شام میں کامیاب انقلاب اور بشارالاسد کے فرار نے اسد خاندان کے ساتھ ’’علوی‘‘ فرقے کے اقتدار کا خاتمہ بھی کیا ہے جو شام کی آبادی کا صرف 3فیصد ہے۔ اس فرقے کو نصیری مذہب بھی کہتے ہیں۔ اس فرقے کے عقائد اور تاریخ سے آگاہی شام کے سیاسی بحران کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
”نُصیری مذہب“ کو سمجھنے کے لیے، اُس کے تاریخی پس منظر اور عباسی خلافت کے عروج و زوال کو سمجھنا ضروری ہے۔
مامون عباسی (معتزلی)کے دور (198ھ تا 218ھ) تک عباسی خلافت اپنی پوری آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ قائم رہی۔
عباسی خلیفہ معتصم کے زمانے میں ترکی غلام خرید کر لائے گئے۔ انہیں فوج میں بھرتی کیا گیا۔ تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی غلام، فوجی کمانڈر بن کر ”اصل حکمران“بن گئے۔ عباسی خلیفہ برائے نام ہوتا تھا۔ یہ خلیفہ کو قید کرتے، اندھا کرتے، یہاں تک کہ قتل کردیتے اور عباسی خاندان کے کسی بچے یا نوجوان کو برائے نام خلیفہ مقرر کرکے خود حکومت کرتے۔ یہ ترکی کمانڈر (232ھ تا 333ھ) تقریباً ایک سو سال یا کچھ زائد سالوں تک فعال اور متحرک رہے۔
اسی دور میں باطنی فرقوں کا ظہور ہوا۔ سب سے پہلے 261ھ میں ”قرامطہ“ ظاہر ہوئے۔ پھر 268ھ میں ”اسمٰعیلی“ ظاہر ہوئے۔ پھر اسی زمانے میں ”نُصیریہ“ فرقہ وجود میں آیا۔ پھر 297ھ میں ایک اسمٰعیلی عبیداللہ المہدی نے تونس میں ایک اسمٰعیلی حکومت قائم کی، جسے ”سلطنتِ عبیدیہ“کہتے ہیں۔ پھر 300ھ میں ادھر عراق میں ”بارہویں امام“ کے عقیدے پر”اثنا عشری“ فرقے کا اتفاق ہوا۔ بارہویں امام ”امام مہدی“ کے بارے میں کہا گیا کہ اُنہوں نے 260ھ سے لے کر 329ھ تک تقریباً 70سال چھپ کر زندگی گزاری۔ اس عرصے میں ان کے چار نائب یکے بعد دیگرے کام کرتے رہے۔ 70سال کا یہ عرصہ امام مہدی کی غیبوبتِ صغریٰ کا زمانہ کہلاتا ہے۔ 329ھ کے بعد اُن کی غیبوبتِ کبریٰ کا آغاز ہوا، جو قیامت سے کچھ پہلے تک رہے گا۔ اور یہی امام مہدی بن کر قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گے۔
323ھ کے بعد تاریخ نے ایک اور قوت کا جلوہ دکھایا۔ یہ اثنا عشری شیعوں کی حکومت تھی۔ آلِ بویہ، جنہیں دیالمہ بھی کہتے ہیں، ایک بڑی فوجی قوت کے ساتھ نمودار ہوئے۔ پہلے فارس، پھر رے، اور پھر بغداد پر قبضہ کرلیا۔ ان کا اقتدار 323ھ سے 447ھ تک تقریباً 124سال قائم رہا۔ صورتِ حال وہی تھی جو ان سے پہلے تھی۔ عباسی خلیفہ برائے نام ہوتا۔ اصل حکمران دیالمہ تھے۔ خلیفہ انہیں خطابات سے نوازتا۔
363ھ میں پُراسرار مصنفین کا ایک باطنی گروہ بصرہ میں ظاہر ہوا۔ انہیں ”اِخوان الصَّفا“ کہا جاتا تھا۔ یہ بھی ”اسمٰعیلی شیعہ“ تھے، جو آلِ بویہ کے زمانے میں بہت فعال تھے۔ ارسطو کے فلسفے سے بہت متاثر تھے۔ مسلمانوں میں ارسطو کے پیروکار فلسفی فارابی (339ھ) اور اسمٰعیلی شیعہ فلسفی بو علی سینا (م428ھ) اسی دور کی یادگار ہیں۔
