اپنے اپنے طریقے کو افضل اور راجح قرار دینے کے لیے بالعموم اللہ کے رسولؐ سے مروی حدیثوں اور صحابہ و تابعین سے مروی آثار کو دلیل بنایاگیا اور ایک زبردست حقیقت پسِ پردہ چلی گئی کہ نماز کے یہ سارے طریقے امت کو عملی تواتر کے ذریعے سے ملے ہیں۔ اگر یہ حقیقت ذہنوں میں تازہ رہتی تو نماز کے مختلف طریقے اختلاف کا سبب نہ بنائے جاتے۔
اتحادِ امت کا مشن ایک ہمہ جہت پروگرام چاہتا ہے۔ وعظ و نصیحت کے ذریعے دلوں کو نرم کرنے کا کام بھی ہو، اتحادِ امت کی اہمیت بھی بتائی جائے کہ وہ ایسا ہی ایک فریضہ ہے جس طرح نماز اور زکوٰۃ۔ اس کے ساتھ ہی تدبیری کوششیں بھی کی جائیں، اُن مقامات کی نشاندہی کی جائے جہاں اختلاف کسی غلط فہمی کے نتیجے میں در آیا ہے، افتراق کی جڑوں کو کاٹا جائے، ان راستوں کو بند کیا جائے جہاں سے فرقہ بندیوں کی آب پاشی ہوتی ہے، اور وہ نقطہ نظر اور اندازِ فکر تشکیل دیا جائے جو اتحاد کے پہلو کو ترجیح دیتا ہو۔ زیر نظر کتاب ’’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘ محترم ڈاکٹر محی الدین غازی مدظلہ العالی کی اسی طرح کی ایک تدبیری کوشش ہے۔ اس کتاب میں عملی تواتر کے حوالے سے یہ تحقیق پیش کی گئی ہے کہ مختلف مسالک میں نماز کے جو طریقے محفوظ کیے گئے ہیں وہ سب درست ہیں اور سنت کے مطابق ہیں۔ لازم ہے کہ ان سب کے درست ہونے پر اتفاق کرکے امت کے اتحاد، اصلاح اور ترقی کی نئی راہوں پر کام کیا جائے۔
عظیم اسلامی مفکر ڈاکٹر محمد عمارہ نے اس کتاب کے عربی ایڈیشن کے لیے قدرے طویل اور نہایت وقیع مقدمہ تحریر فرمایا اور ڈاکٹر محی الدین غازی کی حوصلہ افزائی فرمائی، خود رقم طراز ہیں:
’’آفرین اس مسلم دماغ کے لیے جس نے یہ شاہکار کتاب تخلیق کی‘‘۔
ڈاکٹر محی الدین غازی دینی علوم کے ماہر اور متوازی فکر کی حامل شخصیت ہیں۔ ڈاکٹر صاحب وحدتِ امت کے متحرک داعی ہیں۔ یہ کتاب ’’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘ ایک نہایت ہی اہم موضوع پر چشم کشا کتاب ہے جس سے دین کے اندر علم کا ایک پورا نقطہ نظر بدل جاتا ہے۔ پیش لفظ میں ڈاکٹر محی الدین غازی رقم طراز ہیں:
’’راقم کے علم کی حد تک اس موضوع پر ایک مکمل کتاب کی صورت میں یہ ایک منفرد کوشش ہے‘‘۔
یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ نماز کے موضوع پر امتِ مسلمہ کی پوری علمی تاریخ میں یہ اس نوعیت کی پہلی کوشش ہے۔ یہ شاہکار تصنیف کئی برسوں کی فکر و تحقیق کا نچوڑ ہے۔
مصنف اس بات کو بڑی شدومد کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ نماز کے جتنے طریقے امت میں رائج ہیں وہ سب درست اور سنت کے مطابق ہیں، تمام طریقے مسلمانوں تک عملی تواتر کے ذریعے منتقل ہوئے ہیں۔
نماز کے طریقوں کے سلسلے میں اختلاف کی بڑھی ہوئی بے اعتدالی تو یہ ہے کہ دورِ اول سے ثابت شدہ ایک طریقے کو صحیح اور دوسرے طریقے کو غلط کہا جائے۔ مزید برآں مصنف کی تحقیق یہ ہے کہ کسی ایک طریقے کو دوسرے طریقے سے افضل بتانا بھی درست رویہ نہیں ہے۔ تمام طریقے تواتر کے ساتھ امت کو ملے ہیں۔ یہ سب سنتِ صحیحہ سے ثابت ہیں اور ان تمام کے درمیان ایک دوسرے پر فضیلت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس سے بھی تفرقے اور فتنے کے دروازے کھلتے ہیں۔
کتاب خوب صورت سرورق، بہترین کاغذ، غلطیوں سے پاک حروف خوانی کے ساتھ بہت اچھی شائع ہوئی ہے۔