جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کے سیکرٹری جنرل سید نذیر گیلانی سے خصوصی بات چیت
5 اگست 2019ء کشمیر کی شناخت اور تاریخ کے لیے ایسا بھونچال تھا جس کے آفٹر شاکس اب مدتوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ جب بھی بھارت اس فیصلے کی آڑ میں اپنے کسی بھی دیرینہ خواب کی تعبیر تلاش کرنے کے لیے کوئی نیا قدم اُٹھائے گا، یہ زخم تازہ ہوگا اور اس کی کسک بھی شدت سے محسوس کی جاتی رہے گی۔
کشمیر کی صدیوں پر محیط تاریخ اور اس کے 72 سال سے چلے آنے والے متنازع اسٹیٹس کو بیک جنبش ِقلم ایک قانون کے ذریعے ختم کردیا گیا اور کشمیری حیران وششدر اپنی شناخت کے ڈوبتے سورج کا منظر دیکھتے رہ گئے۔ اب کشمیریوں کی جانیں ہی نہیں اُن کے مال اور جائدادیں سب کچھ دہلی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس راہ کی تمام قانونی اور آئینی رکاوٹیں اور بندشیں پانچ اگست کو دریائے جہلم میں بہہ گئی ہیں۔ اس سے کشمیریوں کا پُرصعوبت سفر مزید طویل ہوکر رہ گیا ہے۔ اب کشمیریوں کو نئے سرے سے نئے حالات کے مطابق اپنی جدوجہد کے خدوخال اور نئے سنگِ میل تراشنا ہیں۔ پرانے مقدمے کے لیے نئے دلائل تلاش کرنا اور نئے انداز اپنانا ہیں۔
کشمیر کے حوالے سے جہاں مایوسی کے سائے چہار سو لہراتے ہیں، وہیں امید کے چراغ بھی جل رہے ہیں۔ امید کا سب سے پہلا چراغ کشمیریوں کا، اپنے زورِ بازو اور اپنے مقصد سے ناز ہے۔ امید کے باقی عوامل کا تعلق دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور کچھ ایسی انہونی سے ہے جو وقت کے کسی بھی اُلٹ پھیر میں ہوکر رہتی ہے۔
سید نذیر گیلانی سری نگر سے تعلق رکھنے والے دانشور، قانون دان، قلم کار اور حقوقِ انسانی کے ماہر ہیں۔ کئی دہائیوں سے لندن میں مقیم ہیں اور جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کے سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کرتے چلے آئے ہیں۔ اقوام متحدہ اور جنیوا سمیت دنیا کے ہر قابلِ ذکر فورم پر کشمیر کا مقدمہ لڑتے رہے ہیں۔ طویل عرصے کے بعد سید نذیر گیلانی پاکستان آئے تو اُن سے 5 اگست2019ء کے بعد مسئلہ کشمیر کی حقیقت اور حیثیت پر بات ہوئی۔ مختصر گفتگو میں انہوں نے جو حقائق بیان کیے وہ چشم کشا بھی ہیں اور تکلیف دہ بھی، جن میں سب سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جو اس مسئلے کا فریق اور وکیل تھا پُراسرار خاموشی کا شکار ہوا، اور اس خاموشی سے بھارت نے اپنے فیصلے کو آسانی سے منوا لیا۔ بھارت کو اسلام آباد سے بالواسطہ یا بلاواسطہ گرین سگنل اگر گئے تھے تب بھی بھارت نے پانچ اگست سے کئی روز پہلے ہی جو حفاظتی انتظامات کررکھے تھے وہ یہ بتارہے تھے کہ بھارت کو کسی انجانے اور اچانک ردعمل کا خوف ہے۔ یہ خوف بہت عرصے بعد تک محسوس کیا جاتا رہا، مگر جب انہیں یقین ہوگیا کہ اب معاملہ پرانا ہوگیا ہے تو بھارت نے کشمیر میں ہاتھ ڈھیلا چھوڑ دیا۔ سید نذیر گیلانی نے بھی اس خاموشی کا ذکر کیا اور نئے امکانات کی بھی بات کی، اور یہاں تک کہا کہ اگر پاکستان کشمیر کے مسئلے کا فریق رہنا چاہتا ہے تو اُسے یہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ گویاکہ اب اس بات پر بھی سوال اُٹھنے لگے ہیں کہ کیا پاکستان فریق کے طور پر کشمیر کیس میں شریک رہنا بھی چاہتا ہے؟ اس سوال نے پانچ اگست کے موقع پر پائی جانے والی پُراسرار خاموشی سے جنم لیا ہے۔
حال ہی میں ایک سیمینار میں مَیں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی سے پوچھا تھا کہ یہ تاثر کس حد تک درست ہے کہ پانچ اگست کا فیصلہ دہلی اور اسلام آباد کے درمیان ایک فکس میچ تھا؟ تو انہوں نے اس کی تردید کی اور کہا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے! یہ تاثر قطعی غلط ہے۔