اس عرصے میں تونس کی سلطنتِ عبیدیہ، 357ھ میں مصر کی ”اسمٰعیلی فاطمی خلافت“میں بدل گئی۔ یہ خلافت 567ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں ختم ہوگئی۔ اسی زمانے میں باطنیہ کا ایک اور ”فرقہ دُروزیہ“ کا 410ھ میں ظہور ہوا۔ دروز نے یونانی فلسفے کو اپنے عقائد میں جگہ دی۔
447ھ میں اثنا عشری شیعوں کا یہ اقتدار بھی ایک صدی کے بعد ختم ہوگیا، جب سلجوقی ترکوں نے طغرل بِک کی قیادت میں بغداد پر قبضہ کرکے دیالمہ کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ پھر وہی صورت حال تھی۔ عباسی خلیفہ برائے نام ہوتا، اصل اقتدار سلجوقی ترکوں کے پاس تھا۔
بالآخر 656ھ میں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوگیا۔
قَرَامِطَہ 261ھ:
باطنی فرقوں میں سب سے پہلے 261ھ میں قرامطہ کا ظہور ہوا۔
261ھ میں حمدان قرمط اور مامون قرمط نے فارس (جنوبی ایران) میں ”قرامطہ“ کی بنیاد رکھی۔ حمدان کے شاگرد کاتب نے زکرویہ قرمطی کی تربیت کی۔
286ھ میں زکرویہ نے اپنے استاد”کاتب قرمطی“کو قتل کردیا۔ یہ زندیق اور اِباحیت پسند تھے۔
286ھ سے 366ھ تک تقریباً 80سال اَحساء، قطیف، دمام (مشرقی سعودی عرب) کے علاقوں پر قرامطہ نے حکومت کی۔ حاجیوں کا قتل عام کیا۔ 317ھ میں مکے پر حملہ کرکے حجرِ اسود چرا کر لے گئے۔ 339ھ میں 22سال بعد حجرِ اسود لا کر دوبارہ نصب کیا گیا۔
اسمٰعیلیہ 268ھ:
قرامطہ کے ظہور کے چند سالوں بعد ہی باطنیوں کا ایک اور فرقہ ”اسمٰعیلیہ“ پیدا ہوا۔
268ھ میں یمن کے اسمٰعیلی حاکم ”حُسین بن حوشب المصور“ نے ”حُسین الصُّوفی المُحتَسِب“ کو شام اور تونس بھیجا۔
”حُسین الصُّوفی المُحتَسِب“نے شام کے شہر ”سالمیہ“ کو مرکز بنایا۔ یہاں خفیہ طور پر باطنی دعوت پھیلاتا رہا۔ پھر یہ تونس (افریقہ) گیا اور وہاں جاکر اہل بیت کے نام پر”عبیداللہ المہدی“کی بیعت لی۔ عبیداللہ المہدی نے دعوی ٰ کیا کہ وہ حضرت اسمٰعیل بن جعفر الصادق کی اولاد میں سے ہے۔ چار پشتوں تک اس کے آباء روپوش رہے اور یہی چار ’’امام مستور‘‘ہیں۔ وہ گیارہواں امام ہے اور ’’المہدی ‘‘ہے۔
297ھ میں عبید اللہ المہدی نے تونس (افریقہ) میں ”سلطنتِ عبیدیہ“ کی بنیاد رکھی، جو357ھ میں مصر کی ”اسمٰعیلی فاطمی خلافت“میں بدل گئی۔ ایک سال بعد عبیداللہ المہدی نے اپنے محسن ”حُسین الصُّوفی المُحتَسِب“ کو 298ھ میں قتل کرا دیا، تاکہ اُس کے نسب اور اُس کی باطنی تحریک طشت از بام نہ ہوجائے۔
567ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے اسمٰعیلی فاطمی حکومت کا خاتمہ کیا۔
نُصَیرِیَّہ 265ھ تا 270ھ:
260ھ میں شیعوں کے گیارہویں امام حضرت حسن عسکری ؒ کی وفات ہوئی۔ ان کا ایک شاگرد محمد بن نُصَیر النُّمَیری تھا، جس نے ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہونے کا دعویٰ کیا، لیکن عراق کے شیعوں کی اکثریت نے اسے مسترد کردیا۔ اسی نے فرقہ نُصیریہ کی بنیاد رکھی۔ محمد بن نُصَیر النُّمَیری کہتا تھا کہ میں حضرت حسن عسکری ؒ کا دروازہ، اُن کے علم کا وارث اور اُن کے لیے حجت ہوں، لیکن شیعوں کی اکثریت نے اس دعوے کو مسترد کردیا۔
اثنا عشری شیعہ 300ھ:
