کیا مذاکرات کا تجربہ کار سیاست دان با اختیار ہیں؟
اسلام آباد میں حکومت اور تحریک انصاف میں مذاکرات کی میز بچھی ہوئی ہے۔ ان مذاکرات کے دو منظر ہیں، ایک سامنے ہے اور دوسرا منظر آنکھوں سے اوجھل ہے۔ جو منظر آنکھوں سے اوجھل ہے سب کچھ وہیں چل رہا ہے اور سب کچھ وہیں طے ہورہا ہے، لہٰذا مذاکرات کا سامنے والا منظر کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ مذاکرات کی اصل خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے تحریکِ انصاف کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس جانب وہ نہایت اہم پیش رفت کرنے جارہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) یہ چاہتی ہے کہ ’’وکٹم کارڈ‘‘ یعنی مظلومیت کی سیاست ختم ہوجانی چاہیے، اس کی جگہ پرفارمنس کی سیاست ہونی چاہیے، کیونکہ ماضی میں بھی کبھی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اب بھی فائدہ نہیں ہورہا۔ اپنی اس سوچ کے باعث مسلم لیگ(ن) خود ہی ملک میں نئے انتخابات کے لیے تیار نظر آرہی ہے، اس کی خواہش ہے کہ جسے عوام منتخب کریں اُسے آئینی مدت پوری کرنے کا پورا اور محفوظ موقع ملنا چاہیے۔ لہٰذا آگے چل کر حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات یقینی طور پر ان خطوط پر شروع ہوجائیں گے، اور اب تک مذاکرات میں جو رکاوٹیں نظر آرہی ہیں وہ سب ختم ہوجائیں گی۔ تحریک انصاف کی ٹیم کو عمران خان کے سامنے یہ نکتہ رکھنے کا موقع دیا جارہا ہے تاکہ وہ اس کی منظوری حاصل کرے، اور پھر مذاکرات برائے مذاکرات کے بجائے ایشوز پر بات چیت شروع ہوجائے۔ امکان یہی ہے کہ مذاکرات برائے مذاکرات کی کہانی ختم ہوجائے گی اور ایشوز پر بات چیت کا در کھل جائے گا۔ فرض کریں اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر جو جہاں ہے وہیں رہے گا، اور سیاست آگے چلتی رہے گی۔ حالیہ مذاکرات کے عمل میں شریک ہر شخصیت یہ چاہتی ہے کہ ملک میں معیشت کی بحالی کے لیے سب ایک چھت کے نیچے آجائیں۔ پارلیمنٹ میں دیگر سیاسی جماعتوں کے راہنما بھی اس عمل میں شامل ہیں اور باقاعدہ مذاکرات کا حصہ ہیں۔
ڈھائی ہفتے کا وقت گزر چکا ہے، مذاکرات کے اب تک صرف دو ہی دور ہوئے ہیں۔ تلخیاں ابھی تک باقی ہیں، دونوں جانب باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔ عدم اعتماد میں کچھ کچھ حصہ سوشل میڈیا بھی ڈال رہا ہے۔ ’’سوشل میڈیا بریگیڈ‘‘ نہیں چاہتا کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں، اُس کا فائدہ اسی میں ہے کہ سیاسی کشمکش جاری رہے۔ اس بریگیڈ کی نظر صرف پیسوں پر ہے۔
تحریک انصاف اور حکومت کے مذاکرات کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی کا کردار بہت اہم بن گیا ہے، حالانکہ پارلیمانی کردار دیکھا جائے تو اسپیکر ہمیشہ غیر جانب دار ہی سمجھا جاتا ہے اور اُسے حکومت یا اپوزیشن میں سے کسی ایک جانب جھکا ہوا نظر نہیں آنا چاہیے، اُس کے لیے دونوں فریق برابر ہیں۔ لیکن اب اسپیکر سردار ایاز صادق نے خود ہی مذاکرات کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ لی ہے تو اُن کی ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ کسی فریق کو رسّی تڑواکر مذاکرات سے باہر نہ نکلنے دیں۔ یہ نہایت مشکل ٹاسک ہے جو انہوں نے اپنے ذمے لیا ہے۔ اگر مذاکرات کامیاب ہوگئے تو سردار ایاز صادق ہماری سیاسی تاریخ میں ایک بڑا نام بن کر سامنے آئیں گے۔
