گاڑی سے اترکر ہم بیلنے کی طرف گئے تو ایک بزرگ جو چارپائی پہ سردیوں کی دھوپ میں لیٹے ہوئے مزے سے حقہ پی رہے تھے، اٹھ کر بیٹھ گئے اور بڑی محبت سے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہم بھی آپ سے ہاتھ ملانے کے بعد سامنے والی چارپائیوں پر مؤدّب ہوکر بیٹھ گئے۔
میرے لیے تو یہ ماحول ہرگز اجنبی نہیں تھا۔ ہمارے ہاں تو خود ہم گنا کاشت کرتے اور گُڑ، شکر بنایا کرتے تھے اور بہت سے لوگ وہاں آکر گنے کے رس اور گڑ شکر سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ اب تو مدت ہوئی ہمارے بھائی صاحب اور دیگر اعزہ نے یہ دھندہ چھوڑ دیا ہے حالاں کہ ان دنوں یہ زیادہ نفع بخش ہے۔ اب چینی سے گڑ زیادہ مہنگا بکتا ہے اور چینی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مفید ہے، بلکہ چینی تو مضر صحت ہے۔ گڑ بنانے کی مشینری اور دیگر سامان بھی مختلف دوستوں کو عاریتاً دے دیا گیا جو اب مستقل طور پر انہی کی ملکیت ہے۔ چلو خیر یہ بھی فیاضی اور ایک طرح کا صدقۂ جاریہ ہی ہے۔ یہ فقرۂ معترضہ بیچ میں آگیا ہے۔
قبل اس کے کہ بابا جی سے ہم کچھ کہتے، انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا: او لڑکو! ادھر آئو، مہمانوں کی خدمت کرو۔ چناںچہ پہلے گُڑ پیش کیا گیا، جو بڑے شوق اور مزے سے ہم سب نے کھایا۔ اس کے بعد چلتے ہوئے بیلنے سے تازہ تازہ گنے کا رس باریک اور صاف ستھرے کپڑے سے پُن کر مٹی کے پیالوں میں پیش کیا گیا۔ خوب سیر ہوکر سب نے خالص رس پیا۔ پھر بابا جی سے کچھ دیر نیازمندانہ گفتگو ہوئی اور ہم نے اجازت چاہی۔ انھوں نے بڑی محبت سے ہم سب سے ہاتھ ملایا اور دعائوں کے ساتھ ہمیں رخصت کیا۔ ہماری نہ پہلے ان سے کوئی واقفیت تھی اور نہ اس کے بعد کبھی ملاقات ہوئی، مگر وہ ملاقات اور سارا منظر اب تک اچھی طرح یاد ہے۔
ایک اور لطیفہ یہ ہوا کہ فاروق صاحب نے گاڑی میں بیٹھتے ہی فرمایا ’’یار ہم کوئی ادائیگی کیے بغیر ہی بھاگ آئے ہیں!‘‘ اس پر مجھے ہنسی آگئی۔ میں نے کہا ’’اگر آپ نے بابا جی کے سامنے یہ بات کی ہوتی تو بابا جی آپ کی پٹائی کردیتے۔ انھوں نے مہمان نوازی کے طور پر سب کچھ پیش کیا تھا، دکانداری کے طور پر نہیں! یہ دیہاتی معاشرت اور کلچر کا لازمی حصہ ہے۔ شہروں کے رہنے والے ان اقدار کو کہاں جان سکتے ہیں! یہاں تو کلچر ہی مختلف ہے۔ الّا ماشاء اللہ!‘‘
بات قدرے لمبی ہوگئی جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ جب سید اسعد گیلانی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے فرمایا کہ میری خواہش ہے آپ ہمارے ساتھ صوبائی نظم میں کوئی ذمہ داری ادا کریں۔ میں نے نہایت ادب سے معذرت کردی کہ حضرت یہ میرے لیے بالکل ممکن نہیں۔ میں نے اپنی مجبوریاں اور مصروفیات بیان کیں تو گیلانی صاحب نے میری معذرت قبول فرما لی۔ مختصر نشست کے بعد وہاں سے چائے پی کر ہم نے واپسی کی راہ لی۔ کچھ عرصے کے بعد گیلانی صاحب کی امارتِ صوبہ کی ذمہ داری بوجوہ ختم ہوگئی۔ اس کی بھی ایک تفصیل ہے جس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد چودھری غلام جیلانی بی۔اے عارضی امیر صوبہ مقرر ہوئے۔ بعد میں استصواب ہوا تو آپ کا تقرر بطور مستقل امیر صوبہ ہوگیا۔ جناب اسعد گیلانی کے حالات میری کتاب ’’مسافرانِ راہِ وفا‘‘ میں صفحہ 80سے لے کر 94 تک مذکور ہیں۔