300ھ میں شیعوں کی اکثریت نے اماموں کی تعداد کو قطعیت دے دی۔ بارہ اماموں کا فیصلہ ہوا۔ حضرت حسن عسکریؒ لاولد تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا ایک بیٹا بچپن میں فوت ہوگیا تھا، لیکن شیعوں نے کہا کہ یہ ہمارے بارہویں امام ”مہدی“ ہیں۔ 260ھ میں غائب ہوگئے، لیکن مخصوص لوگوں سے ملتے رہے۔ ان کے بعد چار افراد امام مہدی کے ”نائبین“مقرر ہوئے۔ 260ھ سے 267ھ تک ”عثمان بن سعید عمری“پہلے نائب رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے ”محمد بن عثمان بن سعید عمری“ 305ھ تک دوسرے نائب رہے۔ ان کی وفات کے بعد ”حسین بن روح نوبختی“ 326ھ تک تیسرے نائب رہے۔ ان کی وفات کے بعد ”علی بن محمد بن سمری“ چوتھے اور آخری نائب رہے۔ ان کی وفات 329ھ میں ہوئی۔
اس کے بعد ”امام مہدی“ کی ”غیبوبتِ صغریٰ“ ختم ہوگئی۔ یہ ”غیبوبتِ صغریٰ“260ھ سے 329ھ تک تقریباً 70 سال قائم رہی۔ پھر اس کے بعد امام مہدی کی ”غیبوبتِ کبریٰ“ کا آغاز ہوا، جو قیامت سے پہلے امام مہدی کے ظہور تک رہے گا۔
دُرزِ یَّۃ 410ھ:
410ھ میں ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل درزی نے ایک باطنی فرقے ”دُرزِیَّہ“کی بنیاد رکھی جو اسماعیلی شیعہ تھا۔ فاطمی خلیفہ حاکم بامر اللہ(م 411ھ) کا منظورِ نظر تھا۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ ایک ایرانی ”حمزہ دروزی“ نے فاطمی خلیفہ حاکم بامر اللہ کو (م:411ھ) باطل عقائد کی تعلیم دی تھی۔ اسی نے حاکم کی خدائی کا اعلان کیا۔ دعویٰ کیا تھا کہ اللہ کی روح پہلے آدم ؑ میں، پھر حضرت علی ؓ میں اور پھر الحاکم میں منتقل ہوئی۔
یہ حُلُول کا قائل تھا۔ چنانچہ فسادات برپا ہوگئے، جس کے نتیجے میں 410ھ میں درزی کی موت واقع ہوگئی۔
ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل درزی سے منسوب ”دُرزِیَّوں“کا یہ باطنی فرقہ، آج بھی لبنان کی پہاڑیوں پر موجود ہے۔
محمد بن نُصَیر النُّمَیری الکَذَّاب (270 ھ)
(1)محمد بن نصیر النمیری الکَذَّاب، حضرت حسن عسکری ؒ(م260ھ)کے شاگردوں میں تھا۔
حضرت حسن عسکری(م260ھ) کا رفیق اور مداح تھا۔ حضرت حسن عسکریؒ کی وفات کے بعد محمد بن نصیر نمیری نے دعویٰ کیا کہ میں گیارہویں امام حسن عسکری ؒکا دروازہ، ان کے علم کا وارث اور شیعوں کے لیے مرجع اور حجت ہوں۔ شیعوں کی اکثریت نے اس کے دعوے کو مسترد کردیا۔
نبوت کا دعویٰ: پھر محمد بن نصیر نمیری نے اپنی نبوّت کا دعویٰ کردیا۔ اس نے محارم کو حلال کیا۔
محمد بن نصیر النمیری کہتا تھا: ”اللہ تعالیٰ نے پنج تن میں ’’حُلُول ‘‘کیاہے“۔
پنج تن سے مراد شیعوں کے نزدیک محمد رسول اللہﷺ، حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ ہیں۔
ان کا عقیدہ ہے کہ یہ انبیاء کی طرح معصوم ہیں، اِن سے کوئی صغیرہ اور کبیرہ گناہ نہیں ہوسکتا، بلکہ انبیاء سے بھی افضل ہیں۔
270ھ میں محمد بن نُصیر نمیری کی موت واقع ہوگئی۔
(2) محمد بن جندب:محمد بن نُصیر کی موت کے بعد، محمد بن جندب اس کا جانشین مقرر ہوا۔
(3) عبداللہ بن الجنان جنبلانی: محمد بن جندب کی وفات کے بعد عبداللہ بن جنان جنبلانی نصیریوں کا امام بنا، اور اس نے مصر جاکر تبلیغ کی۔
