کے لیے قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جو سب کو جوڑ کر ایک متبادل حل کی طرف لے جاسکے۔ یہ کام کوئی سیاسی جماعت تنہا نہیں کرسکتی، بلکہ اس کے لیے ساری سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ایک ایسا لائحہ عمل دینا ہوگا جو معاشرے میں لوگوں کو ریاستی نظام کے ساتھ جوڑ سکے۔ اسی طرز کی ریاستیں آج کے دور میں جدید تصورات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ ہمیں بھی اجتماعی طور پر اسی راستے کو اختیار کرنا ہے۔یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ اگر ہم اپنی سمت درست کرلیں تو بہت سے مسئلے ہم خود -حل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
پاکستانی ریاست اور حکومت یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ان کا موجودہ نظام اب نہیں چل سکے گا۔ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں، ایک ایسی تبدیلی جو اُن کے بنیادی مسائل کا حل سامنے لا سکے اور انہیں لگے کہ ریاست اور حکومت عوامی مفادات کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے، اور آئین اور قانون کی حکمرانی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اسی طرح یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنا کر ہی ہم دنیا میں اپنی جمہوریت کے اعلیٰ معیارات قائم کرسکتے ہیں، وگرنہ جمہوریت اور سیاست کا یہ کھیل ملک میں ایک تماشے کے طور پر موجود رہے گا اور عوام اس میں غیر اہم ہوں گے۔
کوئی بھی نظام عوام کی مدد کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا، اور اس سے محض حکمرانی کے مسائل پیدا نہیں ہوتے بلکہ ریاستی مفادات کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور ریاست ان مشکلات کی وجہ سے کمزوری کا شکار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باہر کی دنیا میں ہم پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں، اور ہم ان سوالات کا جواب دینے کے بجائے جذباتی راستہ اختیار کرکے عالمی برادری پر لعن طعن کرتے ہیں جس سے ہمارا جمہوری مقدمہ مزید کمزور ہوجاتا ہے۔