جیلانی صاحب نے بھی ایک روز 5-اے ذیلدار پارک اچھرہ میں ملاقات پر مجھ سے وہی مطالبہ کیا جو اسعد گیلانی صاحب نے کیا تھا۔ آپ سے بھی میں نے اسی طرح بصد ادب معذرت کی۔ دونوں بزرگوں کے ساتھ بڑی عقیدت کا تعلق تھا اور وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتے تھے، مگرمیرا ارادہ اُس وقت مختلف کاموں کو سمیٹ کر بیرونِ ملک جانے کا تھا، اس لیے میں کوئی ذمہ داری قبول کرنے کے قابل نہیں تھا۔ چودھری غلام جیلانیؒ بی اے کے حالات ہماری کتاب’’مسافرانِ راہِ وفا‘‘ کے صفحہ 66سے 79تک محفوظ ہیں۔
میں نے پاسپورٹ بنوا لیا تھا اور ارادہ تھا کہ برطانیہ سے پی ایچ ڈی کروں گا۔ برطانیہ میں مقیم میرے دوستوں اور خاندانی عزیزوں کا خیال تھا کہ میں برطانوی سفارت خانے سے ویزا لگوا لوں اور برطانیہ آجائوں۔ یہاں آنے کے بعد باہمی مشاورت سے کسی اچھے تعلیمی ادارے میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلے کا اہتمام کرلیا جائے گا۔ اُس زمانے میں ویزا لگنا آسان تھا۔ پاسپورٹ بننے کے بعد میں نے برطانوی ہائی کمیشن اسلام آباد میں ویزا کے لیے درخواست دی تو مختصر سا انٹرویوہوا۔ کچھ سوال و جواب کے بعد ایک ہفتے میں میرا ویزا لگ گیا۔
برادر گرامی قدر تسنیم عالم منظر مرحوم اُن دنوں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ تھے۔ ان کا بھی ارادہ تھا کہ وہ انگلستان سے انجینئرنگ میں مزید تعلیم حاصل کریں۔ انسان کے ارادے کچھ ہوتے ہیں، مگر ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہو۔ تسنیم عالم منظر اور میں اسلامی جمعیت طلبہ آزاد کشمیر کے ایک تربیتی پروگرام میں اکٹھے بذریعہ بس لاہور سے مظفرآباد روانہ ہوئے۔ راستے میں مختلف امور و معاملات پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ جب ہماری بس لالہ موسیٰ پہنچی تو میں نے تسنیم بھائی کو بتایا کہ یہاں سے پندرہ میل مغرب کی جانب میرا گائوں ہے۔ واپسی پر اِن شاء اللہ آپ کو اپنے ساتھ لے کر گائوں جائوں گا اور ایک دن وہاں قیام کریں گے۔ انھوں نے بڑی خوشی کے ساتھ دعوت قبول کی، مگر مہلتِ عمل ختم ہوچکی تھی۔ مظفرآباد میں تربیتی پروگراموں کے درمیان وقفہ ہوا تو کچھ ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ دریائے نیلم کے کنارے پر پُرفضا ماحول میں جاکر کچھ وقت گزارا جائے۔