پھر یہ لوگ شام، حلب اور بغداد میں کام کرتے رہے۔ محمد بن نُصیر کے پیروکار، نُمیری یا نُصیری کہلاتے ہیں۔
(4)حسین بن حمدان الخَصِیبی النُصَیرِی:اس کے بعد حسین بن حمدان خصیبی نام کا ایک نصیری پیدا ہوا، جو مصنف بھی تھا۔
اس نے ”الہدایۃ الکبریٰ“کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کی وفات(م334ھ، مطابق 945عیسوی) میں ہوئی۔
(5)خَصِیبی کے ایک شاگرد طبرانی نے نصیریوں کے فرقے کو منظم کیا۔
(6)محمد بن علی الجلی،حسین بن حمدان الخَصِیبی کا شاگرد تھا۔ اس نے نصیری فلسفے اور نصیری تصوف کو مضبوط کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
(7)حسین بن علی العمار بھی،حسین بن حمدان الخَصِیبی کا شاگرد تھا۔ اس نے آسان زبان میں نصیری فلسفے اور نصیری تصوف کو عوام میں پھیلایا۔
402ھ میں بغداد کے اہل سنت والجماعت کے علماء اور اثنا عشری جعفری علماء نے مل کر یہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ نُصیری کافر ہیں۔
(8) میمون سرور بن قاسم (م: 427ھ): 400ھ کے بعد میمون سرور بن قاسم نے شام کے علاقے، لاذِقِیَّہ (Latakia) کے پہاڑوں میں اپنا مرکز بنایا، یہاں ان کی حکومت قائم ہوئی۔
(9)حاتم طوبانی اور حسن عجرد (م:836ھ) حاکم بنے۔
(10) سلیمان آفندی اذانی (Sulayman AL-Adhani):
نصیریوں میں ایک بڑا نام سلیمان آفندی اذانی (Sulayman AL-Adhani)کا ہے۔
یہ 1250ھ یعنی 1834عیسوی میں پیدا ہوا۔یہ نُصیریوں کا ایک بہت بڑا مصنف گزرا ہے۔
سلیمان اذانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بعد میں عیسائی ہو گیا تھا۔
حنا بطاطو (Hanna Batatu)ایک فلسطینی مورخ تھا۔اس نے نصیریوں کے بارے میں بہت لکھا۔”بطاطو“خود ایک کمیونسٹ تھا۔اس کی وفات 2000ء میں امریکہ کے صوبے کنیکٹیکٹ میں ہوئی۔
(11)سلیمان المرشد:
نصیریوں میں ایک شخص سلیمان المرشد کے نام سے انطاکیہ (ترکیAntakya)میں پیدا ہوا۔اس کی تاریخِ ولادت 1898عیسوی ہے۔
یہ ایک معمولی چرواہا تھا، جو سادہ زندگی گزارتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں اس نے نصیریوں کی ایک نئی شاخ”مرشدیہ“ کی بنیاد رکھی اور لوگوں سے کہا کہ میں علی کے طرف داروں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔(حضرت علی ؓ کو وہ الٰہ مانتا تھا)
شام میں فرانسیسیوں کا مکروہ کردار:
1920ء سے لے کر 1946ء تک فرانسیسیوں نے شام پر حکومت کی۔ اس سے پہلے شام خلافت ِ عثمانیہ کے ماتحت تھا۔
فرانسیسی اچھی طرح جانتے تھے کہ شام میں سنی مسلمانوں کی آبادی 75فیصدسے زیادہ ہے۔ 10فیصدعیسائی ہیں۔ 3فیصد دروز ہیں۔ 3فیصداسمٰعیلی ہیں۔ 5فیصدسے کچھ زیادہ نصیری ہیں۔ اُنہوں نے اقلیتوں کو سنی اکثریت پر مسلط کرنے کا منصوبہ بنایا۔
سلیمان المرشد (1898ء تا 1946ء):
سلیمان المرشدنصیری ایک بہت ہی چالاک آدمی تھا۔ اس نے فرانسیسی حکام سے اچھے تعلقات قائم کر کے اُن کی حمایت حاصل کرلی۔ فرانسیسیوں نے اس تحریک کو تقویت دی۔ فرانسیسیوں نے سلیمان المرشد کے حامیوں کو فوج میں بھرتی کیا۔انہیں بڑے بڑے فوجی عہدے دیے، تاکہ یہ اہل سنت والجماعت کی اکثریت کے خلاف لڑنے کے لیے صف آرا ہوجائیں۔ فرانسیسیوں نے انہیں ایک نیا نام دیا۔
