دیکھتا رہتا ہوں ہر دم جاگتی آنکھوں سے خواب
ٹوٹتے ہیں ساغر و صہبا میں اٹھ اٹھ کر حباب
بازگشتِ قلقل و مینا سے گھبراتا ہے دل
بے نوا ہو کر نوا پیرا ہوا جاتا ہے دل
شعلہ خورشید سے تھوڑی چمک پاتی ہے خاک
پھر چمک کر اس چمک پر خوب اتراتی ہے خاک
سرد ہو جاتا ہے لیکن جب شرارِ آرزو
مار دیتا ہے دلِ آدم کو مارِ آرزو
اے خدائے لم یزل کیا حرص ہے میری سرشت
ورنہ جنت اور ہجومِ خواہشِ برگِ بہشت
یا مجھے رکھا گیا محرومِ اسرارِ حیات
ورنہ مسجودِ ملائک اور جہانِ بے ثبات
یا یہ وہ جوہر ہے خاکی جس کو پا سکتا نہیں
کوزئہ کم ظرف میں دریا سما سکتا نہیں
یا فقط کارِ جہاں کے واسطے میری نمود
عقلِ انساں اور ہزاروں عقدہ ہائے ہست و بود
دردِ دل کی انجمن میں میرِ محفل کون ہے
یہ بتا اس کائناتِ درد کا دل کون ہے
محرمِ رازِ دروں کر عشق کی توفیق دے
پیکرِ مہر و وفا کو حسنِ نستعلیق دے
کھول چشمِ دل کو اے جویائے اسرارِ حیات
وہ تڑپتی ہے ہر اک ذرے میں روحِ کائنات
شور سناٹوں کا سن خاموشیوں سے بات کر
رات کی تنہائیوں میں احتسابِ ذات کر
ہے مسبب ہر سبب کا بے سبب کچھ بھی نہیں
گرچہ دنیا میں بجز منشائے رب کچھ بھی نہیں
پا بہ گِل ہے عالمِ محسوس میں آدم ابھی
برقِ رازِ کُن سے ہے محروم نامحرم ابھی
قیس کیا گر آرزوئے ناقہِ لیلیٰ نہ ہو
کیا جنونِ عشق جب تک نجد کا صحرا نہ ہو
زندگی مینا سے وابستہ نہ یہ مرہونِ جام
ہے دوائے قلبِ مضطر جستجوئے ناتمام
تجھ میں پوشیدہ ہے روحِ لایزال و لم یزل
تیری پیشانی پہ لکھی ہے محبت کی غزل
محفلِ کون و مکاں میں شمعِ محفل تیری ذات
ہے وجودِ آدمیت سے وجودِ کائنات
کیا طلوعِ روز و شب کیا انتہائے ماہ و سال
دائمی شے کو ہے بے معنی شبِ ہجر و وصال
زندگی کے چار دن تھے ختم دو دن ہو گئے
اور ہم اس بات پر خوش ہیں کہ دو دن ہو گئے
کل جو تھا رنگِ شفق رنگِ شفق ہے آج بھی
کل جو تھا بھولا سبق بھولا سبق ہے آج بھی
یہ ہلالِ سالِ نو کچھ بھی نہیں اس کے سوا
گم ہوا اک اور دانہ رشتہِ تسبیح کا
کہہ رہا ہے غافلوں سے سالِ نو کا آفتاب
اک ورق اور کھو چکی ہے زندگی کی یہ کتاب
جیسے یخ بستہ پہاڑوں پر گرے شاخِ نبات
گر گئی اک اور گویا خشتِ دیوارِ حیات
ہے طلوعِ صبحِ نو بزمیؔ یہ شامِ زندگی
موت کے پردے میں پنہاں ہے دوامِ زندگی