تسنیم عالم منظر، مرزا عبداللطیف، میاں عبدالشکور اور میں دو کشمیری بھائیوں کے ہمراہ اس پروگرام کے مطابق دریائے نیلم کے کنارے پہنچے۔ ان تینوں ساتھیوں نے کہا کہ دریا میں نہانا چاہیے۔ میں نے کہاکہ آپ لوگ نہائیں، میں اتنی دیر میں اپنی زیرطبع کتاب ’’رحمان کے سائے میں‘‘ کی ایڈیٹنگ کا کام کرلوں۔ یہ تینوں ساتھی کشمیری بھائیوں کے ساتھ نیچے اتر گئے۔ جب یہ دریا میں نہانے کے لیے پانی میں داخل ہوئے تو تھوڑی دیر بعد تینوں ساتھی ڈبکیاں کھانے لگے۔ ہر طرف شور بپا ہوگیا۔ مقامی ماہی گیروں نے دو ساتھیوں عبدالشکور اور مرزا عبداللطیف کو تو بچا لیا، مگر تسنیم بھائی گہرے پانی میں ڈوب گئے۔ میرے لیے وہ لمحات قیامت سے کم نہ تھے۔ میں نے بھی کافی لوگوں کو مدد کے لیے آوازیں دیں، مگر جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔ کچھ دیر کے بعد تسنیم بھائی کا بے جان جسدِ خاکی ماہی گیروں نے غوطہ خوری کرکے دریا کی تہہ سے نکال لیا۔ مجھے آج تک اس واقعے کی تلخ یادیں تڑپاتی رہتی ہیں۔
شہید کے جسدِ خاکی کو اسلام آباد اور پھر کراچی پہنچانا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ پنڈی میں ڈاکٹر محمد کمال صاحب (سابق ناظم اعلیٰ) سے رابطہ ہوگیا۔ مجھے خیال آیا کہ حکومتِ آزاد کشمیر سے تعاون مانگا جائے۔ سب دوستوں نے اس کی تائید فرمائی۔ آزاد کشمیر کے اُس دور کے صدر سردار عبدالقیوم صاحب سے میرا تھوڑا بہت تعارف تھا۔ رات گئے یہ خبر پورے ملک میں ریڈیو پاکستان کی نشریات سے پہنچ گئی، مگر سرِشام ہم جب آزاد جموں و کشمیر قصرِ صدارت میں گئے، تو اُس وقت تک یہ خبر صرف ہمیں یا جمعیت اور جماعت کے مقامی ساتھیوں ہی کو معلوم تھی۔ ہم سے خبر سننے کے بعد صدر عبدالقیوم مرحوم نے ہم سے بہت اپنائیت کے ساتھ اظہارِ تعزیت کیا اور پھر بلاتاخیر سرکاری ایمبولینس فراہم کی، جس میں ہم نے تسنیم عالم منظر کی میت کے ہمراہ غم زدہ دلوں اور اشک بار آنکھوں کے ساتھ مظفرآباد سے اسلام آباد تک کا سفر کیا۔ سارے راستے مَیں قرآن کی تلاوت کرتا رہا۔ اگلے روز مرحوم کی میت ہوائی جہاز کے ذریعے کراچی روانہ کردی گئی۔
اس سانحے کے بعد اعجاز رحمانی مرحوم نے تسنیم عالم منظر کی شہادت پر ایک نہایت دردناک مرثیہ لکھا تھا۔ اس میں انھوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے تمام ارکان و کارکنان کے قلبی جذبات کی ترجمانی کی۔ مجھے ان کی یہ نظم ہمیشہ یاد آتی ہے، تو سارے مناظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ ایسا کبھی کم ہی ہوا ہوگا کہ یہ کلام پڑھتے ہوئے آنکھیں نہ بھیگی ہوں۔ یہ نظم اسلامی جمعیت طلبہ کے کئی اجتماعات میں سنائی گئی۔ اس کا عنوان ہے ’’موجۂ نیلم بتا تسنیم عالم کیا ہوا؟‘‘ اس کے چند اشعار یہاں نذرِقارئین کیے جاتے ہیں ؎
ستارہ جو ڈوب گیا
اور اک روشن ستارہ ٹوٹ کر گُم ہو گیا
ایک سُورج اور گہنایا جہانِ پاک میں
ہو گیا گُل بزمِ جمعیت کا اک روشن چراغ
مل گیا تقدیر سے اک اور گوہر خاک میں
==٭==٭==
آج اُس کے سوگ میں ہیں کتنی آنکھیں اشکبار
ظلمتوں میں نور و نکہت کا نمائندہ تھا وہ
وقف تھی ہر سانس جس کی ملک و ملّت کے لیے
دوسروں کے واسطے اس دَور میں زندہ تھا وہ