شام کے موجودہ عَلَوِی اور نُصَیرِی:
اب اس گروہ کا نام”نصیری“ کے بجائے ”علوی“تھا۔
سلیمان المرشد کا خدائی کا دعویٰ:
نبوت کا دعویٰ کرنے کے بعد سلیمان المرشد نے خدائی کا دعویٰ کیا۔ اس کے پیروکار اس کی تعظیم کرتے رہے۔اس کی دعوت انطاکیہ (ترکی)کے ساحلی علاقوں سے شام کے ساحلی علاقوں میں پہنچی۔ لاذقیہ اور طرطوس میں اسے حمایت حاصل ہو گئی۔
سلیمان المرشد نے ربوبیت کا دعویٰ کرنے کے بعداپنے ایک شاگرد اور معتقد ”سلیمان المیدہ“ کواپنا نبی اور رسول مقرر کیا۔
1946عیسوی میں سلیمان المرشد کی وفات ہوئی۔ اس نے 48سال عمر پائی۔
شام کی آزادی:
شام 1945ء میں فرانس کے استعمار سے آزاد ہوا، لیکن فرانسیسی فوجیں وہاں موجود رہیں۔ آزادی کے بعد ملک میں کئی فوجی بغاوتیں ہوئیں۔ 1947ء میں ایک آرتھوڈکس عیسائی مائیکل افلاک نے”بعث پارٹی“قائم کی۔ اس میں ایک سنی مسلمان صلاح الدین بیطار اور ایک نصیری زکی الارسوزی بھی شامل تھے۔ زکی بعد میں ملحد ہو گیا۔ 1966ء کی بغاوت میں بائیں بازو کے اشتراکی نظریات رکھنے والوں نے مائیکل افلاک اور صلاح الدین بیطار کو برطرف کر دیا۔ اب اس کے نئے رہنما نصیری صلاح الجدید اور حافظ الاسد تھے۔ ان کا واضح جھکاؤ روس کی طرف تھا۔ اس طرح بتدریج شام میں روسی مداخلت بڑتی گئی۔
الاخوان المسلمون نے”نصیری سوشلزم“کی بھرپور مخالفت کی۔
حافظ الاسد اور اُس کے بیٹے بشار الاسد کا 54 سالہ دور:
بالآخر 1971ء میں نُصَیرِی شام میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کا نیا نام عَلَوِی تھا۔یہ لوگ خارج از اسلام ہیں۔
30سال تک حکومت کرنے والا شامی صدر حافظ الاسد (دورِ حکومت1971ء تا جون 2000ء)بھی نُصَیری اور عَلَوِی تھا۔
جون 2000ء میں حافظ الاسد نصیری علوی کی موت کے بعد اس کا بیٹا بَشَّار الأسَد نصیری علوی مسلمانوں پر مسلسل ظلم ڈھاتا رہا۔
دسمبر 2024ء میں یہ ملک چھوڑ کر روس فرار ہوگیا۔ شام کے اہل سنت نے اطمینان کا سانس لیا۔
یہ دونوں باپ بیٹے 54 سال تک اہل سنت والجماعت پر، بالخصوص الاخوان المسلمون پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہے۔ جعلی انتخابات کراکے منتخب ہوجاتے تھے۔ انہوں نے ہزاروں لوگوں کو قتل کیا اور ہزاروں کو جیلوں میں سخت ترین سزائیں دیتے رہے۔
ایران اور حزب اللہ کا مکروہ کردار:
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایران کی اثنا عشری شیعہ حکومت نے غزہ میں حماس کی حمایت کی، لیکن الاخوان المسلمون کے قتل عام میں باضابطہ طور پر بَشَّار الأسَد کی حمایت کے لیے کمانڈر بھیجے اور لبنان کی شیعہ جماعت ”حزب اللہ“کے کمانڈر حسن نصراللہ نے بھی عملی طور پر اس قتل عام میں حصہ لیا۔ اثنا عشری جعفری شیعہ پہلے تو نُصیریوں کو کافر سمجھتے تھے، لیکن اہل سنت والجماعت اور الاخوان کے خلاف یہ بھائی بھائی بن گئے۔