مذاکرات کے حوالے سے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھے سب لوگ اگرچہ بڑے تجربہ کار ہیں لیکن ان میں کوئی ایک بھی بااختیار نہیں ہے۔ یوں کسی بڑی کامیابی کا مل جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔ ان مذاکرات کی کامیابی کی کنجی تحریک انصاف کی لیڈرشپ کے ہاتھ میں ہے، اور عمران خان کی کنجی محترمہ بشریٰ بی بی کے ہاتھ میں ہے۔ 26 نومبر کے بعد پارٹی میں بشریٰ بی بی اب کلیدی کردار بن گئی ہیں۔ اس وقت سیاست ہو یا عمران خان کے مقدمات… دونوں محاذوں پر اُن کا فیصلہ اور سکہ ہی چلتا ہے۔
ابھی تک مذاکرات کے دو ہی دور ہوئے ہیں، یہ اُس وقت آگے بڑھیں گے جب تحریک انصاف کی جانب سے تحریری مطالبات مذاکرات کی میز پر رکھے جائیں گے۔ ابھی تک یہ کام نہیں ہوا، اس کام کے ہونے یا نہ ہونے سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ تحریری مطالبات سامنے لانے سے قبل ضروری یقین دہانیاں حاصل کرلی جائیں، جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ بات اُس وقت آگے بڑھائی جائے جب تحریری مطالبات سامنے آجائیں۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ تحریری مطالبات پیش نہ کیے گئے تو مذاکراتی عمل میں مشکل پیش آسکتی ہے۔ تحریک انصاف نے یہ وعدہ کررکھا ہے کہ وہ مطالبات باضابطہ تحریری شکل میں دے گی۔ اگر یہ کام نہ ہوا تو مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ تحریک انصاف اتنی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود بنیادی مسئلہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس کے راہنما جانتے ہیں کہ اُن کی مشکلات کی اصل وجہ کیا ہے، لیکن پارٹی کو ایک ایسے طبقے نے ہائی جیک کیا ہوا ہے جو جذبات، غصہ اور نفرت کی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ 9 مئی کے واقعات میں فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے جن مجرموں کو معافی ملی اور اُنہیں فوج نے رہا کیا، اُن میں سے کچھ کو ہیرو بناکر پیش کیا گیا۔ محسوس ایسا ہورہا ہے کہ تحریک انصاف فوج مخالف سوچ سے باہر نہیں نکلنا چاہ رہی۔ ایسے طفلانہ اور نفرت انگیز طرزعمل سے مشکل سے شروع ہونے والے مذاکراتی عمل پر منفی اثرات پڑیں گے اور تحریک انصاف کی اپنی مشکلات اور تکلیفیں بڑھ جائیں گی۔ حکومت فی الحال تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کو مکمل سپورٹ کررہی ہے اور اس کمیٹی کی عمران خان کے ساتھ ملاقات بھی کرائی جارہی ہے۔
تحریک انصاف نے 23 دسمبر کو ہونے والے پہلے اجلاس میں اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا اور مشترکہ اعلامیے میں بھی اس کا ذکر کیا گیا تھا، تاہم 2 جنوری کو ہونے والی ملاقات میں مطالبات پیش نہیں کیے گئے۔ تحریک انصاف نے عمران خان سے مشاورت کرنے اور چارٹر آف ڈیمانڈ کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اور موقع مانگا جو حکومت نے قبول کرلیا، تاہم اگر تیسرے اجلاس میں بھی تحریری چارٹر آف ڈیمانڈ پیش نہیں کیا گیا تو مذاکراتی عمل کو بریک لگ سکتا ہے۔ تحریک انصاف نے مذاکرات کے دونوں ادوار میں ایک ہی بات کہی ہے کہ عمران خان کو رہا کیا جائے اور انہیں سیاسی قیدی تسلیم کیا جائے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ سیاسی قیدی نہیں ہیں، عدالت کو مطمئن کرلیں تو ان کی رہائی عدالت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