تسنیم عالم منظر کے سانحۂ ارتحال کے بعد میں نے ایک بار سوچا کہ چھوڑو، کیا یورپ جانا! لیکن پھر خیال آیا کہ حصولِ تعلیم کے لیے کسی بھی ملک کا سفر معیوب نہیں ہے۔ اسی دوران ایک روز اچھرہ میں مولانا مودودیؒ کے ساتھ میاں طفیل محمدؒ کی امامت میں عصر کی نماز پڑھی تو دعا کے بعد مولاناؒ نے مجھ سے پوچھا:’’کیا آپ نے پاسپورٹ بنوا لیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’جی ہاں!‘‘ فرمانے لگے: ’’کیا ارادہ ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’برطانیہ جانے اور وہاں سے پی ایچ ڈی کرنے کی خواہش ہے‘‘۔ آپ نے بڑی محبت کے ساتھ فرمایا: ’’پی ایچ ڈی بھی ہوجائے گی، اس وقت ہمیں نیروبی، کینیا (افریقہ) میں اپنے اداروں کو دیکھنے کے لیے کسی تازہ دم شخص کی ضرورت ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ ایک سال کے لیے نیروبی چلے جائیں‘‘۔ میں نے عرض کیا: ’’جی ٹھیک ہے، جیسا آپ فرمائیں۔‘‘
میرے اس جواب پر آپ نے فوراً کہا: ’’یوں ہی نہیں کہہ دیتے کہ ٹھیک ہے۔ پہلے تم گھر جائو، والدین اور اہلیہ سے مشورہ کرو، اگر وہ اس تجویز پر رضامند ہوں تو مجھے آکر بتادو۔‘‘ ملاحظہ فرمائیے یہ ہے ایک حقیقی مربی اور مرشد کا کردار! مولانا کے حکم کے مطابق میں گھر گیا اور سب گھر والوں کے سامنے مولانا کی یہ تجویز رکھی۔ چوں کہ سارا گھرانہ تحریکِ اسلامی سے وابستہ تھا، اس لیے سب نے کچھ گفتگو کے بعد اتفاق کیا۔ دو تین دنوں کے بعد جب واپس لاہور آیا تو مولانا نے پوچھا کہ ’’کیا فیصلہ ہوا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیاکہ ’’آپ کے حکم کی تعمیل پر سب اہلِ خانہ رضامند ہیں‘‘۔ مولاناؒ نے فرمایا ’’اب آپ اپنا پاسپورٹ خلیل حامدی صاحب کو دے دیں۔ وہ آپ کا عمرے کا ویزا لگوا دیں گے۔ پہلے آپ سعودی عرب جائیں، عمرہ کریں، مدینہ منورہ حاضری دیں اور وہاں سے نیروبی کی طرف سفر کا اہتمام رائو محمد اختر صاحب (جدہ) کردیں گے۔‘‘
مولاناؒ کے حکم کے مطابق میں نے خلیل حامدی صاحب کو پاسپورٹ دیا اور چند دنوں کے لیے گھر چلا گیا۔ اپنے تمام جماعتی ساتھیوں اور ذمہ داران سے سفر سے قبل الوداعی ملاقات کی اور عزیز و اقارب و رشتے داروں کی ضیافتوں کا لطف اٹھایا۔ گائوں اور آس پاس کے دیہات کے احباب بھی ان چند دنوں میں مسلسل ملنے کے لیے آتے رہے۔ جب واپس لاہور آیا تو حامدی صاحب نے عمرے کا ویزا لگوا دیا تھا اور پی آئی اے سے سفر کی بکنگ بھی کروا دی تھی۔لاہور سے کراچی، کراچی سے جدہ۔ یہ جنوری 1974ء کی دو یا تین تاریخ تھی جب میں لاہور سے روانہ ہوا۔
گائوں سے میرے والد صاحب نے مجھے رخصت تو کردیا، مگر انھیں چین نہ آیا۔ چناںچہ شام تک وہ بھی اچھرہ آپہنچے۔ وہاں سے ہم صفدر علی چودھری صاحب کے گھر (نجف کالونی) گئے اور رات وہیں گزاری۔ والد صاحب کی پیار بھری نصیحتیں اور پُرسوز دعائیں میرے لیے قیمتی اثاثہ تھیں۔ اس رات کی یادیں اب تک دل میں تروتازہ ہیں۔ اگلے روز ایک دو جماعتی ساتھیوں کے ساتھ والد مرحوم نے بھی لاہور ائیرپورٹ پر دعائوں کے ساتھ الوداع کہا۔
(جاری ہے)