اس تضاد اور ظلم پر شیخ یوسف القرضاوی ؒ (م2022ء) اور شہید محمد المرسی ؒ (م2019ء)بھی چپ نہ رہ سکے اور علی الاعلان آواز بلند کی۔
نُصَیریَّہ کے عقائد:
محمد بن نصیر النمیری سے منسوب نُصَیریَّہ ایک فرقہ ہے۔ یہ باطنیہ کا ایک گروہ ہے۔
حضرت علی ؓ کی الوہیت:
نصیریہ کہتے تھے کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کی انسانی شکل و صورت حضرت علیؓ ہیں، گویا یہ عیسائیوں کی طرح عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نعوذباللہ حضرت علی ؓ کے انسانی جسم میں حلول کیا ہے۔
حضرت علی ؓ کی خالقیت:
حضرت علی ؓ کے بارے میں نصیریوں کا عقیدہ ہے کہ یہ زمین اور آسمان کے ”خالق“ہیں، جبکہ قرآن مجید صاف طور پر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔
(خَالِقُ کُلِ شَیءٍ) ”اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔“ (الرعد:16)
قرآن مجید کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کا خالق ہے۔
(إِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ) (الاعراف:54)
”بلاشبہ (اے انسانو)تم لوگوں کا رب اللہ ہی ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔“
لاہوت سے ناسوت تک:
نصیری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لاہوت نے ، حضرت علیؓ کے ناسوت میں ظہور کیا ہے، کیونکہ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے مانوس ہو کر اُسے عبادت سکھاتا ہے۔ نُصیریوں کی دعوت خفیہ ہوتی ہے۔
فلسفیوں کی طرح ”عالم“(دُنیا)کو اللہ تعالیٰ کی طرح نعوذ باللہ’’ قدیم ‘‘سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
آخرت کا انکار:
آخرت، قیامت، جنت اور دوزخ وغیرہ کا انکار کرتے ہیں۔
نصیریوں کے دیگر عقائد:
(1)مسلمانوں کے اندر رہتے ہوئے، قرآن کا اقرار کرتے ہیں، لیکن قرآنی آیات کی من مانی اور باطل تاویل کرتے ہیں۔
(2)ہندوؤں کی طرح تناسخ (Re-incarnation)کے بھی قائل ہیں۔
(3) شراب کو حلال سمجھتے ہیں۔
(4)وضو اور غسل نہیں کرتے۔
(5)پانچ نمازوں سے مراد، ان کے نزدیک پنج تن کے پانچ نام ہیں: علیؓ ، حسن ؓ ، حسین ؓ ، محسنؓ ، فاطمہ ؓ۔
(6)تیس (30)روزوں سے مراد، ان کے نزدیک تیس(30) عورتیں ہیں، جن کے نام انہوں نے گنوائے ہیں۔
روزہ نہیں رکھتے،لیکن رمضان میں بیویوں سے دور رہتے ہیں۔
(7)قدیم ایرانیوں کی طرح ”عید نوروز“بھی مناتے ہیں۔
(8)عید الاضحی10 ذوالحجہ کے بجائے 2 تاریخ کو مناتے ہیں۔
(9)یہ عیسائیوں کی عیدوں کو بھی شوق سے مناتے ہیں۔
نصیریوں کی آبادی:
نصیریوں کی دُنیا میں موجودہ کل آبادی(2024ء) تقریباً 40لاکھ ہے۔ شام میں ان کی آبادی تقریباً 10لاکھ ہے۔ ترکی میں تقریباً 5لاکھ ہے۔ارجنٹائن اور لبنان میں بھی ایک لاکھ سے زیادہ نُصیری آباد ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اسرائیل میں بھی تقریباً 5ہزار نصیری موجود ہیں، جو اسرائیل کی فوج اور خفیہ ایجنسیوں میں ملازم ہیں۔
آج کل زیادہ تر نصیری (علوی) شام کے علاقے، لاذِقِیَّہ (Latakia) اور طَرطُوس (Tartus)کے ساحلی علاقے میں موجود ہیں۔