انسانی اسمگلنگ کا مکروہ دھندا

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے ہدایات جاری کی ہیں کہ انسانی اسمگلروں کی جائدادیں اور اثاثے ضبط کیے جائیں، ان کے سہولت کار سرکاری افسروں کو تادیبی کارروائی کے ساتھ سخت سزائیں بھی دلائی جائیں اور دفتر خارجہ بیرونِ ملک انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک چلانے والے پاکستانیوں کی حوالگی کے لیے فوری اقدامات کرے، جب کہ وزارتِ اطلاعات و نشریات وزارتِ داخلہ کے تعاون سے عوام میں بیرونِ ملک روزگار کے لیے صرف قانونی راستے اختیار کرنے کی آگاہی مہم چلائے۔ وزیراعظم نے یہ ہدایات انسانی اسمگلنگ کے خلاف کیے گئے اقدامات کے حوالے سے اسلام آباد میں منعقدہ جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جاری کیں۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم کو بتایا گیا کہ لیبیا کشتی حادثے پر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے فیصل آباد کو ہٹادیا گیا جب کہ 12 ڈپٹی ڈائریکٹرز اور اسسٹنٹ ڈائریکٹرز چارج شیٹ، اور انسانی اسمگلرز کے کروڑوں کے اکائونٹس منجمد کردیے گئے۔ وزیراعظم نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث سرکاری اہلکاروں کے خلاف کیے گئے حالیہ اقدامات پر ایف آئی اے کو سراہتے ہوئے کہا کہ انسانی اسمگلروں کے سہولت کار سرکاری افسران کے خلاف تادیبی کارروائیوں کا آغاز خوش آئند ہے، سہولت کاروں کے خلاف تادیبی کارروا ئی کے بعد سخت تعزیری اقدامات بھی کیے جائیں اور ملک میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث تمام گروہوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے، تاکہ وہ نشانِ عبرت بنیں۔ انسانی اسمگلروں کی جائدادوں اور اثاثو ں کی ضبطی کے لیے فوری قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اس مکروہ دھندے میں ملوث تمام افراد کے خلاف استغاثہ کے عمل کو مزید مؤثر بنایا جائے۔ استغاثہ کے لیے وزارتِ قانون و انصاف سے مشاورت کے بعد اعلیٰ درجے کے وکلا تعینات کیے جائیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں ایسے ٹیکنیکل ٹریننگ اداروں کی ترویج کی جائے جو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق مستند پیشہ ور افراد بیرونِ ملک مارکیٹ کو فراہم کرسکیں۔ ہوائی اڈوں پر بیرونِ ملک جانے والے افراد کی اسکریننگ کا عمل مزید مؤثر بنایا جائے۔

وزیراعظم کی جانب سے انسانی اسمگلنگ کے مکروہ دھندے کی روک تھام کے لیے منعقدہ جائزہ اجلاس میں جاری کی گئی ہدایات خاصی حوصلہ افزا، جامع اور ہمہ گیر نوعیت کی ہیں، جن سے انسانی اسمگلنگ کے کاروبار سے قوم کو نجات دلانے کے حکومتی عزم کا اظہار ہوتا ہے۔ اس اجلاس اور وزیراعظم کی ان قابلِ قدر ہدایات کی ضرورت دسمبر کے وسط میں یونان میں پیش آنے والے کشتی حادثوں کے بعد پیش آئی جن میں چار درجن کے قریب پاکستانی سمندر کی لہروں کی نذر ہوگئے تھے۔ قبل ازیں جون 2023ء میں بھی کشتی ڈوبنے کا اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں سات سو سے زائد تارکینِ وطن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، جن میں نصف سے زائد یعنی 360 افراد پاکستانی کے طور پر شناخت کیے گئے تھے۔ وزیراعظم کی طرف سے اُس وقت بھی اس جان لیوا کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات جاری کیے گئے تھے اور اُس وقت بھی ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے ایک رپورٹ بھی تیار کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ ایف آئی اے کے بعض اہلکاروں اور افسران کے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد سے باقاعدہ رابطے ہیں جو اس غیر قانونی بلکہ غیر انسانی کاروبار میں شراکت دار اور سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں 18 ایسے اہلکاروں کو نامزد بھی کیا گیا تھا جو براہِ راست اس دھندے میں ملوث تھے۔ چنانچہ سفارش کی گئی تھی کہ ان افراد کو آئندہ کسی ہوائی اڈے پر تعینات نہ کیا جائے۔ اس رپورٹ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہوائی اڈوں پر ان کی تعیناتی ہی نہ روک دی جاتی بلکہ انہیں ایسی سزا دی جاتی جو دیگر لوگوں کے لیے باعثِ عبرت بنتی۔ مگر کشتی کے حالیہ سانحے کے بعد یہ حیران کن حقیقت منظرعام پر آئی کہ جون 2023ء کے سانحے میں 360 پاکستانیوں کی جانیں جانے کے باوجود متعلقہ محکموں کے حکام کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور انہوں نے اس سانحے کی تحقیقاتی رپورٹ اور اس میں کی گئی سفارشات پر عمل کے بجائے اسے ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا، اور کشتی ڈوبنے کے دسمبر 2024ء کے سانحے کے بعد جب دوبارہ جون 2023ء کے کشتی کے سانحے اور اس سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ کی بازگشت سنائی دی تو یہ ناقابلِ یقین حقائق سامنے آئے کہ نامزد کیے گئے اٹھارہ افراد آج بھی نہ صرف ہوائی اڈوں پر تعینات تھے بلکہ تارکینِ وطن کو بیرونِ ملک بھجوانے کا دھندا بھی دھڑلے سے جاری رکھے ہوئے تھے، اور اس سہولت کاری کے لیے پچیس سے تیس ہزار روپے فی کس وصول کررہے تھے۔ تاہم اطلاعات کے مطابق دسمبر 2024ء کے کشتی ڈوبنے کے سانحے کے بعد وزیراعظم نے اس معاملے میں حقیقی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ اب تک اس معاملے میں دو جائزہ اجلاس منعقد کرچکے ہیں۔ وزیراعظم کی معاملے کی کڑی نگرانی کا نتیجہ ہے کہ اس دھندے کے سرکردہ افراد اور اُن کے شراکت داروں اور سہولت کاروں کے خلاف حکومتی سطح پر واقعی گھیرا تنگ ہوتا محسوس ہورہا ہے، اب تک متعدد انسانی اسمگلروں کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے، ان کی جائدادیں اور اثاثے ضبط کرنے کی کارروائی بھی شروع کی جا چکی ہے، جب کہ اُن کے شراکت دار اور سہولت کار وفاقی تحقیقاتی ادارے کے تین درجن کے قریب اہلکاروں کو بھی قانون کے شکنجے میں کسا جا چکا ہے۔ تاہم بیرونِ ملک پے در پے کشتیوں کے حادثات میں جانوں کے زیاں اور راستے کے دیگر بے پناہ مصائب ومشکلات کے باوجود لوگوں میں غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک جانے کا رجحان ابھی تک ختم نہیں ہوا، اور نوجوان اپنے والدین کی عمر بھر کی جمع پونجی انسانی اسمگلروں کے حوالے کرکے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بیرونِ ملک کا غیر قانونی سفر ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ 4 جنوری کو یونان کے قریب سمندر میں کشتی کا ایک اور حادثہ پیش آیا ہے جس میں بیسیوں پاکستانی سوار تھے۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کی جانب سے حالیہ جائزہ اجلاس میں معاملے کے کسی ایک پہلو کے بجائے تمام پہلوئوں پر جامع ہدایات جاری کرنا یقیناً حوصلہ افزا ہے۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ وزارتِ اطلاعات و نشریات، وزارتِ خارجہ، وزارتِ قانون، وزارتِ تعلیم، وزارتِ داخلہ اور دیگر تمام متعلقہ اداروں کو بھی اس لعنت سے قوم کو نجات دلانے کے لیے جو ہمہ گیر اقدامات کرنے کی ہدایات دی ہیں، توقع کرنا چاہیے کہ یہ نتیجہ خیز ہوں گی، تاہم اس کے لیے لازم ہے کہ وزیراعظم معاملے پر کڑی نگرانی کا سلسلہ جاری رکھیں، ورنہ حکام ان کی ہدایات کو طاقِ نسیاں کی زینت بنانے میں ذرا دیر نہیں کریں گے۔(حامد ریاض ڈوگر)