ابھی تک مذاکرات کی میز پر جو گفتگو ہوئی ہے اس کا مرکزی نکتہ یہی رہا کہ عمران خان اور دیگر قیدیوں کو رہا کیا جائے، اور 9 مئی کے علاوہ 26 نومبر کے واقعے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔ تحریک انصاف نے اپنے 45 لاپتا افراد کا سراغ لگانے کا بھی مطالبہ کیا ہے، تاہم ان 45 افراد کے نام، پتے اور شناخت نہیں بتائی گئی۔ جواب میں حکومت نے اب تک کوئی مطالبہ نہیں کیا، نہ ہی سول نافرمانی کی کال واپس لینے کے لیے کہا ہے۔ یہ فیصلہ حکومت نے تحریک انصاف پر ہی چھوڑ رکھا ہے۔ اور حکومت یا کسی ادارے نے عمران خان کو اڈیالہ جیل سے بنی گالہ یا کسی اور جگہ منتقل کرنے کی کوئی پیش کش نہیں کی ہے۔
اب تک کی حتمی بات یہ ہے کہ مذاکرات کے تیسرے دور کی تاریخ پی ٹی آئی دے گی۔اسے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مذاکرات میں صرف اس کا ہی بھلا ہے، اگر یہ کامیاب نہ ہوئے تو نقصان تحریک انصاف ہی کا ہوگا۔ اسے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سورج کی اُٹھان سے تمازت کا اندازہ لگا لینے والے ہی وقت پر سر ڈھانپ لیتے ہیں۔ آتش فشاں کے پھٹنے سے پہلے زمین کی بے چینی کا اندازہ لگا لینے میں ہی عافیت ہے۔ اگر تحریک انصاف کی قیادت کھیل کو نہ سمجھی تو اسے سیاسی شہ مات ہونے کا وسیع امکان ہے۔ اگر مذاکراتی عمل میں شریک پیادے کوئی چال چلنے میں ناکام رہے، اگر انہوں نے وقت پر ایک ٹانکا نہ لگایا تو پھر انہیں ایک کے بجائے نو ٹانکے لگانا پڑیں گے۔ اُس وقت تک کھیل ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔
یہ جاننا تحریک انصاف کے لیے بہت اہم ہوگا کہ فی الحال جنوبی ایشیا امریکہ کے لیے بظاہر غیر اہم ہے کیونکہ افغانستان امریکہ کی ترجیح نہیں ہے، تاہم نئی انتظامیہ کے تیور اور اشاروں کی زبان سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مستقبل میں اس کی ترجیح کیا ہوگی۔ عمران خان کی حمایت میں آواز اٹھانے والے رچرڈ گرینل کا اصل نشانہ کہیں آئی ایم ایف پروگرام اور میزائل پروگرام تو نہیں جو طویل عرصے سے امریکہ کی دکھتی رگ ہے؟ ٹرمپ انتظامیہ کیا واقعی عمران خان کی رہائی میں دلچسپی رکھتی ہے یا عمران خان کی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں تقسیم کے ایجنڈے سے اندرونی طور پر پاکستان کو کمزور چاہتی ہے؟ یہ صورتِ حال حکومت، عمران خان اور مقتدرہ کے لیے بھی امتحان ہے۔ گرینل محض ’بھونپو‘ ہیں، مگر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹرمپ کی نامزد کابینہ کے اہم اراکین سخت چین مخالف ہیں۔ نئے نامزد کردہ خارجہ سیکریٹری مارکو روبیو نہ صرف چین اور پاکستان مخالف ہیں بلکہ وہ انڈیا نواز بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ اس سے بھی بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ سال پاکستان کو کسی ایک ’بلاک‘ میں جانے پر مجبور کیا جائے گا؟کیا پاکستان “absolutely not” کی پالیسی پر عمل درآمد کرے گا؟ دیکھتے ہیں وقت اور حالات کس کو کس طرف کھڑا کرتے ہیں، فی الحال بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مذاکرات نے ملک کے سیاسی درجہ حرارت کو کم کردیا ہے اور اپوزیشن کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی دھمکی پر عمل درآمد کو روک دیا ہے۔