سید نذیر گیلانی سے میں نے پوچھا کہ عمومی تاثر تو یہ ہے کہ پانچ اگست کے بعد اب مسئلہ کشمیر کی بساط لپٹ چکی ہے۔ کیا اب بھی سرنگ کی دوسری سمت میں روشنی باقی ہے یا ہم معاملہ ختم سمجھیں؟ سید نذیر گیلانی کا جواب تھا کہ سب کچھ ختم ہوجانے کا تصور جو بھی پیش کررہا ہے وہ حقیقت میں شکست خوردہ ذہنیت کا اظہار کررہا ہے۔ جو کچھ ہوا اس کے کئی پہلو ہیں۔پہلا یہ کہ اقوام متحدہ کے Template کے حوالے سے کشمیر کہاں موجود ہے۔ اس سانچے کے مطابق مسئلہ کشمیر کے تین فریق پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام ہیں۔ اس اصول کے تحت بھارت نے یک طرفہ قدم اُٹھاکر ایک جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ جرم تین فریقوں یعنی پاکستان، کشمیری عوام اور خود اقوام متحدہ کے خلاف ہوا ہے، جس کے خلاف سب سے پہلے نیدرلینڈ نے اپنا ردعمل دیا کہ اقوام متحدہ کے طے کردہ اصول سے اگر کوئی پارٹی یک طرفہ طور پر الگ ہوجائے تو وہ دوسرے فریقوں کے خلاف جرم کی مرتکب ہوگی۔ یہاں بھارت کئی فریقوں کے خلاف جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ پانچ اگست کے فیصلے کے خلاف متناسب اور مطلوبہ ردعمل نہیں دیا گیا جس سے بھارت کو واک اوور مل گیا۔ اس موقع پرپاکستان بھی خاموش رہا اور اہلِ کشمیر بھی خاموش رہے۔ اب اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ پانچ اگست کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا تو یہ اس فیصلے کو سندِ جواز عطا کی جارہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ بھارت کا گلگت بلتستان اور آزادکشمیر پر جو دعویٰ ہے ہم اس کو بھی تسلیم کررہے ہیں۔ سب کچھ ختم ہوجانے کی بات کرنے والے اس کو نہیں سمجھتے کہ بھارت کی پارلیمنٹ نے 1992ء میں ایک قرارداد منظور کرکے کہا ہے کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے انڈین یونین کا حصہ ہیں۔ اب اگر کوئی چیز اس کی راہ میں رکاوٹ ہے تو وہ اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں اور اس کیس کی قانونی حیثیت اور کارروائی ہے۔
سید نذیر گیلانی کا ایک اور سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ کوئی کہتا ہے کہ پانچ اگست کو طوفان آیا۔ بالکل طوفان آیا ہے اگر آپ کچھ نہیں کریں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ ماضی میں کئی مواقع پر پاکستان کا وہ ردعمل نہیں آیا جو آنا چاہیے تھا، اس کے باوجود کشمیر کے لوگ مزاحمت کرتے رہے۔ اِس بار بھی کشمیریوں نے داخلی حقِ خودارادیت کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ انہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے جو انتظامی اسپیس کھودی تھی اسے دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ عمرعبداللہ پہلے پارلیمنٹ کا انتخاب بارہ مولہ سے ہار گیا، مگر جب اسمبلی کے انتخابات میں کشمیریوں کو محسوس ہوا کہ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی جیت گئی تو پھر اختیار ریاست سے باہر چلا جائے گا تو انہوں نے نظرثانی کرکے بی جے پی کو شکست دی اور نیشنل کانفرنس کو کامیاب کرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’پانچ اگست کو جو ہوگیا، ہوگیا‘‘ کہنا کشمیر سے بھاگنے کی فضا بنانے کی بات ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا، ہوا یہ ہے کہ بھارت نے معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں دونوں فریق کی جو پوزیشن ہے جس کی تصدیق اقوام متحدہ نے کی ہے، اُس سے بھاگنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت اورپاکستان کے درمیان معاہدات کی ضامن اقوام متحدہ ہے۔ آپ اقوام متحدہ سے جب تک یہ پوچھیں گے نہیں کہ اب پوزیشن کیا ہے؟ اُس وقت تک صورتِ حال یہی رہے گی۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کاکہنا تھا کہ پاکستان کے علاوہ کوئی اور ملک بھی کشمیریوں کی وکالت کرسکتا ہے۔ وہ اس مسئلے کو Occupation use of force کے تحت ازسرِنو اُٹھا سکتا ہے۔ یہ نکتہ دنیا کو پابند کرتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے لیے کشمیریوں کی مدد کرے۔ اقوام متحدہ کی نگرانی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ فریق رہنا چاہتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں رہنا چاہتا تو کشمیریوں کو کہہ دے کہ میں فریق نہیں رہ سکتا۔ کشمیری آج تک پاکستان کی وکالت پر ہی بھروسہ کرتے رہے ہیں۔ انہیں امید تھی کہ پاکستان اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر شد ومد سے اُٹھاتا رہے گا، مگر پاکستان ایسا نہ کرسکا۔ اکتیس سال اس میں ضائع ہوگئے۔ نومبر1965ء سے ستمبر1996ء تک اکتیس سال کا عرصہ گزرا جب اقوام متحدہ میں کشمیر کا ذکر نہیں ہوا۔پھر المیہ یہ ہے کہ تاریخ کو آپ تبدیل نہیں کرسکتے ۔2013ء میں پاکستان کو اقوام متحدہ کی صدارت ملی ایک مہینے کے لیے ۔اس دوران پاکستان نے دنیا بھر کے مسائل اُٹھائے مگر کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا ۔1990ء میں ہم نے ملیٹینسی اور سفارتی مہم شروع کی، لیکن 2013ء میں پاکستان کے پاس مکمل اختیارآگیا تو ایک ماہ کی صدارت میں کشمیر کا نام تک نہیں لیا گیا ۔جب بھارت کو یہی صدارت ملی تو بھارت نے افغانستان کے معاملے پر بحث میں پاکستان کو شریک ہونے سے دوبار روک دیا۔ پاکستان نے پوری کوشش کی کہ اسے بھی معاملے میں بولنے کا موقع دیا جائے مگر بھارت نے اسے بار بار مسترد کیا۔اقوام متحدہ کے صدر کا اتنا اختیار ہوتا ہے۔ہمارے جو وہاں نمائندے رہے انہوں نے کشمیر کے مسئلے پر بات کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔
سید نذیر گیلانی کا کہنا تھا کہ کشمیر کے تمام حصوں میں اچھی ایڈمنسٹریشن اور گڈ گورننس کے علاوہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری بھی اسی ادارے کی ذمہ داری ہے۔ رائے شماری کا اہتمام آزاد کشمیر حکومت کو نہیں کرنا بلکہ اس کے لیے رائے شماری کے مشیر کا تقرر ہونا ہے جو سری نگر کی حکومت کرے گی۔ آزادکشمیر کی حکومت کو سری نگر کی حکومت کو انگیج کرنا ہے۔ اب آزاد کشمیر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سری نگر کی حکومت کو طاقتور بنائے تاکہ وہاں بھارت کا جو غیر معمولی اثر ہے وہ کم ہو، اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کا اثر برقرار رہے۔ یہ خالص قانونی صورتِ حال ہے۔ بھارت نے جو قدم اُٹھایا ہے پاکستان اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو کسی دوسرے ملک کی خدمات حاصل کرے جیسے جنوبی افریقہ والوں نے غزہ کے معاملے میں ہمت دکھائی۔ کسی مسلمان ملک میں تو اس کی ہمت نہیں ہوئی۔
سید نذیر گیلانی کا کہنا تھا کہ کشمیر کا کیس قانونی نظم ونسق کی بنیاد پر عالمی عدالتِ انصاف میں جائے گا۔ اس بنیاد پر بھارت نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں، کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ کیے گئے معاہدات کی خلاف ورزی کی ہے۔ یوں تہہ در تہہ خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اگر پاکستان میں یہ کام نہیں ہورہا تو کہیں اور سے امید کی کرن پھوٹ پڑے گی۔ عوام خود حالات کا کنٹرول سنبھالیں گے۔ اس کے لیے ہمیں تقسیمِ کار کے اصول کے تحت کچھ ذمہ داری سری نگر حکومت پر بھی منتقل کرنا پڑے گی۔