2024ء میں حکومت اور اپوزیشن کے شدید تصادم کے دوران حکمران اتحاد دباؤ میں رہا، لیکن تحریک انصاف بھی مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ درحقیقت پچھلے کئی مہینوں میں نہ تو حکومت اور نہ ہی اپوزیشن نے اس محاذ آرائی میں کوئی فیصلہ کن بالادستی حاصل کی۔ اس تعطل نے دونوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کیا ہے۔ اگر سیاسی استحکام حاصل ہوجائے تو یہ اس معیشت کو سنبھالنے کی کوششوں پر مثبت اثر ڈالے گا جو ابھی تک مسائل سے باہر نہیں نکلی۔ یہ سچ ہے کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پروگرام نے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کو ٹالنے میں مدد کی ہے اور ایک مستحکم عنصر کے طور پر کام کیا ہے۔ حکومت نے ستمبر میں آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا جس کے لیے مالیاتی نظم و ضبط، سبسڈیز کی حد بندی اور ٹیکس اور کفایت شعاری کے اقدامات جیسی کئی شرائط پوری کرنا پڑگئیں۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ان مذاکرات میں معاشی اصلاحات پر بھی اتفاقِ رائے پیدا ہوجائے، جو ابھی تک ایجنڈے میں شامل نہیں ہے، تو اس سے مارکیٹ اور سرمایہ کاروں کے لیے بہت مثبت پیغام جائے گا۔ مذاکرات میں پیش رفت کے لیے فریقین کو لچک پیدا کرنا ہوگی اور ایک دوسرے کو جگہ دینی ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ جو سیاسی کھیل میں شامل رہی ہے، اسے بھی مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، اعتماد سازی کے لیے حکومت کو اپنے جابرانہ اقدامات ختم کرنے ہوں گے اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف غیر سنجیدہ مقدمات واپس لینے ہوں گے، قابلِ ضمانت ’جرائم‘ میں قید افراد کو رہا کرنا ہو گا۔دوسری جانب پی ٹی آئی کو اپنی اشتعال انگیز احتجاجی سیاست کو معطل کرنا ہوگا اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر خلل ڈالنے والے طرزِ عمل سے گریز کرنا ہوگا،اسے اپنی لڑائی سڑکوں پر لڑنے کے بجائے پارلیمنٹ میں لڑنے کا عزم کرنا چاہیے۔ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ کو احتجاجی ریلیوں کی قیادت کرنے کے بجائے اپنے صوبے میں اچھی حکمرانی پر توجہ دینی چاہیے۔ اتحادی حکومت جس منصوبے کو نافذ کرنے کی کوشش کررہی ہے وہ ظلم، جبر، ریاستی طاقت اور آئینی اداروں کے بڑے پیمانے پر استعمال کا پرانا طریقہ ہے۔اس کا مقصد سیاسی کارکنوں، سرگرم کارکنوں اور پارٹی کے کچھ رہنماؤں کو تنگ کرنا، دھمکانا، قید کرنا ہے۔سب سے واضح معاملہ عمران خان اور ان کی اہلیہ کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر اہم راہنماؤں کا ہے جن کے خلاف کسی بھی عدالت سے ضمانت ملنے پر باقاعدگی سے نئے مقدمات دائر کیے جاتے ہیں۔
تحریک انصاف کی سیاست اور ملک میں سیاسی بحران سے ہٹ کر جو منظرنامہ ہے اس پر بھی بات ہونا نہایت اہم اور ضروری ہے۔ ایک شور اٹھا ہے کہ پاکستان نے واخان پٹی پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہ محض شور ہے، اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ تاہم مستقبل میں اس علاقے میں ایک بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان کی جانب سے ٹھنڈی ہوا آئے، اگر وہاں سے تشدد اور حملے ختم نہ ہوئے تو پاکستان متبادل حلیف بھی تلاش کرسکتا ہے جو تاجک اور ازبک بھی ہوسکتے ہیں، اور روس کے علاوہ تاجکستان اور چین بھی متحرک کیے جاسکتے ہیں۔ اگر کابل حکومت کی سوچ تبدیل نہ ہوئی تو پاکستان تاجکستان، روس اور چین کے ساتھ مل کر کوئی بڑا فیصلہ کرسکتا ہے۔ اس بڑے فیصلے کے بعد اس خطے کا نقشہ بھی بدل جائے گا۔
ایک خبر اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ کابل کی جانب سے مسلسل حملوں کے بعد مسلم لیگ(ن) کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانا پڑ سکتی ہے، بلکہ وہ اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کو تیار ہے، کیونکہ مسلم لیگ(ن) مستقبل میں کسی بڑے تنازع میں نہیں پڑنا چاہتی۔